انسان اور کالنگ کارڈ فون میں بحر حال فرق ہونا چاہئے۔اور میں سمجھتا ہوں
ہمارے اینکر پرسن منی رام کی پوجا کرنے کی بجائے عزت مل کو گلے لگائیں تو
شعبہ ء صحافت کی عزت بھی رہ جائے گی اور سیاسی کارکن کی خواہشات کا احترام
بھی۔مبشر لقمان تحریک انصاف پر کچھ یوں برسے کہ ساون کی گھٹائیں کیا برستی
ہوں گی۔یاد رکھیں لیڈر اور صحافی میں بہت فرق ہوتا ہے ہمارے بعض صحافیوں کو
اﷲ خوش رکھے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لیڈر کی لیڈری وہ کریں اور لوگوں کے
ووٹوں سے منتحب شدہ شخص عوام کی عدالت میں جانے سے پہلے ان کے لفظوں کی چکی
سے گزرے۔بعض اوقات تو ان کا لہجہ ہتک آمیز ہوتا ہے۔افتخار احمد محترمہ بے
نظیر کے ساتھ ایسا کر چکے ہیں۔
ہم اچھی تنقید کا برا نہیں مناتے مگر اتنے بھی بھولے نہیں ہم تنقید کے
پیچھے چھنکتے سکوں کی جھنکار بھی محسوس کر لیتے ہیں مبشر بڑی مشکل سے ریاض
ملک کیس سے نکلے تھے لگتا ہے ایسا ہے بستہ ب کے ملزموں کی طرح ہمارے یہ
لاجواب اینکر بھائی پھرعادتا جرم کر چکے ہیں۔ہم نے کب کہا ہے کہ تحریک
انصاف میں سب اچھا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف بساط بھر اچھا بننے کی
کوشش کر رہی ہے اور اس وقت ۳۵ پنچروں کے باوجود پاکستان کی دوسری مقبول
ترین جماعت ہے۔
پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی واحد پارٹی ہے جس نے کارکنوں کو طاقت دی ہے
اور انٹرا پارٹی انتحابات کرا کے ثابت کیا ہے کہ وہ موروثی سیاست کے خلاف
عملی قدم اٹھانے والی واحد پاکستانی پارٹی ہے۔عام انتحابات ہو رہے تھے اور
ادھر پارٹی انٹرا پارٹی انتحابات میں مصروف تھی۔عمران خان چاہتے تو پارٹی
پر براجماں لوگوں کو طاقت دے دیتے اور پھر ٹکٹ انہیں مل جاتے اور وہ نوجوان
جنہیں خان نے خواب دکھایا تھا کہ انہیں ٹکٹ دیے جائیں گے ان خواب دیکھنے
والوں کے سپنوں کے ساتھ جو کھلواڑ ہوتا اس کی ذمہ داری کون لیتا؟ پارٹی کے
ان انتحابات میں بڑے بڑے برج الٹ گئے۔لوگوں کو شاید معلوم نہیں کہ عمران
خان کے جگری دوست اور سعودی عرب سے ایک نہایت پر کشش ملازمت چھوڑ کر جانے
والے احسن رشید پنجاب کی صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ایک عام کارکن اعجاز
چودھری جنہیں پارٹی کارکنوں کی حمایت حاصل تھی وہ انتحابات جیت کر آ
گئے۔کارکنوں نے اپنے لیڈر خود چنے اور میں آپ کو کیا مثال دوں راولپنڈی کی
صوبائی اسمبلی کی ٹکٹیں انہیں ملیں جو سڑکوں پر نعرے لگایا کرتے تھے پارٹی
نے انہیں عزت دی وہ الیکشن جیت کر اسمبلی پہنچ گئے۔کیا یہ سب کچھ اچھا
تھا۔نہیں یقینا یہاں بھی غلطیاں ہوئیں اور کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ۳۵
پنکچر تو باہر سے لگے ۷۰ ہم نے خود بھی لگائے۔مگر ٹھہریے مبشر لقمان صاحب
اس میں عمران خان اور تحریک انصاف کی کیا غلطی تھی جو اس نے نئے لوگوں پر
اعتماد کیا۔آپ یہ کہتے ہیں پارٹی میں ہل چل مچ گئی ہے اور فارورڈ بلاک بن
رہے ہیں۔تحریک انصاف کارکنوں کی پارٹی ہے لوگ اپنے لیڈر اور اپنی قیادت کے
خلاف بات کر سکتے ہیں۔چلئے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ تحریک انصاف کے علاوہ
