حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ
میں تحریر کرتے ہیں حضرت عامر بن ربیعہؓ فرماتے ہیں میں نے ایک مرتبہ حضرت
عمر بن خطابؓ کو دیکھا کہ انہوں نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور فرمایا اے
کاش میں یہ تنکا ہوتا، کاش میں پیدا نہ ہوتا، کاش میں کچھ بھی نہ ہوتا، کاش
میری ماں مجھے نہ جنتی اور کاش میں بالکل بھولا بسرا ہوتا۔
حضرت سائب بن یزیدؓ فرماتے ہیں ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطابؓ سے پوچھا کہ
میرے لیے اﷲ کے راستہ میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا بہتر ہے یا اپنے نفس کی
اصلاح کی طرف متوجہ رہنا بہتر ہے؟ آپؓ نے فرمایا جو مسلمانوں کے کسی کام کا
ذمہ دار بنایا ہو اسے تو اﷲ کے راستہ میں کسی کی ملامت سے نہیں ڈرنا چاہیے
اور جو اجتماعی ذمہ داری سے فارغ ہو اسے اپنے نفس کی اصلاح کی طرف متوجہ
رہنا چاہیے البتہ اپنے امیر کیساتھ خیر خواہی کا معاملہ رکھے۔
لیجیے قارئین! آج ایک مناسب وقفے کے بعد ہم دوبارہ اسی کنویں کی طرف جانے
لگے ہیں جس سے یار لوگوں نے گندگی دور کرنے کے لیے سینکڑوں نہیں بلکہ
ہزاروں ڈول پانی کے تو نکال لیے لیکن گندگی کی اصل وجہ ’’کھوتا‘‘ ابھی تک
اسی ’’کھوہ‘‘ کے اندر ہی ہے۔ یہ کہاوت دیہاتی علاقوں میں ازراہ تفنن ان
سادہ لوح یا بیوقوف لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے کہ جنہوں نے ایک کنویں
کے اندر گدھا گرنے کے بعد بدبو اور گندگی دور کرنے کے لیے ہزاروں ڈول پانی
کے نکالنے کی زحمت تو گوارا کر لی لیکن تعفن اور نجاست کی اصل وجہ ’’مردہ
گدھے‘‘ کو کنویں سے باہر نکالنے کی جانب توجہ نہ دی یقین جانیے کچھ ایسی ہی
صورتحال اس وقت آزاد کشمیر کے سرکاری میڈیکل کالجز کے ساتھ ہے پی ایم ڈی سی
نے متعدد مکتوب آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری خضر حیات گوندل، سیکرٹری ہیلتھ
جنرل عباس اور دیگر ذمہ دار لوگوں اور اداروں کی وساطت سے آزاد کشمیر حکومت
کو تحریر کیے اور سختی سے مختلف معاملات کی اصلاح کا مطالبہ کیا۔ پی ایم ڈی
سی نے آزاد کشمیر کے میڈیکل کالجز کی ٹیچنگ فیکلٹی کو نامکمل قرار دیتے
ہوئے اسے فوری طور پر مکمل کرنے کی ہدایت کی، آزاد کشمیر کے میڈیکل کالجز
سے منسلک تربیتی ہسپتالوں کو فوری طور پر اپ گریڈ کرنے کے لیے کام کرنے پر
زور دیا اور جب پی ایم ڈی سی کے سابق چیئرمین آصف علی زرداری سابق صدر
پاکستان کے لنگوٹیے دوست ڈاکٹر عاصم حسین کی’’ فرمائش‘‘ پر محترمہ بینظیر
بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے انتہائی پروفیشنل ذمہ دار ودیانتدار
پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کو پراسرار انداز میں بغیر کسی چارج
شیٹ کے اس انداز میں نوکری سے فارغ کیا گیا کہ جیسے کسی دفتر کے نائب قاصد
یا چپڑاسی کو بھی فارغ نہیں کیا جاتا تو اس پر پی ایم ڈی سی نے انتہائی سخت
زبان استعمال کرتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کو سختی سے سرزنش کی کہ پروفیسر
ڈاکٹر عبدالرشید میاں پی ایم ڈی سی کے پانچ سینئر ترین ممبرز میں سے ایک
ہیں اور پی ایم ڈی سی کے قوانین ہیں کہ کسی بھی میڈیکل کالج کے پرنسپل کو
تعیناتی کے بعد پانچ سال تک برطرف نہیں کیا جا سکتا نیز برطرف کرنے سے پہلے
