پروفیسر مظہر ۔۔۔۔ سرگوشیاں
یہ کوئی الف لیلوی داستاں ہے نہ گُل و بُلبل کا قصہ کہ سنا ، مزہ لیا اور
بھلا دیا ۔یہ تو جمہوریت کی مضبوطی اور آمریت کے خاتمے کی جنگ ہے ۔اگر
جمہوری قوتیں مضبوط ہو گئیں تو صحنِ چمن بادِ نسیم و شمیم کے جھونکوں سے
معطر ہو جائے گا وگرنہ خزاؤں کی بادِ سموم سے واسطہ تو ہے ہی ۔خرابیٔ قسمت
یہ کہ قوم کا واسطہ ایس ایم ظفر جیسے ماہرینِ آئین و قانون سے ہے جو یہ
کہتے ہیں کہ آئین و قانون پر عمل ضروری ہے لیکن امورِ مملکت میں بہت کچھ
کرنا پڑتا ہے ۔لا ریب گزشتہ 66 سالوں سے یہی ’’بہت کچھ ‘‘ ہماری قومی زندگی
کو گھُن کی طرح چاٹتا رہا اور نظریۂ ضرورت بھی اسی ’’بہت کچھ‘‘کی کوکھ سے
جنم لینے والا وہ ناسور ہے جس پر کسی ’’جراح‘‘ کو کبھی نشتر زنی کی ہمت
نہیں ہوئی ۔یہ بھی اسی نظریۂ ضرورت کا پڑھایا ہوا سبق ہے کہ جہاں کمزور کی
گردن ہاتھ آئی ، اُسے سولی پر چڑھا دیا اور اگر زور آور کا سامنا ہو گیا تو
بھیگی بلی بن گئے ۔حکمت کی کتاب ایسی ہی قوموں کے بارے میں کہتی ہے ’’اگر
تم منہ موڑو گے تو وہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے
نہ ہونگے ‘‘۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ حرف حرف پڑھنے کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے
کہ ’’میں الزام اس کو دیتا تھا ، قصور اپنا نکل آیا‘‘ ۔ ہمیشہ یہی ہوتا آیا
کہ جب بھی کسی طالع آزما نے حکومت پر قبضہ کیا تو تمام سیاسی جماعتیں اُس
کی پشت پر کھڑی ہو گئیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ بھٹو مرحوم کی پھانسی اور میاں
نواز شریف کی جلا وطنی کی اصل ذمہ دار پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہی تھیں
۔جب ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا تو سوائے پیپلز
پارٹی کے تمام سیاسی جماعتیں ضیاء الحق کی دست و بازو بن گئیں ۔ایسا ہی
میاں نواز شریف صاحب کے ساتھ بھی ہوا اور ایک آمر کو دَس بار وردی میں
منتخب کرانے کے دعوے دار پیدا ہو گئے ۔مارشلاؤں کی چھتری تلے بے اختیار سول
حکومتیں تشکیل پاتی رہیں لیکن فیصلہ سازی کا کُلّی اختیار ہمیشہ فوجی قیادت
ہی کے پاس رہا ۔اگر کبھی مارشل لاء کی چھتری کے بغیر ٹوٹی پھوٹی سول
حکومتیں قائم بھی ہوئیں تو فوج نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اُنہیں چلتا
کیا ۔پیپلز پارٹی کے پچھلے پانچ سالہ دَورِ حکومت میں بھی حساس نوعیت کے
فیصلے فوج ہی کرتی رہی اور اندرونی نوعیت کے فیصلے بھی فوجی قیادت کے صلاح
مشورے سے ہی کیے جاتے رہے ۔ سول حکومتوں کے لیے کرپٹ فوجی جرنیل ہمیشہ شجرِ
ممنوعہ رہے NLC کیس میں فوج نے دو ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرلز اور ایک میجر
جنرل کا ٹرائل کرنے سے سول حکومت کو یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ اِن اصحاب کا
ٹرائل فوج خود کرے گی لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا ۔رائل پام کیس میں بھی فوجی
جرنیلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اصغر خاں کیس بھی سرد خانے
کی نذر ہو چکا ہے ۔مسنگ پرسنز کا معاملہ بھی گھمبیر صورت اختیار کرتا چلا
جا رہا ہے ۔ سابقہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے کیس میں
اسٹیبلشمنٹ کا رویہ سب کے سامنے ہے ۔شاید یہ دنیا کی واحد مثال ہو کہ ایک
ملزم کوتین ماہ تک ملٹری ہسپتال کے وی وی آئی پی روم میں رکھا گیا لیکن نہ
تواُس کا علاج ہوا ، نہ ہی ڈسچارج کیا گیا ۔ اصول تو یہی ہے کہ اگر کوئی
شخص کسی ہسپتال سے علاج کروانے سے انکاری ہو تو اسے فوری طور پر ڈسچارج کر
دیا جاتا ہے لیکن اگر مریض پرویز مشرف جیسا ہو تو پھر شاید اصول و ضوابط
الماری میں بند کر دیئے جاتے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ نے قدم قدم پر ایسے ثبوت
چھوڑے جنہیں دیکھ کر ایک عام فہم انسان بھی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ
پرویز مشرف صاحب کو’’ مقتدر قوتوں‘‘ کی آشیر باد حاصل تھی اور اب بھی ہے
۔خفیہ ایجنسیوں نے وزارتِ داخلہ کو پرویز مشرف صاحب کی سکیورٹی کے بارے میں
خط بھیجا لیکن اُس خفیہ خط کی ایک کاپی پرویز مشرف کے وکیلوں تک بھی پہنچا
دی گئی جس کی بنا پر وہ عدالت میں حاضری سے بچ گئے ۔پھر جس انداز سے اُن کے
وکلاء خصوصی عدالت کے ججز کی کھلم کھلا توہین کرتے رہے اُس سے بھی صاف ظاہر
