بلوچستان میں جاری بربریت کی
تمام کار گزاریوں کے باوجود اسلام آباد میں بیٹھا حکمران طبقہ ابھی تک اس
خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ بلند وبانگ
دعوؤں اور ترقی و خوشحالی کے دلفریب نعروں سے بلوچ قوم کو رام کرنے میں
کامیاب ہوجائیں گے اور اس طرح بلوچستان میں بلوچ وطن کی آزادی کی جو جدوجہد
جاری ہے، اسے بھی کچل ڈالنے میں کامیابی حاصل کرلیں گے اگر گزشتہ ڈیڑھ
سالوں پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان کے موجودہ حکمران بھی اپنے پیش روؤں کی
روش پر عمل پیرا ہیں، اور اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کررہے ہیں کہ ان سے
بیشتر جو لوگ برسراقتدار تھے انہوں نے طاقت کے اندھا دھند استعمال کے ساتھ
ساتھ یہی نعرے بلند اور دعوے کئے کہ وہ بلوچستان میں ترقی و خوشحالی کے
دورا کرنے کے لیے بہتر اقدام اٹھا رہے ہیں- بلوچستان میں امن وامان کی
صورتحال بہتر ہے صرف چند لوگ ہیں جو ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہیں
اور شرپسندی اور تخریبی کاروائیوں میں ملوث ہیں- اسلام آباد میں حکومت میں
تبدیلی کے بعد جو لوگ برسراقتدار آئے اول تو انہوں نے معافی طلب کرنے اور
ماضی کی زیادتیوں کے ازالے کی یقین دہانیوں سے شروعات کی- پارلیمانی
کمیٹیوں کی بنیاد رکھی گئی- اسلام آباد میں سرکاری و نیم سرکاری دانشوروں
سمیت ایسے لوگ جو ہر دور میں حکومتی کیمپ میں ہی براجمان رہتے ہیں ان کو
اکٹھا کرکے جرگے کے انعقاد کا ڈھنڈورا پیٹا گیا، بلوچستان کی پسماندگی دور
کرنے کے لیے نام ونہاد پیکجز کا اعلان کیا جارہا ہے- لیکن بلوچستان کے
حالات میں کوئی سدھار نہیں آیا- فوجی آپریشن، جبری گمشدگیوں، گرفتاریوں،
درختوں پر لٹکتی لاشیں ان پر سگریٹ کے داغ سے پاکستان زندہ باد کے نعرے،
مسخ شدہ لاشیں اور بربریت کی کاروائیاں جاری ہیں اس کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈہ
کا لامتناعی سلسلہ شروع کیا جو ہنوز جاری ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہا-
بلوچستان اور بلوچ قومی رہنماؤں کے متعلق وفاقی وزیر داخلہ سے لے کر اس کے
بڑوں کی جانب سے ہر روز ایک نیا شوشہ اور اخباری بیان چھوڑا جاتا ہے- وفاقی
وزیر داخلہ کبھی یہ فرماتے ہیں کہ نوابزادہ براہمدغ بگٹی افغانستان میں
صدارتی محل کے قریب رہائش پزیر ہیں لیکن اگلے دن خود ہی فرماتے ہیں کہ
براہمدغ بگٹی دبئی چلے گئے ہیں- اس کے بعد یہ بیان جاری کرتے ہیں کہ
براہمدغ بگٹی افغانستان میں بیٹھ کر بلوچ نوجوانوں کو بلوچستان میں حالات
خراب کرنے کے لیے گوریلا تربیت فراہم کررہے ہیں لیکن چند دنوں کے بعد یہ
بیان جاری ہوتا ہے کہ بلوچ قومی رہنماؤں سے رابطے ہیں- بلوچستان کی صورتحال
میں جلد تبدیلی آئے گی- حالیہ دنوں میں وزیر داخلہ نے براہمدغ بگٹی سے
ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق وہ نوابزادہ
براہمدغ بگٹی سے ملاقات کے لیے عنقریب کابل جانے والے ہیں- جبکہ براہمدغ
بگٹی کئی بار یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ہی موجود ہیں ایسا لگتا
ہے کہ بلوچستان کے متعلق موجودہ حکمران بھی اپنے پیشروؤں کی روش پر سختی سے
عمل پیرا ہیں اور اس تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں جس طور بھی ممکن ہو بلوچ قومی
تحریک برائے آزادی کو دہشت گردی سے منسوب کرلی جائے اور جہاں تک بلوچستان
متعلق حکمران طبقے کے اس اعلان کہ بلوچ قیادت کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے
ہیں اور اس بارے میں بہت جلد تفصیلات منظر عام پر آجائیں گی بلوچستان کی
ساری جماعتوں کے ساتھ مشاورت مکمل ہوچکی ہے- موجودہ حکومت بلوچستان کی
صورتحال کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے اور اس حوالے سے بلوچستان کی تمام سیاسی
جماعتوں کی اے پی سی بھی بلائی جاچکی ہے اس حوالے سے وزیراعظم جلد وہاں
تعمیر و ترقی کے لیے خصوصی پیکچ کا اعلان کریں گے-
پاکستان کے سطح پر میڈیا سے وابستہ افراد اور بعض سیاسی جماعتوں کے عہدیدار
وزیر داخلہ کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے کیونکہ ان کے بارے میں مشہور
ہے کہ وہ بے پر کی اڑانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے- دہشت گردی سے متعلق ان
کی جانب سے جو دعوے کیے جاتے رہے ہیں اس وجہ سے ان کی ساکھ بری طرح متاثر
ہوئی ہے اور بلوچستان متعلق بھی وہ جو بیانات جاری کرتے ہیں ان سے بخوبی یہ
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دعوؤں میں کہاں تک صداقت ہے- اگر بلوچستان
متعلق یہاں کی سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کی گئی ہے تو وزیر داخلہ ان سیاسی
پارٹیوں کے نام ظاہر نہیں کرسکے ہیں کہ بلوچستان کے متعلق جو مشاورت کی گئی
ہے حکومت نے مشاورت کے لیے کون سی پارٹیوں سے رجوع کیا اور جہاں تک اے پی
سی کا تعلق ہے تو بلوچستان کی وہ قوم پرست پارٹیاں جو پارلیمانی طرز سیاست
سے ابھی تک گریزاں نہیں ہیں، انہوں نے بھی حکومت کی جانب سے ایسی کسی اے پی
سی میں شرکت کرنے سے انکار کا اعلان کیا ہے- لیکن وزیر داخلہ کے مطابق
بلوچستان متعلق بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں سے مشاورت بھی مکمل ہوچکی ہے اور
اے پی سی بھی بلائی جاچکی ہے- آئندہ چند دنوں میں بلوچستان متعلق وفاقی
وزیر داخلہ کا کس طرح کا بیان جاری ہوگا اس بارے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا
لیکن اتنا یقین ضرور ہے کہ وہ خود اپنے ہی دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے اس طرح
کا بیان جاری کریں جس سے ان کی راست گوئی کا اچھی طرح سے اندازہ ہوجائے گا
اور بلوچستان کے حکمران جو اٹھتے بیٹھتے بلوچ اور بلوچستان کے غم میں مبتلا
ظاہر کررہے ہیں اس بارے بھی اچھی طرح آگاہی حاصل ہوسکے گی- |