وزیر اعظم کی بہترین سفارت کاری اور سعودی عرب

وزیر اعظم نوازشریف نے جب سے ملک کی بات ڈور سنبھالی ہے، ان کی ملک کے لئے سفارت کاری اور اپنے موقف کے سلسلے میں بے لچک رویہ سب سے زیادہ لائق تحسین ہے۔حکومت سنبھالتے انہوں نے کشمیر کے مسئلے کو طاق سے نکال کر ایک بار پھر دنیا کے سامنے لایا۔یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس وقت ایک بار پھر یہ مسئلہ ہر ملک اور ہر فورم پر زیر بحث ہے ۔گزشتہ سال جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع ہر انہوں نے بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کتنے جان جوکھم میں ڈال کر کی تھی لیکن انہوں نے وہاں بھی نہ صرف کشمیر کا مسئلہ چھیڑ دیا بلکہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کو بھی بے نقاب کرنا نہ بھولا۔گزشتہ دنوں گزشتہ ہفتے ہالینڈ کے دارالحکومت ہیگ میں ’’دنیا میں ایٹمی معاملات اور بچاؤ‘‘ کے حوالے سے عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں دنیا کے ممتاز 53 ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔ پروگرام کا نام ’’نیوکلیئر سمٹ 2014ء دی ہیگ ورلڈ فورم‘‘ تھا۔ کانفرنس میں پاکستان کو صرف اس لئے نمائندگی دی گئی کہ اس کے پاس ایٹمی صلاحیت ہے اور یہ اس صلاحیت کا شاندار نتیجہ تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم جناب نواز شریف کو امریکی صدر باراک اوبامہ کے ساتھ نشست دی گئی۔ کانفرنس کے آخری روز جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں صاف اور واضح طور پر کہا گیا کہ دنیا کو ایٹمی مواد دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے بچانا ہو گا۔ یہاں آخری روز سربراہان مملکت نے ’’بچوں کی طرح‘‘ ایک کھیل بھی کھیلا جس کے تحت انہوں نے پہلے تصور دیا کہ کسی ملک کا ایٹمی مواد دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا ہے، اب ہم خود کو کیسے بچائیں گے؟‘‘

اس کانفرنس کے انعقاد اور اس کے عنوان سے ہی محسوس ہو رہا تھا کہ کانفرنس صرف اور صرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی اثاثوں کے خلاف منعقد ہوئی ہے کیونکہ امریکہ سمیت ساری دنیا عرصہ دراز سے یہ پراپیگنڈہ کرتی آئی ہے کہ دنیا میں غیرمحفوظ ایٹمی اثاثے پاکستان کے ہیں جو ’’دہشت گردوں‘‘ کی بھی جنت ہے۔ اس بات کی تو تشریح کی ضرورت نہیں کہ ان طاقتوں کے ہاں دہشت گردوں سے مراد صرف اور صرف مجاہدین ہیں۔ ان عالمی طاقتوں کے مطابق دنیا بھر میں ان جہادی طاقتوں کا سب بڑا مرکز پاکستان ہے جو کسی بھی وقت ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کر کے دنیا کے لئے خطرہ کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہاں اختتامی خطاب میں پاکستان کے وزیراعظم جناب نواز شریف نے انتہائی جرأت مندانہ انداز میں پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو عالمی ایٹمی کلب میں شامل کر کے جوہری سپلائرز گروپ میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے، مواد اور مراکز محفوظ ہیں۔ دنیا کو چاہئے کہ وہ ایٹمی توانائی کی پیداوار میں تعاون کرے۔ ہم دنیا کو ایٹمی مواد کے تحفظ کے لئے اعلیٰ خدمات پیش کرنے اور تربیت بھی دینے کو تیار ہیں۔
آخری روز اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ایٹمی پروگرام سے کسی ملک کو خطرہ نہیں ہونا چاہئے۔ جوہری سلامتی کے لئے پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جوہری توانائی کے حوالے سے چھوٹے ممالک کی محرومی کا تاثر دور کیا جائے۔ دنیا مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لئے بھارت پر دباؤ بڑھائے۔ہیگ میں منعقدہ اس کانفرنس میں پاکستان کے خلاف جو عالمی سازش ہو رہی تھی اس میں بہترین سفارت کاری پر نوازشریف داد کے مستحق ہیں، جنہوں نے ملکی دفاع کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا ہے۔

یہ بات تو ہمارے علم میں ہے کہ ساری دنیا کو صرف اور صرف پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہی کھٹکتا ہے، حالانکہ پاکستان نے اپنے ایٹمی تو کجا کسی دوسرے ہتھیار سے بھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ پاکستان سے آج تک کبھی ایٹمی مواد کی چوری یا اس تک غیرمتعلقہ افراد کی رسائی کا بھی کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جبکہ امریکہ سمیت یورپ کے کئی ممالک اور بھارت تک میں اس طرح کے سنگین واقعات پیش آ چکے ہیں، اس طرف تو کسی کی کبھی نگاہ نہیں جاتی کیونکہ وہ سبھی ایک ہیں اور پاکستان کے خلاف بھی متحد ہیں۔