پی ایم ڈی سی سے این او سی یعنی عدم اعتراض سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ضروری ہے
اور اسی طرح کسی بھی پرنسپل یا پروفیسر کو دو ران سیشن فارغ کرنا بھی خلاف
قانون ہے اس لیے پی ایم ڈی سی پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کی برطرفی کو
غیر قانونی قرار دیتی ہے ہمارے مصدقہ ذرائع کے مطابق پی ایم ڈی سی کے ذمہ
داران نے اس حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کے انتہائی سینئر لوگوں سے ٹیلی فون
پر بھی رابطہ کیا اس دوران راقم نے جب ’’قلمی جہاد‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے جوں
ہی اپنا سر ’’منڈوایا‘‘ ہر طرف سے راقم کے سرپر’’اولوں اور پولوں‘‘ کی بارش
ہو گئی۔ پولا میرپور کی مقامی زبان میں جوتے کا بے تکلف نام ہے۔ ہم اس بات
پر بہت حیران ہوئے کہ ہم نے ایک خالصتاً علمی معاملے کو دلائل اور حقائق کی
روشنی میں عوام کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے آخر ایسا کون سا جرم ہم سے
سرزد ہو گیا ہے کہ ہمیں ’’آزمائش اور امتحان کی ٹکٹکی‘‘ پر چڑھا کر یار لوگ
سنگسار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس تمام مرحلے میں ایک انسان بلکہ یوں کہیے
کہ کمزور ایمان والے مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم گھبرائے بھی، تلملائے بھی،
جھنجھلائے بھی لیکن اﷲ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے پاؤں زمین پر قائم
رہے ڈگمگائے نہیں اور ہم آج بھی اسی کلمۂ حق پر قائم ہیں جو ہم نے پہلے دن
ادا کیا تھا اﷲ آئندہ بھی ہمیں حق پر قائم رکھے اور بغیر آزمائش کے ہی
ہمارے خام ایمان کو قبول کر لے۔ آمین
قارئین! اس وقفے کے دوران چند بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہمارے قابل ستائش
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اپنے اہل خانہ کے ہمراہ عمرے کی سعادت کے لیے
سعودی عرب گئے اور اس دوران ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد یا ان
ہاؤس تبدیلی یا ان پارٹی تبدیلی کے مختلف آپشنز پر’’کنگ میکرز اینڈ کنگ
بریکرز‘‘ نے کام شروع کیا۔ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید وطن واپس پہنچے اور
شنید ہے کہ محترمہ فریالتالپور اور آصف علی زرداری کا اعتماد جیتنے میں وہ
ایک مرتبہ پھر کامیاب ہو چکے ہیں اس کا حتمی نتیجہ 14 اپریل کے پارلیمانی
پارٹی کے اجلاس کے بعد اناؤنس کیا جائیگا اس دوران راقم نے سابق وزیراعظم
آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان صدر آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس، سابق
سپیکر و جنرل سیکرٹری مسلم لیگ ن آزاد کشمیر شاہ غلام قادر، قائمقام
وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری محمد یٰسین، ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق
فاروق، رہنما مسلم لیگ ن ممبر قانون ساز اسمبلی بیرسٹر افتخار گیلانی، وزیر
خوراک جاوید اقبال بڈھانوی، وزیر بحالیات عبدالماجد خان، مسلم لیگ ن کے
رہنما چوہدری سعید، پیپلز پارٹی کے رہنما غلام رسول عوامی، وزیر حکومت افسر
شاہد ایڈووکیٹ اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے بقول پی
ایم ڈی سی غیر قانونی طور پر برطرف کیے جانے والے انتہائی دیانتدار اور
