علم نقل (یا منتقل) کرنے کے بہت سے طریقے
ہیں جن میں کچھ اچھے اور کچھ خبیث ہیں، انٹرنیٹ کی دنیا میں کوئی شخص ایک
مضمون لکھتا ہے جسے وہ بہت عرق ریزی سے گھنٹوں بیٹھ کر تیار کرتا ہے، کوئی
دوسرا شخص آتا ہے اور کاپی پیسٹ کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بڑی آسانی سے
مضمون کسی دوسری ویب سائٹ پر منتقل کردیتا ہے (کبھی کبھی مصدر کا ذکر کیے
بغیر) اور پھر اس پر شکریے کے پیغامات گویا ٹوٹ پڑتے ہیں.. ‘کیا مضمون لکھا
ہے حضرت’.. ‘کیا بات ہے جناب کی بھئی ہم تو مان گئے’.. وغیرہ وغیرہ..
کیا یہ بے وقوفی کی انتہا نہیں؟!
انٹرنیٹ کی دنیا میں کوئی شخص ایک مضمون لکھتا ہے جسے وہ بہت عرق ریزی سے
گھنٹوں بیٹھ کر تیار کرتا ہے، کوئی دوسرا شخص آتا ہے اور ایک چھوٹی سی حرکت
سے مضمون کا ربط کاپی کرکے کسی دوسری ویب سائٹ پر پیسٹ کردیتا ہے اس طرح جو
بھی اس ربط کا مشاہدہ کرتا ہے مستفید ہوتا ہے.
دونوں طریقوں میں سے کون سا طریقہ بہتر ہے؟
بعض اوقات دوسروں کی سوچ چوری کرنے والا ٹولہ اپنے کرتوتوں کے جواز کے لیے
دین کا سہارا لیتا ہے.. تو عرض ہے کہ دین نے یہ کب کہا ہے کہ علم صرف کاپی
پیسٹ سے ہی پھیلے گا، اگر آپ مضمون کاپی کرنے کی بجائے اس کا ربط منتقل
کردیں تو اس طرح بھی تو آپ نے علم منتقل کردیا.. ہے کہ نہیں؟
اور پھر آپ کو پہلے سے موجود علم کو دوبارہ پھیلانے کی فکر کیوں لاحق ہوگئی..؟؟
صاحبِ مضمون نے اسے اپنی ویب سائٹ پر ہر خاص وزد عام کے لیے پہلے ہی مہیا
کر رکھا ہے..
لیکن جو صاحب دوسروں کی سوچ چوری کرنے پر بضد ہوں اور اپنے آپ کو پھنے خاں
سمجھتے ہوں گویا دنیا ایک جنگل ہے جس میں منگل کیا جاسکتا ہے تو ایسے لوگوں
کے ساتھ مفاہمت کی کوئی بات کار آمد نہیں ہوتی.. ان سے ہر پلیٹ فارم پر جنگ
کرنی چاہیے اور انہیں روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں
مضامین چوری کر کے کاپی کرنے سے آپ:
١- جن لوگوں کے آپ نے مضامین چرائے ہیں ان کے ساتھ مشکلات کا شکار ہوسکتے
ہیں.
٢- گوگل کا اعتبار کھودیتے ہیں.
٣- دوسروں پر ثابت کرتے ہیں کہ آپ بے وقوف ہیں اور آپ کا دماغ سوچنے اور
کچھ ایجاد کرنے کی صلاحیت سے بالکل عاری ہے.
۴- یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ سست ہیں اور کوئی محنت کرنے کے قابل نہیں.
لوگ آپ کا احترام کریں گے اگر:
١- اگر آپ ان سے ان کے مضامین اپنی ویب سائٹ پر نقل کرنے کی اجازت طلب کریں.
٢- مضمون کاپی کرنے کی بجائے آپ اس کا ربط اپنی ویب سائٹ پر دے دیں.
دوسروں کی محنت پر اپنی تعریفیں کروانا واقعی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
(بشکریہ اردو کوڈر) |