شکیلہ جب بھی گھر سے نکلتی، آس
پاس کی نظریں اُٹھتیں اور اُس کے نازک جسم سے آر پار گذر جاتیں۔ سر سے لے
کر پاؤں تک ایکسرے کیا جاتا۔اُس کی چال ناپی جاتی۔ انگ انگ گنے جاتے۔ ہر
اعضا ء کی تصویر کشی کی جاتی۔گلیوں، بازاروں اور محلوں میں گویا رونق سی
آجاتی۔ طلوع ہوتے ہوئے سورج کی کرنیں مزید چمک اُٹھتیں۔ دھوپ کا سنہرا رنگ
اور بھی سنہرا ہو جاتا۔جہاں جہاں سے گزر ہوتا جلوے بکھر جاتے۔ارشد جو صبح
ہوتے ہی گلی کی نکڑ پر کھڑا اُس کا انتظار کررہا ہوتا ، ہلکی ہلکی سیٹیوں
اورگنگناہٹ سے اُس کا استقبال کرتا۔ چاچا حمید چائے والا بھی چائے کو چھلنی
سے ہلاتے ہلاتے رک جاتا اور اپنی بیتی جوانی کو یاد کر کے اک ٹھنڈی سی آہ
بھرتا۔ شیدہ سبزی والا بھی اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا اور فیقا دودھ دہی
والا اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے محبت کی چاشنی محسوس کرتا۔ طارق
جو ایک پڑھا لکھا اور بے روزگار جینٹل مین ہے خود کو مرکز نگاہ بنانے کے
لیے بابو بن کر شکیلہ کی راہ میں آنکھیں بچھا دیتا۔ ماسٹر غلام نبی کا بیٹا
پپو تو دل تھام کر ایسا گرتا کہ جیسے اپنے ہوش ہی کھو بیٹھا ہو۔
شکیلہ بھی عمر کے اُس حصے میں تھی جب جوانی کی ساری بہاریں جوبن پر ہوتی
ہیں۔ مٹک مٹک کر چلنا اچھا لگتا ہے۔ کن اکھیوں سے عاشقوں کی حالت زار دل کو
تسکین پہنچاتی ہے۔گالوں کی لالی شرم و حیا سے اور بھی لال ہو جاتی ہے۔نظروں
کے تیر چلا کر دل جلوں کے سینے چاک کرنااک عادت سی بن جاتی ہے۔چلتے ہوئے
سمٹ سمٹ کر چلنا ادا بن جاتی ہے ۔چہرے پر گرتی ہوئی لٹوں کو بار بار
ہٹانازلفوں کی اہمیت بڑھا دیتی ہے۔شاعروں کو اپنی شاعری میں رنگ بھرنے کے
لیے الفاظ مل جاتے ہیں۔افسانہ نگار افسانوں کے لیے نئے نئے موضوع تلاش کر
لیتے ہیں۔نت نئی داستانیں جنم لیتی ہیں اور قصے کہانیوں میں بے جا اضافہ ہو
جاتا ہے۔خواب بھی اچھے لگتے ہیں اور خیال بھی۔ کیونکہ زندگی کے اس حصے میں
حالات جیسے بھی ہوں خیالات کی اپنی ہی پرواز ہوتی ہے۔
باغ میں جب کوئی پھول کھلتا ہے تو اُس کی خوشبو کسی ایک کے لیے نہیں ہوتی۔
اُسے ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے۔اور یہ محلہ تھا بھی کتنا بڑا ، کوئی بیس
پچیس گھر ہوں گے۔ اور اُن گھروں کے مکین سب ایک دوسرے کو جاننے والے، ملنے
ملانے والے، ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شامل ہونے والے۔ کس گھر میں کتنے
افراد ہیں، کون کیا کرتا ہے، کہاں جاتا ہے اور کہاں سے آتا ہے، اس بات سے
ہر کوئی با خبر رہتا ہے۔شکیلہ کا والد ایک سرکاری محکمے میں ملازم ہے۔ اچھی
خاصی تنخواہ ہے۔ رہن سہن رکھ رکھاؤ رئیسوں جیسا ہے۔ ہر باپ کی طرح اُس کی
بھی یہی خواہش کہ اُس کے بچے اچھے ماحول میں پرورش پائیں۔ اچھی تعلیم حاصل
کریں۔ والدین کے فرمانبردار رہیں۔اُنہیں دی جانے والی تربیت اُن کی زندگیاں
اور آخرت دونوں سنوار دے۔
شکیلہ اب کالج میں جانا شروع ہوگئی تھی۔ کالج اُس کے گھر سے زیادہ فاصلے پر
نہیں تھا اس لیے اُس نے کسی رکشے یا تانگے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ویسے بھی
اُسے پیدل کالج جانا اچھا لگنے لگا تھا۔ کالج میں بھی اُس نے اپنی ایک
پہچان بنا لی تھی۔ سب لڑکیاں اُس سے دوستی کی خواہش مند تھیں۔بہت سے اچھے
اچھے گھرانے کی لڑکیاں اُس کے حلقہ احباب میں شامل ہو چکی تھیں۔کالج کے
علاوہ محلے میں بھی اُس کے چرچے تھے۔ دو چار لڑکوں کے گھروں میں تو اُسے
تنگ کرنے کی شکایات پہنچ بھی چکی تھیں۔ اور ایک دو کو اُس کے باپ نے سر راہ
صلواتیں بھی سنائی تھیں۔لیکن یہ سلسلہ اب کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا
تھا۔ شریف، بدمعاش، سلجھے، اُلجھے یہاں تک کہ ہر نوجواں اُس کی قربت کا
خواہاں تھا۔جوان تو جوان بزرگ بھی اُسے ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے ۔
شکیلہ کو آج بھی ان ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا جو وہ روز کرتی
تھی۔آج بھی طرح طرح کی نظریں اُسے دیکھ کر اپنی پیاس بجھا رہی تھیں۔آج بھی
اُس کے بل کھاتے بدن پر لٹو ہوئے جوان گھوم رہے تھے۔آج بھی اُس کی کھلی
ہوئی زلفیں کالی گھٹا بن کر دیوانوں کو مسرور کر رہی تھیں۔آج بھی اُس کی
جھکی جھکی نظریں بار بار اُٹھ کر رندوں کو مخمور کر رہی تھیں۔ کیونکہ وہ آج
بھی اپنے گھر سے پوری سج دھج سے نکلی تھی۔ آج بھی اُس نے ٹائٹ جینز کے اوپر
ہاف سلیو ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔جس کے آر پاراُس کی جوانی کے سارے روپ دیکھے
جا سکتے تھے۔چاند جیسے چہرے پر ہلکہ سا میک اپ اُس کے حسن کو چار چاند لگا
رہا تھا۔ آنکھوں کا کاجل ، ہونٹوں کی سرخی اور قیمتی پرفیوم کی خوشبو نہ
چاہتے ہوئے بھی ہر کسی کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔آج بھی شکیلہ نے ان بھوکی
نظروں کی بھیڑ سے تھوڑا دور جاکر پلٹ کے بڑی نفرت سے دیکھا تھا۔ اور سر کو
ہلکی سی جنبش دے کر بڑبڑائی تھی \" ہونہہ۔۔۔ بے شرم \" |