دیگر پارٹیوں میں کیا کلچر ہے۔ہے کسی کی جرائت جو پاکستان مسلم لیگ نون کی
قیادت سے اختلاف کر سکے؟میں نے سرور پیلیس میں میاں نواز شریف کے سامنے ان
کی قیادت کو ہاتھ بندھے کھڑے دیکھا ہے۔کسی مسلم لیگی ایم این اے اور ایم پی
اے کی ہمت نہیں کہ وہ پارٹی کے خلاف بات کر سکے۔اس روز شیخوپورہ کے سابق
ایم پی اے میاں نواز ارائیں ایک تقریب میں ملے انہوں نے کہا کہ میں نے ۸۸
آزاد جیت کر میاں نواز شریف کا ساتھ دیا انہوں نے اقتتدار میں آ کر مجھے
یکسر بھلا دیا ہے ۔دوسری میز پر موجود، اعجاز الحق کے گھرانے سے فیض پانے
کے بعد ان سے جو سلوک ہوا وہ بھی دنیا جانتی ہے۔تیسرے دوست مسعود پوری تھے
جو اعجاز اور شیخ رشید سے دوستی کے جرمانے ادا کرتے رہتے ہیں اپنی کیا
بتاؤں جب مشرف دور میں ہم پر ستم ڈھائے جا رہے تھے نواز شریف اپنے ساتھیوں
کو جیل سے لے اڑے اور ہم چکی پیستے رہ گئے۔پاکستان پیپلز پارٹی میں جو کچھ
کارکن کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ہمیں اور آپ کو علم ہے آج بھٹو کی تیسری نسل کی
خدمت کرتے ہوئے اعتزاز احسن جب گھڑی خدا بخش میں چہک رہے تو مجھے خیال آیا
کہ شکر ہے خدا کا کہ مجھ جیسے کارکن کو پارٹی کی اہم ذمہ داری دی گئی ہے
اور ہم ان چاپلوسیوں سے مبراء ہیں۔خدا عمران خان کی لمبی عمر کرے میں نہیں
جانتا کہ عمران خان کے بیٹوں کے نام کیا ہیں،لیکن وہاں نواز کے بعد مریم
وحسین اور شہباز کے بعد حمزہ و سلمان،پیپلز پارٹی میں بھٹو کے بعد بے نظیر
اور اس کے بعد آصف زرداری اور تو اور قوم کے سامنے اب بلاول بھی موجود
ہے۔پاکستان میں صرف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی ہے جہاں موروثی سیاست کی
کوئی گنجائش نہیں کالم لمبا ہو جائے گا باچا خان کے بعد ولی خان کے بعد
اسفند یار ولی،مفتی محمود کے بعد مولانا فضل،عبدالصمد اچکزئی کے بعد محمود
اچکزئی غرض موروثیت پاکستانی سیاست کو آکاش بیل کی مانند جکڑ چکی ہے ایک
عمران خان نے اسے توڑ کے رکھ دیا ہے جو بہت سوں کو ہضم ہی نہیں ہو
رہا۔میڈیا یاد رکھے کہ تحریک انصاف میں دراڑیں ڈالنے کے لئے بہت سوں کی
خواہش ہے کہ یہ پارٹی اڑنے سے پہلے ہی اڑ جائے اور سادہ نہیں پھر کر کے اڑ
جائے ایں خیال است و محال است و جنوں۔آج میری جدہ رہائیش گاہ میں جب پی ٹی
آئی کے دوست سر جوڑ کر بیٹھے تو یہی خیال تھا کہ تحریک انصاف ایک انتہائی
اہم موڑ پر ہے مگر جب قاید کی کھنکتی آواز الیکشن کمیشن آفس کے باہر سے سنی
کہ جو کچھ بہتر ہو گا اگر کوئی منسٹری کے لئے پارٹی چھوڑنا چاہتا ہے تو کسی
مغالطے میں نہ رہے۔ڈکٹر احمد،عبداﷲ رحمان،فرخ رشید،زاہد اعوان،سیف اﷲ مغل
شریک محفل تھے جب تھک گئے تو اﷲ رب العزت سے دعا کی کہ اﷲ پاک اس ملک اور
تحریک انصاف کے لئے جو بہتر ہے وہ کر دے۔قارئین! تحریک انصاف ایک نئی پارٹی
ہے اس میں لوگ اپنے اپنے ایجینڈے کے تحت بھی آئے ہیں اور سب سے زیادہ وہ
لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں عمران خان ایک نجات دہندہ کی شکل میں موجود ہیں اس
عرصے میں اس طرح کی کوششیں ہوں گی اور بعض اوقات پارٹی کا قبلہ درست کرنے
کے لئے ایسی کوششیں مثبت بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ میڈیا میں شامل چند لوگ ایک بے بنیاد پراپوگنڈے میں
