ڈیل کا صدارتی انکشاف، (ن) لیگ اور بڑھتی ہوئی مشکلات

ایک روز قبل صدر آصف علی زداری کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کی رخصتی کے وقت باقاعدہ ڈیل کے انکشاف اور انہیں محفوظ راستہ دینے کی تصدیق کے بعد ملکی سیاست گویا ہیجان کی سی کیفیت میں ہے اور ملک میں سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے نہ صرف صدر پر بھرپور تنقید کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے بلکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے تو اس بیان کے بعد صدر کیخلاف باقاعدہ تحریک لانے کا بھی اعلان کر دیا ہے جس کے بعد سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والے مختلف پیش گوئیاں کر رہے ہیں ۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟ اس بارے بھی مختلف آراء ہیں لیکن حقائق سے واقفیت رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ تبدیل شدہ صورتحال حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے لیے یکساں مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور اگر اس کا فوری تدارک نہ ہوا تو آنے والے دنوں میں مائنس ون یا مائنس ٹو کے بجائے مائنس آل کا فارمولا بھی چل سکتا ہے جو جمہوریت اور جمہوری نظام کے لیے کسی بھی صورت سود مند نہیں ہوگا۔ مبصرین کے یہ خدشات بلاوجہ نہیں کیونکہ اب تک کے شواہد کے مطابق صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ(ن) بھی سابق صدر پرویز مشرف کو محفوظ راستے دینے کے معاہدے میں برابری کی سطح کا فریق تھی ۔ اگرچہ ن لیگی قیادت حقائق کا پردہ چاک ہونے کے باوجود بار بار ڈیل میں شراکت داری کی تردید کر رہی ہے لیکن حقیقت بہرحال حقیت ہے جسے تبدیل کرنا ممکن نہیں، تلخ سچائی سے گوکہ قبل ازیں بھی بارہا پردہ اٹھایا جاتا رہا ہے لیکن تازہ ترین مہر تصدیق صدر آصف علی زرداری کے بیان کے بعد ایک خلیجی جریدے نے ثبت کی ہے۔

پرویز مشرف سے ڈیل کے حوالے سے ایک خلیجی جریدے نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ سابق صدر کو محفوظ راستہ دینے میں نواز شریف، آصف علی زرداری، امریکہ، سعودی اور برطانوی حکام سمیت پاکستان کی اعلیٰ ترین عسکری قیادت بھی ”آن بورڈ“ تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جمہوری استحکام اور کسی تصادم کو روکنے کے لیے دوست ممالک کو مداخلت کی درخواست صدر زرداری اور سابق صد رپرویز مشرف دونوں نے ہی کی تھی، دوست ممالک میں سب زیادہ اور اہم کردار سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ کا رہا کیونکہ اس وقت کے تینوں فریقین (نواز، زرداری اور مشرف) شاہ عبداللہ کو سب سے زیادہ قابل بھروسہ سمجھتے تھے، رپورٹ کے مطابق جو فارمولا طے پایا تھا اس کے مطابق ایک تو سابق صدر کی سکیورٹی کو فول پروف بنانا تھا، دوسرا ان کے خلاف کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہ کرنا تھا اور تیسرا مشرف کا کچھ عرصے کے بعد ملک چھوڑ کر بیرون ملک قیام کرنا تھا، جریدہ لکھتا ہے کہ سابق صدر کی رخصتی کے پہلے چھ سے آٹھ ماہ تک سارے معاملات اسی طے شدہ فارمولے کے تحت چلتے رہے بعد ازاں ن لیگ نے اپنی سیاسی ساکھ کو مزید بہتر بنانے کے لیے مشرف کے ٹرائل کا مطالبہ شروع کر دیا، جس سے پریشان ہوکر مشرف نے مشترکہ دوستوں کے ذریعے سعودی فرمانروا سے شکوہ کیا کہ تیسرا فریق معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہا لہٰذا شاہ عبداللہ جن کے پرویز مشرف سے انتہائی قریبی تعلقات قائم ہوچکے ہیں نے مشرف کو سعودی عرب کے دورے کی دعوت دی اور انہیں لندن سے لانے کے لیے اپنا خصوصی طیارہ بھی بھجوایا اور بعد ازاں نہ صرف ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا بلکہ انہیں سربراہ مملکت کے برابر سرکاری پروٹوکول بھی دیا گیا لیکن بعد ازاں جب نواز شریف عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب پہنچے تو انہیں وہ پروٹوکول نہیں دیا گیا جو اس سے قبل دیا جاتا رہا تھا جبکہ دوسری جانب ان کی سعودی شاہ سے ملاقات بھی انتہائی مختصر رہی جس کے دوران خاص طریقے سے انہیں مشرف سے کئے گئے وعدے کے پاسداری کا پیغام دیا گیا۔