ہوتا تھا کہ وہ کسی مضبوط ہاتھ کی شہہ پر ایسا کر رہے تھے ۔پرویز مشرف صاحب
کے وکیل خالد رانجھا سے جب ایک اینکر نے سوال کیا کہ وکلاء بار بار توہینِ
عدالت کے مرتکب کیوں ہو رہے ہیں تو اُن کا جواب تھا کہ ایسا سب کچھ پرویز
مشرف کی ہدایت پر کیا جا رہا ہے ۔کیا وکلاء ایسا پرویز مشرف جیسے بے اختیار
شخص کی ایماء پر کر رہے تھے؟ ۔ یقیناََانہیں کوئی مضبوط گارنٹی ہی دی گئی
ہو گی جو اُن کی زبانیں اتنی دراز ہوتی چلی گئیں کہ قانونی تاریخ کا یہ
انوکھا واقعہ بھی چشمِ فلک نے دیکھا کہ خصوصی عدالت کے ججز وکیلوں کے خلاف
احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کر گئے ۔
پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ہی جلاوطنی کا دکھ جھیلنے والے میاں نواز
شریف کی مسلم لیگ شعور کی اُس منزل تک پہنچ چکی تھی جہاں فیصلے ذاتی نہیں ،
ملکی مفادات کو مدّ ِ نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں ۔ نواز لیگ’’فرینڈلی
اپوزیشن‘‘کے طعنے سنتی رہی لیکن میاں نواز شریف صاحب کا کندھا ہمیشہ پیپلز
پارٹی کے لیے حاضر رہا ۔سیاست دان مذاق اڑاتے اور تجزیہ نگار طنز کے تیر
برساتے رہے لیکن میاں صاحب نے اپنی سوچ نہ بدلی ۔شایدجلا وطنی کی بھٹی میں
تَپ کر کُندن بن جانے والے میاں صاحب کو یہ ادراک ہو چکا تھا کہ اگر پیپلز
پارٹی کی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر ایک دفعہ پھر مارشل
لاء کا دکھ جھیلنا پڑے گا ۔اگر کسی کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو کہا جا
سکتا ہے کہ دن بدن مضبوط ہوتی جمہوریت میاں نواز شریف کی اسی ’’فرینڈلی
اپوزیشن‘‘ کا وہ ثمر ہے جس نے حکومتِ وقت کو وہ جرأتِ رندانہ عطا کی کہ
پرویز مشرف کیس میں وزیرِ اعظم صاحب نے یہ کہہ کر مقتدر قوتوں کو صاف جواب
دے دیا ہے کہ ’’قانون اپنا طے شدہ راستہ خود اختیار کرے گا اور اس میں کسی
قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی ‘‘۔ افواجِ پاکستان کے شدید ترین دباؤ، چیف
آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی جنابِ وزیرِ اعظم سے بار بار
ملاقاتوں کے باوجود قانون نے اپنا طے شدہ راستہ ہی اختیار کیا اور جنرل (ر)
پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد بھی ہوئی اور حکومت نے اُن کی بیرونِ ملک
روانگی کی درخواست بھی مسترد کر دی جس سے کم از کم یہ ضرور ثابت ہو گیا کہ
ملک میں سویلین بالا دستی قائم کیے جانے کی طرف موجودہ حکومت نے پہلا قدم
اٹھا دیا ہے ۔ایسا صرف اس بنا پر ہوا کہ اب کی بار سیاسی جماعتیں ایک آمر
کی بجائے جمہوری حکومت کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو گئیں اور سوائے
ایم کیو ایم کے کوئی بھی قابلِ ذکر سیاسی جماعت آمر پرویز مشرف کا ساتھ
دینے کو تیار نہ ہوئی۔یہی نہیں بلکہ اب توسبھی بیک زبان ہیں کہ آئین شکنی
کے اِس کیس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے ۔اب تمام سیاسی جماعتیں
ایک امتحان گاہ میں ہیں اور وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ سرخ رو ہو کر
نکلتی ہیں تو جمہوریت مستحکم ہو گی اوراسٹیبلشمنٹ پسِ پردہ چلی جائے گی ۔فی
الحال تو یہی نظر آ رہا ہے کہ سول قیادت ہی فیصلہ سازی میں مرکزی کردار ادا
کر رہی ہے لیکن یہ بھی عین حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف صاحب نے اپنے آپ کو
ایک دفعہ پھر کڑے امتحان میں ڈال لیا ہے ۔جلاوطنی کا ٹنے کے بعد جب میاں
صاحب پاکستان آئے تو ایک دفعہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے از راہِ
تفنن کہا ’’لوگ کہتے تھے قدم بڑھاؤ نواز شریف ، ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب
میں نے قدم بڑھایا تو میرے پیچھے کوئی بھی نہ تھا‘‘۔میاں صاحب ایک دفعہ پھر
قدم بڑھا چکے ، اب یہ تمام سیاسی جماعتوں ، عدلیہ ، میڈیا اور عوام کا فرض
اور دھرتی ماں کا حق ہے کہ اپنے تمام سیاسی اختلافات بھلا کر کم از کم اس
معاملے میں میاں صاحب کے قدم سے قدم ملا کر یہ ثابت کر دیں کہ وہ جمہوریت
کی مضبوطی کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں لیکن اگر اب بھی سیاسی
ماہر اپنی چالیں چلتے رہے اور ایک دفعہ پھر (خدا نخواستہ) اکتوبر 1999ء
جیسا کوئی سانحہ ہو گیا تو پھر ’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں
میں‘‘۔ |