جمہوریت بہترین انتقام ہے

تحریر: سمانہ شفیق
سندھ حکومت نے ملک کی ثقافت بچانے کے لیے تو قومی خزانہ خالی کر دیا لیکن سندھ کے بچے بچانے کے لیے حکمرانوں کے پا س نہ تو وقت ہے اور نہ وسائل ۔تھر میں قحط سے ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ سندھ حکومت کی نا اہلی اور نا کامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور سونے پہ سہاگا یہ کے کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنا تو دور کی بات اپنی نااہلی پر شرمندہ بھی نظر نہیں آتا سندھ پر’’مسلط‘‘یہ نام نہاد حکمران اپنی سیاست چمکانے کے لیے یا یوں کہوں کے اپنے بچوں کو ’’field‘‘ میں لانے کے لیے سندھ فسٹول کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر د یے لیکن تھر میں امداد پہنچانے کے لیے’’ سماجی اداروں ‘‘ کی جانب دیکھ رہے ہیں دوسری جانب تھر سے کمزور اور بیمار جانور جن میں وائرس کی تصدیق کی جا چکی ہے ٹرک بھر بھر کے کراچی لائے جا رہے ہیں اِس طرح حرام خور بیوپاریوں کی عید ہو گئی ہے وہاں سے کوڑیوں کے دام جانور خرید کر یہاں مہنگے فروخت کیئے جا رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کے اب حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن اِن لوگوں کا غیر ذمیدارانہ رویہ دیکھ کر لگتا ہے کے اِن لوگوں میں ’’احساس‘‘ نام کی کوئی حس موجود ہی نہیں اور احساس ہوگا بھی کیسے ؟ ان کے اپنے بچے تو لندن اور دبئی جیسی جگہ پر پلتے ہیں اور جب پھل پھول کر جوان ہوجاتے ہیں تو حکمرانی کرنے پاکستان آجاتے ہیں ۔آج کل سیاست میں قدم رکھنے والے اور صرف بیان بازی سے کام چلانے والے بلاول بھٹو جن کو اردو پڑھنا تو دور کی بات اردو بولنا بھی ڈھنگ سے نہیں آتی اپنی پارٹی کے لوگوں کے پورے ناموں سے بھی واقف نہیں ہونگے ،جتنا قومی خزانہ یہ لوگ اپنی کھوئی ہوئی عزت واپس لانے کے لیے اُوٹ پٹانگ حرکتوں میں صرف کر چکے ہیں اگر اُسکا ایک فیصد بھی عوام کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگاتے تو آج انہیں مارکیٹ میں واپس آنے کے لیے کسی فسٹول کا سہارا نہیں لینا پڑتا ۔ وزیرِاعلیٰ سندھ سمیت پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کے اُنہیں اپنی کارکردگی پر کوئی ندامت نہیں اُلٹا بیان دیتے ہیں کے بچوں کی اموات قحط سے نہیں بلکہ بیماری سے ہوئی ہے ، یعنی بیماری سے موت قابل ِقبول ہے قحط سالی سے نہیں ؟ وہ یہ بھول جاتے ہیں کے حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا کے عراق میں (یعنی مدینہ سے دور دراز علاقے میں بھی )دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتّا بھوک یا پاس سے مر گیا تو قیامت کے دن عمر سے اِس کی باز پرس ہوگی !

وزیرِاعلیٰ کو منصب سے نہ ہٹانے کا فیصلہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کے پارٹی کے پاس اب شاہ صاحب کے علاوہ کوئی ایماندار انسان باقی ہی نہیں بچا اور اگر کوئی بچا بھی ہے تو وہ بھی اپنا دامن بچا کر بھاگنے کے چکر میں ہے ۔اِن کی پارٹی کا مستقبل جو بھی ہو عوام کیوں ان نااہلوں کے ہاتھوں پچھلے ۷ سالوں سے بے وقوف بن رہی ہے ۔تھرپارکر کے عوام نے ’’تیر ‘‘ کو ووٹ دے کر فتح یاب کروایا آج اُس ہی تیر کو انکے بچوں کے سینوں میں گھونپا جا رہا ہے اِن سب حلات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کے کہی نہ کہی عوام بھی اپنی اس حالت کے ذمہ دار ہیں اگر تھرپارکر کی عوام سے آج بھی پوچھا جائے کے وہ کس کو ووٹ دئنگے تو اُن کے منہ سے بے ساختہ یہ ہی نکلے گا کے’’جیت کا نشان تیر کا نشان ‘‘