صدر آصف علی زدرادی کی جانب سے معاہدے اور ڈیل کی تصدیق کے بعد پیپلز پارٹی پر تو جو تنقید ہو رہی ہے وہ اپنی جگہ درست مگر اس صورتحال کے سبب مسلم لیگ (ن) کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ مندرجہ بالا حقائق سامنے آنے کے بعد مشرف کے ٹرائل کے مطالبے کے نتیجے میں جس ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی تھی وہ اس قدر خراب ہورہی ہے کہ نواز لیگ کو جان کے لالے پڑگئے ہیں۔ وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما نبیل گبول نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مسلم لیگ نہ صرف جلاوطنی کے وقت کی گئی ڈیل کی طرح مشرف کی رخصتی کے وقت کی گئی ڈیل سے منحرف ہوگئی ہے بلکہ اس کی جانب سے مشرف ٹرائل کا مطالبہ بھی جعلی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان اگرچہ ڈیل کے انکشاف پر مشتمل بیان بارے صدر کے کیخلاف پارلیمنٹ میں تحریک لانے کا اعلان کر چکے ہیں لیکن کیا واقعی ایسا ہوگا؟ یا پھر کیا یہ تحریک کامیاب بھی ہوگی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن خاصے حل طلب ہیں کیونکہ صدر کے بیان کے عین ایک روز بعد چیف الیکشن کمشنر کی تبدیلی کے ساتھ ہی ملک بھر میں ضمنی انتخابات کی تاریخ کا اعلان اور پنجاب حکومت کی جانب سے امن عامہ کو عذر بنا کر یہ انتخابات رکوانے یا ملتوی کرانے کی درخواست کی مستردگی سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں جو بالآخر اسی بات پر منتج ہوتی ہیں کہ صدر آصف علی زرداری نہ صرف ڈیل کے انکشافات کے بعد ممکنہ رد عمل سے آگاہ تھے بلکہ انہوں نے اس کا توڑ کرنے کے لیے بھی انتظامات مکمل کر رکھے تھے۔

مسلم لیگ (ن) کی مشکلات کے حوالے سے دیکھیں تو سب سے پہلا”پل صراط“ ضمنی انتخابات میں کامیابی کا حصول ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 55راولپنڈی، این اے123لاہور اور این اے 271خاران جبکہ پنجاب میں صوبائی نشستوں پی پی 82 اور 284 میں منعقد ہونگے جن میں سب سے زیادہ اہم لاہور کا حلقہ این اے 123 ہے جہاں سے مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف بھی امیدوار ہیں۔ اگرچہ یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید ہاشمی کی جانب سے خالی کی گئی تھی اور اس حلقے میں ن لیگ کا اثرو رسوخ بھی خاصا ہے جس کے سبب میاں نواز شریف کی بلا مقابلہ کامیابی کے امکانات بھی ہیں لیکن اصل مشکل اس کے بعد شروع ہوگی کیونکہ باخبر حلقوں کے مطابق مشرف کے ساتھ کی گئی ڈیل کے وقت میاں نواز شریف یہ وعدہ بھی کر چکے ہیں کہ وہ قائد حزب اختلاف بھی نہیں بنیں گے۔ اب اگر میاں نواز شریف کامیاب ہوتے ہیں تو ان کی حیثیت ایک عام رکن اسمبلی سے زیادہ نہیں ہوگی اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے سبب پنجاب حکومت اب تک ضمنی انتخابات رکوانے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن ڈیل کے انکشاف کے جواب میں اس ڈیل کا حصہ ہونے کے باوجود احتجاج اس کے اپنے گلے ہی کی ہڈی بنتا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب ایوان میں مجوزہ قرارداد کی کامیابی کے لیے مطلوبہ حمایت کا حصول بھی جوئے شیر لانے سے کسی بھی صورت کم نہیں ہوگا۔ رہ گئی حکومت یا پیپلز پارٹی تو وہ تو پہلے ہی مشرف پالیسیوں کے تسلسل، ملک میں تہہ در تہہ بحرانوں اور سیاسی اتحادیوں کو ساتھ نہ لیکر چلنے کے الزامات کی زد میں رہنے کے سبب ”بدنام“ ہے چنانچہ حکمرانوں کے لیے نئی سیاسی صورتحال کچھ زیادہ پریشان کن نہیں، ویسے بھی اقتدار میں ہونے کی وجہ سے وہ مسلم لیگ (ن) کی نسبت ہر محاذ پر نستباً بہتر دفاع کرنے کی پوزیشن میں ہے لیکن نواز لیگ کے لیے حالات بالکل مختلف ہونگے کیونکہ صدر کے بیان کے بعد انتہائی واضح ہوگیا ہے کہ مشرف کا ٹرائل واقعی دیوانے کا خواب ہے اور اسی ٹرائل کا مطالبہ کر کے ساکھ بہتر بنانے کی کوششوں میں اہلیان رائے ونڈ کو لینے کے دینے پڑ چکے ہیں جو یقیناً سیاسی نقصان کا باعث ہونگے۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54848 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.