پروفیشنل پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید سمیت متعدد اہم شخصیات کے
انتہائی اہم انٹرویوز استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ ایف ایم 93
ریڈیو آزاد کشمیر اور آزاد کشمیر کے سب سے پہلے لائیو ویب ٹی وی چینل
’’کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی‘‘ پر کیے۔ ان انٹرویوز میں ہم نے ان انتہائی اہم
شخصیات سے آزاد کشمیر کے میڈیکل کالجز کی مشکلات اور پی ایم ڈی سی کی طرف
سے پہلے مرحلے میں اگلے سال داخلوں پر پابندی کے ایشو پر بات کی تو انتہائی
دلچسپ جوابات سننے کو ملے سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ
’’جب ریسٹ ہاؤسز میں یونیورسٹیاں اور پولٹری فارمز میں میڈیکل کالجز بنائے
جائیں گے تو پھر کشمیری قوم کے تعلیمی مستقبل کا اﷲ ہی حافظ ہو گا۔ آزاد
کشمیر حکومت نہ تو کسی کو ہائر کرنے سے پہلے سوچتی ہے اور نہ ہی فائر کرنے
سے پہلے سوچتی ہے‘‘
اسی طرح مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے قائدین شاہ غلام قادر، چوہدری طارق
فاروق، بیرسٹر افتخار گیلانی اور چوہدری محمد سعید کا موقف تھا کہ آزاد
کشمیر حکومت نے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کوئی منصوبہ بندی کئے محض سیاسی
پوائنٹ سکورنگ کے لیے آزاد کشمیر جیسے چھوٹے سے علاقے میں جہاں ایک میڈیکل
کالج کی ضرورت تھی وہاں تین میڈیکل کالجز بنا دیئے اور اس سلسلہ میں کسی
بھی قسم کی مالیاتی منصوبہ بندی نہ کی گئی اور ابتدائی نظام چلانے کے لیے
آزاد کشمیر کے تمام ترقیاتی منصوبوں میں موجود فنڈز کو میڈیکل کالجز میں
منتقل کر دیا جس سے ترقیاتی منصوبے رک گئے اور اب فنڈز ختم ہونے کی وجہ سے
میڈیکل کالجز بھی داؤ پر لگ چکے ہیں پی ایم ڈی سی انتہائی محترم اور ذمہ
دار ادارہ ہے اور مجاور حکومت مہربانی فرما کر اس ادارے سے پنجہ آزمائی
کرنے کی بجائے ان کی سفارشات پر عمل کرے مسلم لیگی قائدین کا یہ بھی کہنا
تھا کہ آزاد کشمیر کی مجاور حکومت نے یہ تینوں میڈیکل کالجز خود بنائے ہیں
اور اب وفاقی حکومت یا میاں نواز شریف پر یہ الزام عائد کرنا زیادتی ہے کہ
وفاقی حکومت آزاد کشمیر حکومت اور میڈیکل کالجز کی مالی مشکلات دور نہیں کر
رہی اسی طرح جب ہم نے پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے رہنماؤں اور وزراء سے
گفتگو کی تو ان کا موقف تھا کہ ہماری حکومت نے تین سال کے قلیل عرصے میں
میڈیکل کالجز سمیت ریکارڈ تعداد میں میگا پراجیکٹس شروع کیے ہیں اور ہم
اگلے الیکشن میں کارکردگی کی بنیاد پر فتح حاصل کرینگے پی ایم ڈی سی کی
پابندی اور مالی مشکلات کے حوالے سے وزیر حکومت عبدالماجد خان نے ایک
انتہائی معنی خیز جملہ ادا کیا کہ ’’ہمارے سیاسی مخالفین ہمارے میگا
پراجیکٹس کو فیل کرنے کے لیے جو گڑھا مالی مشکلات کی صورت میں ہمارے لیے
کھود رہے ہیں وہ کل خود اس میں گر سکتے ہیں۔‘‘
قارئین!اس سلسلہ میں راقم نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے صاحبزادے چوہدری قاسم مجید سے رابطہ کر کے
انہیں عمرے کی مبارکباد دینے کے لیے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے
کمال مہربانی کر کے اپنی رہائشگاہ پر ہمیں مدعو کر لیا وہاں آب زم زم پینے
اور سعودی عرب سے لائی گئی کھجوریں کھانے کے بعد ہم نے ان سے کشمیر نیوز