یہ بات بھی کئی دفعہ سامنے آ چکی ہے کہ امریکہ نے پاکستانی ایٹمی اثاثوں پر قبضے کے لئے بارہا کوشش کی۔ سب سے بڑی کوشش نائن الیون کے بعد افغانستان پر قبضے کے بعد کی گئی جو مکمل ناکام رہی۔ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے کے لئے کبھی اس پر سی ٹی بی ٹی پر دستخط کے لئے دباؤ ڈالا گیا تو کبھی این پی ٹی پر تو کبھی کسی دوسرے معاہدہ میں گھسیٹنے کی کوشش ہوئی جو ہمیشہ ناکام ہوئی۔ ہمیں اس ایٹمی صلاحیت کا بھرپور طریقے سے دفاع کرنا ہے کیونکہ یہی ہمارا ڈیٹرنس ہے۔ ہمیں چند دن پہلے آنے والے یوکرائن کے صدر کے بیان کو ضرور مدنظر رکھنا چاہئے جنہوں نے کہا تھا ’’ہم نے روس سے علیحدگی کے بعد ایٹمی صلاحیت کو ترک کر کے سب سے بڑی غلطی کی تھی۔ اگر ہم یہ غلطی نہ کرتے تو نہ روس ہمارے ملک پر حملہ کر سکتا اور نہ کریمیا چھین سکتا تھا‘‘۔ یوکرائنی صدر کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے دفاع کی ضمانت ایٹمی صلاحیت میں ہے جس کا ہمیں دفاع کرنا ہے کیونکہ بندوق کی حفاظت کریں گے تو تبھی وہ مشکل میں ہمارے دفاع کے لئے کام آئے گی۔

اس کے فوری بعددنیا نے ایک غیر معمولی اور ناقابل تصور و ناقابل یقین منظر اس وقت دیکھا جب امریکی صدر باراک اوبامہ نے سعودی عرب میں خود پہنچ کر سعودی فرمانرروا شاہ عبداﷲ سے ان کے صحرائی کیمپ میں ملاقات کی۔ باراک اوبامہ نے جب شاہ عبداﷲ سے ملاقات کی تو وہ مسلسل شاہ عبداﷲ کے سامنے کمر سیدھی کئے ، ان کی ہر بات کو ’’اچھے بچوں‘‘ کی طرح بغور سنتے محسوس کیا گیا۔ یہاں باراک اوبامہ نے شاہ عبداﷲ کی ہر بات میں ’’ہاں سے ہاں‘‘ ملائی۔ شام سے لے کر ایران اور پھر مشرق وسطیٰ تک میں باراک اوبامہ نے ہی ظاہر کیا کہ وہ سعودی عرب کی ہر بات اور پالیسی تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ بس کسی طرح سعودی عرب ان کا دوست بن جائے۔

سعودی دارالحکومت ریاض میں اس انداز میں امریکی صدر باراک اوبامہ کی ازخود آمد اور پھر شاہ عبداﷲ کے صحرائی کیمپ میں ان کے پاس خود پیشی پاکستان سمیت دنیا بھر کی ان اقوام کے لئے ایک سبق اور نصیحت ہے جو یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ امریکہ کی اطاعت و فرمانبرداری کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ سعودی عرب دنیا کا وہ ملک ہے جو اپنے کسی نظام حکومت یا پالیسیوں کے حوالے سے امریکہ سمیت کبھی کسی کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ اس وقت دنیا بھر میں سزائے موت کو ختم کرنے کے لئے ہر ملک پر دباؤ ہے۔ یورپی ممالک ہر اس ملک سے تعلق ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں جہاں سزائے موت دی جاتی ہو۔ یہی دباؤ پاکستان پر بھی کارفرما ہے، یہ اس کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ طویل عرصہ سے کوئی سزائے موت نہیں ہوئی لیکن سعودی عرب نے اس سزا سمیت ہر شرعی حد کو قائم کر کے دکھایا اور کبھی کسی کی کوئی پروا نہیں کی۔ سعوی عرب نے اپنے ہاں جو شرعی قوانین نافذ کر رکھے ہیں ان پر اس نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

امریکہ نے حجاج کرام کی تعداد کم سے کم کرنے سے لے کر مدینہ یونیورسٹی میں ہونے والے داخلوں تک ہر معاملے میں دباؤ ڈالنے اور کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی لیکن انہیں ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سعودی عرب دنیا بھر میں اسلام کی ترقی و ترویج کے لئے اپنی دولت بے دریغ لٹا رہا ہے۔ یہ باتیں اسلام دشمنوں کو کبھی برداشت نہیں ہو سکتیں لیکن سعودی عرب کے اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے اور اس پر استقامت اور اپنے موقف اور پالیسی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا ہی یہ شاندارنتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ امریکہ سمیت ساری عالمی طاقتیں سعودی عرب کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں۔ سعودی عرب اب اپنے دفاع کے لئے پاکستان کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پاکستانی ایٹمی قوت اب عالم اسلام کے اس مرکز کے دفاع کے قابل ہوئی ہے تو اس کی وجہ ایٹمی قوت ہی ہے۔اب دونوں ملکوں کے یکجان ہونے کا صحیح وقت آگیا ہے۔

Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 136779 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.