آج بلاول بھٹو ذرداری اپنے منہ بولے چچا ،ماموں پر دل کھول کر تنقید کرتے ہیں کبھی انکے نشانے پر مشرف انکل ہوتے ہیں تو کبھی نواز انکل لیکن یہ کبھی اپنے دورِ حکومت کی بات نہیں کرتے ! مشرف کی حکومت ہو یا نواز لیگ کی اِن کے دور میں باتوں کے ساتھ تھوڑا بہت کام بھی ہوا آپ لوگوں نے اپنے دورِ حکومت میں کیا کیا ؟؟ صرف باتیں ،تنقید اور اپنی غلطیوں کی بے جا حمایت ؟ بس کردیں جناب ہم جانتے ہیں کے آپ کی پارٹی شہداء کے خون سے ہمیشہ رنگی جاتی رہی ہے اور وہ لوگ بلاشبہ اِس ملک کا سرمایہ تھے بھٹو صاحب بے نظیر جسے لوگوں کی قیادت کا کوئی نظیر نہیں لیکن اب کب تک آپ شہداء کے نام پر لوگوں سے ووٹ مانگتے رہنگے ؟ اب کچھ کام بھی کر لیں ؟کچھ نہیں تو اپنی غلطی ہی تسلیم کر لیں دن بہ دن ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور سندھ حکومت اپنی فن کاریوں سے باز ہی نہیں آرہی بلاول صاحب نے موینجودڑوں میں ڈرلینگ کا حکم دے دیا تاکہ قدیم اثاثوں کو بچایا جا سکے ! ارے جناب پہلے جو اِس دنیا میں موجود ہیں اُنکو تو بچالو ! تھر میں جتنی بھی قحط سالی اور خشک سال سے جتنی بھی اموات ہوئی ہیں اُنکا تعلق غریب طبقے سے ہے کسی بھی ارباب ،ملائی ،راجپوت ،لوہانہ اور دوسری امیر جاتیوں تک یہ قحط نہیں پہنچ سکتا ،قحط میں اتنی ہمت کہا کے وہ سرمایہ داروں سے آنکھیں چار کر سکے ! تو حکمرانوں کو احساس کیسے ہوگا کے اِس وقت وہاں کے لوگوں پر کیا گزر رہی ہے ۔بشتر آفات ’’گڈ گورنس‘‘ کی عدم موجودگی کی وجہ سے آتی ہیں جن کو’’ قدرت کا لکھا‘‘ کہہ کر برداشت کرنے کا سبق دیا جاتا ہے ۔ذمہ داری صرف سندھ حکومت کی نہیں بلکہ وفاق بھی اِس غفلت میں برابر کا شریک ہے سترہ مارچ کو اسٹاک ہوم سے جاری ہونے والی عالمی ریسرچ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کے 2006 ء اور سال 2013 ء کے درمیان ۶ ممالک نے سب سے زیادہ اسلحہ خریدہ ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے پاکستا ن نے پچھلے سال کی نسبت اِس سال ایک سو انیس فیصد زیادہ اسلحے کی خریداری کی ہے ! ایک ایسا ملک جو غربت اور آبادی کی انتہا کو چھو رہا ہے ! جہاں مجموعی آبادی کا ۷۲ فیصد حصہ غریب ترین بتایا جاتا ہے! جہاں تھر پارکر کی پسماندگی اور پاکستان کے دیگر علاقوں کی ’’ترقی ‘‘میں کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں اجتماعی طور پر بھوک اور غذائی قلت ایک ہزار ایک سو ۸۴ بچوں کی جان لے لیتی ہے ! ایسے ملک میں اسلحہ کی خریداری پر قومی سرمایا لگانا ضروری ہے یا اِن بچوں کو زندگی کا حق دینا ضروری ہے ؟

سندھ حکومت ہو یا وفاقی حکومت سب نے اپنے فرائض سے منہ پھیر لیا ہے اور نہ اِن کے پاس عوام کے لیے وقت ہے ،یہ لوگ تو ایک دوسرے پر تنقید کرنے میں ہر وقت مصروف نظر آتے ہیں ،اِن سب حالات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کے جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔
 

Samana Shafiq
About the Author: Samana Shafiq Read More Articles by Samana Shafiq: 1317 Articles with 1028570 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.