ڈاٹ ٹی وی کے لیے انٹرویو دینے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے رضا مندی
ظاہر کر دی اس انٹرویو میں چوہدری قاسم مجید نے کہا کہ آزاد کشمیر میں قائم
کیے جانے والے میڈیکل کالجز کی مثال پاکستان کے ایٹمی پروگرام جیسی ہے اگر
شہید بابا ذوالفقار علی بھٹو مالی مشکلات اور دیگر مسائل کو مد نظر رکھتے
تو پاکستان کبھی بھی ایٹمی طاقت نہ بن سکتاذوالفقار علی بھٹو شہید نے غیرت
کا ثبوت دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور
بنائیں گے اور اﷲ کی مہربانی سے ایٹم بم بن گیا اسی طرح اگر ہم اپنے ناقدین
اور سیاسی مخالفین کی علمی وعقلی گفتگو ہی سنتے رہتے تو آزاد کشمیرمیں کبھی
بھی تین چھوڑ ایک بھی میڈیکل کالج نہ بن سکتا اب یہ میڈیکل کالجز بن چکے
ہیں اور کشمیری قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں ہم مسلم لیگی قیادت اور مسلم
کانفرنس کے قائدین سے گزارش کرتے ہیں کہ چلیے ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ
ہم نے کسی بھی قسم کی مالیاتی یا فنی منصوبہ بندی کیے بغیر آزاد کشمیر میں
تین میڈیکل کالجز بنا دیئے ہیں آپ ہمیں وقت عنایت کریں اور پورا ہفتہ بیٹھ
کر ہمیں پلاننگ کر کے دے دیں ہم آپ کے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
چوہدری قاسم مجید نے کہا کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کشمیر کی ترقی کے
حوالے سے انقلابی سوچ رکھتے ہیں پونے تین سال کے اس پیریڈ میں ہماری حکومت
گرانے کے لیے سازشیں کی گئیں لیکن اﷲ جس کا ساتھ دے کوئی بھی اس کا کچھ
نہیں بگاڑ سکتا۔ہمارے تمام دوست اور پارلیمانی پارٹی متحد ہیں اور وزیراعظم
چوہدری عبدالمجید کو پارٹی کی مرکزی قیادت اور آزاد کشمیر پیپلز پارٹی کا
مکمل اعتماد حاصل ہے ہماری حکومت اپنے پانچ سال پورے کریگی اور کارکردگی کی
بنیاد پر ہم اگلا الیکشن بھی جیتیں گے چوہدری قاسم مجید نے کہا کہ میڈیکل
کالجز کا معاملہ انتہائی حساس ہے اور ہماری حکومت کسی بھی صورت میں ان
میڈیکل کالجز کو بند نہیں ہونے دیگی ہم امید رکھتے ہیں کہ شہید بی بی
محترمہ بینظیر بھٹو کیساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی تخلیق کرنے والے وزیراعظم
پاکستان میاں محمد نواز شریف مفاہمت کی سیاست کو مزید فروغ دینگے اور آزاد
کشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز سمیت دیگر میگا پراجیکٹس کو کامیاب بنانے کے
لیے ہماری مدد کرینگے۔
قارئین! چوہدری قاسم مجید کی یہ گفتگو انتہائی سنجیدہ نکات پر مشتمل تھی جو
ہم نے جھلکیوں کی صورت میں آپ کے سامنے رکھ دی ہے ہم نے پہلے بھی متعدد بار
اپنا یہ عزم دوہرایا ہے اور آج بھی یاددہانی کے لیے دہرا رہے ہیں کہ ماضی
میں ہم وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے سب سے بڑے ناقد رہے ہیں لیکن جب سے
انہوں نے کشمیری قوم کی غیرت اور وقار کے تحفظ کے لیے یہ جملہ ادا کیا کہ
’’ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی کشمیر کو صوبہ بنایا جا سکتا ہے‘‘ ہم ان سے
منسلک تمام جائز اور ناجائز رنجشیں بھول چکے ہیں کیونکہ انہوں نے حریت
پسندوں کے قبیلے کے سرخیل بانی نظریہ خود مختار کشمیر وجموں کشمیر محاذ
رائے شمار ی کے موقف کا اعادہ کیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا واحد حل رائے