مصروف ہو جاتے ہیں۔جن میں جناب مبشر لقمان اور اسی قبیل کے لوگ شامل ہو
جاتے ہیں۔اینکروں نے تو ٹھان لی ہے کہ کہ جو کچھ ہیں ہم ہی ہیں اور سیاست
دانوں کو ہماری مرضی سے سونا اور جاگنا ہو گا۔
عمران خان نے جہاں اپنی باتوں سے انہیں مطمئن کیا ہے وہیں انہوں نے نظریاتی
کارکنوں کو یقین بھی دلایا ہے کہ وہ اطمینان رکھیں اور گڈ گورننس کے لئے
کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔
سچ تو یہ ہے کہ اس وقت صرف اور صرف کے پی کے ہی ایک ایسا صوبہ ہے جو
پاکستان کے دیگر صوبوں سے زیادہ شفافیت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔آج تحریک انصاف
کے ایم پی ایز عمران خان کو ملنے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے قاید سے کھل کر
بات کی ہے۔میں دیکھوں گا جب مسلم لیگ کے لوگ میاں نواز شریف اور شہباز شریف
سے اپنے غم و غصے کا اظہار کر سکیں گے۔چودھری اختر وریو نے میاں نواز سے
اخلاف کیا تھا برسوں لگے ہیں ان کی اولاد کو اسمبلیوں میں پہنچتے
پہنچتے۔بڑے جگرے والا لیڈر وہی ہوتا ہے جو اپنے مخالف کی تنقید کو کھلے دل
سے برداشت کر لیتا ہے۔
جناب مبشر لقمان آپ اور کچھ اور دوستوں نے بڑی کوشش کی کہ تماشہ لگے اور
دنیا دیکھے مگر ایسا ہو نہ سکا۔
قارئین!تحریک انصاف سے لوگوں کو بے شمار توقعات ہیں۔یقین کیجئے اگر پنجاب
میں کرپشن ہوتی ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کوئی بات نہیں مگر کے پی کے میں اگر
یاسا ہوتا ہے تو لوگوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچتی ہے۔پی ٹی آئی کے منتحب
ممبران اس بات کا خیال رکھیں کہ پاکستان کے غریب پسے ہوئے عوام اور خصوصا
دہشت گردی کے شکار صوبے کے لوگ آپ کی جانب بڑی امیدیں لگائے بیٹھے
ہیں۔انہیں اس سے کوئی غرض و غایت اور شکوہ نہیں کہ پنجاب کا رانا ثناء اﷲ
فیصل آباد کی زمینوں پر زبردستی قبضے کرتا ہے اور لاہور میں شہباز شاہی لوٹ
کھسوٹ کے نئے ریکارڈ قایم کر رہی ہے ۔سندھ میں بھوک سے مرنے والوں کی ذمہ
داری لوگ حکومت پر ڈالں ے کے ساتھ خود اٹھا رہے ہیں اس لئے کہ انہیں علم
ہیں کہ مرسوں مرسون سندھ نہ ڈیسوں والے سندھی تو موت کے منہ میں دے دیں گے
مگر اپنی جیب سے روپیہ بھی نہ لگائیں گے۔انہیں دکھ ہو گا کہ اگر عمران کے
ساتھی پنجاب اور سندھ کی طرح لوٹ کھسوٹ کریں۔
پارٹی کے اندر احتساب کا کڑا نظام ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے با
اعتماد ساتھی ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔اس میں اگر رتی برابر بھی سچائی
ہے کہ جہانگیر ترین ماربل کا کام کرنا چاہتے ہیں تو بہتر یہی ہو گا کہ وہ
یہ کام بلوچستان میں کریں اس لئے کہ حکومتوں کا کام کاروبار کرنا نہیں اور
یہ عمران خان کی سوچ ہے ۔میں نہیں سمجھتا کہ کے پی کے میں تحریک انصاف کوئی
بھی لوز بال کھیلے گی۔اور اگر ایسا ہوا تو حکومت توڑ کر نئے انتحابات میں
چلے جانا بہتر ہو گا بجائے کہ حکومت کے ساتھ چمٹے رہنے کے۔
انسان اور کالنگ کارڈ میں بحر حال فرق ہونا چاہئے۔اور میں سمجھتا ہوں ہمارے
اینکر پرسن منی رام کی پوجا کرنے کی بجائے عزت مل کو گلے لگائیں۔ |