شماری ہے اور کشمیری ایک قوم ہیں۔ ہم نے اس دن تحریر کی شکل میں یہ وعدہ
کیا تھا کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید آج کے بعد جنید انصاری آپ کا سب سے
بڑا مداح ہے اور آپ کے ہر درست کام کی ستائش ہمارا فرض ہے اور ہر غلطی کی
نشاندہی ادب وشائستگی کیساتھ کرنا ہم اپنی ذمہ داری سمجھیں گے بقول چاچا
غالب ہم یہ کہتے چلیں
نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جا
کاش یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے
اس نزاکت کا برا ہو، وہ بھلے ہیں تو کیا
ہاتھ آئیں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آؤ تو بلائے نہ بنے
بوجھ وہ سرسے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
قارئین! کالم کے اختتام میں ہم پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کی طرف سے
دیئے گئے انٹرویو میں جو باتیں کی گئیں ان کی ایک ہلکی سی جھلکی آپ کو
دکھاتے جائیں ڈاکٹر عبدالرشید کا کہنا تھا کہ انہیں بغیر کسی چارج شیٹ کے،
بغیر کسی جرم کے اچانک برطرف کیا گیا اور اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ آزاد
کشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز شدید ترین خطرے سے دوچار ہو چکے ہیں اگر پی
ایم ڈی سی کی ہدایات کے مطابق اصلاح احوال نہ کی گئی تو نہ صرف یہ میڈیکل
کالجز بند ہو سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پہلے مرحلے میں ان میڈیکل
کالجز میں کام کرنیوالے80 فیصد سے زائد پروفیسرز اور فیکلٹی ممبران آزاد
کشمیر سے ملازمتیں چھوڑ کر واپس چلے جائیں گے اور پورے پاکستان میں آزاد
کشمیر کے متعلق انتہائی منفی پیغام جائے گا اور اگلے دس سالوں تک کوئی بھی
قابل پروفیسر آزاد کشمیر آکر اپنی خدمات دینے کے لیے تیار نہیں ہو گا
پروفیسر میاں عبدالرشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید
میڈیکل کالجز کے حوالے سے سب سے زیادہ مخلص ہیں لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگوں
نے انہیں انتہائی غلط اور منفی بریفنگ دی ہے اور مجھے امید ہے کہ جلد ہی ان
سے ہونیوالی ملاقات میں غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اگر مجھے دوبارہ میڈیکل
کالج کا پرنسپل تعینات کر کے کام کرنے کا موقع دیا گیا تو انشاء اﷲ تعالیٰ
بہت جلد آزاد کشمیر کے میڈیکل کالجز پر اگلے سال داخلوں پر پی ایم ڈی سی کی
عائد کی جانیوالی پابندی ہٹوا دونگا۔
یہاں ہم کوئی تبصرہ نہیں کرتے البتہ ایک لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک سردار جی روزانہ بازار سے کچھ پھل خریدتے اور سارا دن سورج کی روشنی
میں انہیں رکھ کر خشک کرتے اور رات کو کھاتے
کسی نے حیران ہو کر ایک دن پوچھا
’’سردار جی یہ کیا معاملہ ہے کچھ ہمیں بھی بتائیں ‘‘
سردار جی نے لمبی آہ بھر کر جواب دیا
’’اویار جی کمزوری بڑی ہو گئی تھی ڈاکٹر نے مجھے روزانہ خشک پھل کھانے کا
مشورہ دیا ہے‘‘
قارئین!ہمیں امید ہے کہ میڈیکل کالجز کے انتہائی سنجیدہ اور حساس معاملے کو
’’ سردار جی سٹائل‘‘میں لینے کی بجائے ’’کھوتا ‘‘کنویں سے باہر نکالا جائے
گا تاکہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے اس انتہائی مخلصانہ کارنامے کو کوئی
نقصان نہ پہنچ سکے ہمارا کام فقیروں اور درویشوں کی طرح آواز لگانا ہے کوئی
سنے یا نہ سنے۔ رہے نام اﷲ کا۔ |