بیداری ملت…………وقت کی ضرورت

از:محمد ابرار ظہیر(صوبائی سیکرٹری اطلاعات مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان)

دنیا بھر میں انسان بحیثیت انسان کے پریشان کن حالات سے دوچار ہے، پوری دنیا میں نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال، عزت و آبرو سمیت ہر چیز داؤ پر لگی ہوئی ہے،اور انسان اپنے مسائل کے لئے اپنے خالق کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے ناقص نظام ہائے حیات کے جال سے نہیں نکل رہا، ہم دیکھتے ہیں کہ ایک وقت میں دنیا کے بہترین نظام ہائے حیات سمجھے جانے والے آج اپنی ہی جنم بھومیوں میں رسوا ہوتے پھر رہے ہیں اور انسان ایک بار پھر ایک نئے نظام کی تلاش میں سرگرداں ہیں،اشتراکیت کا نظام پاکستان کی دہلیز پر دم توڑ چکا ہے، سرمایہ دارانہ نظام موت کے دروازے پر پڑا تڑپ رہا ہے اور’’اکو پائی وال سٹریٹ‘‘کے نام سے اس کے جنازے کی بھی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہ تو نظام معیشت کی ایک جھلک ہے ،دوسری طرف موجودہ اور مروجہ نظام سیاست بھی انسان کی زندگی میں آسانی پیدا نہیں کر سکا۔اوراسلام کے نام پر حاصل کردہ ہمارا وطن عزیزبھی اس وقت جن مسائل و مصائب میں مبتلا ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،سیاسی ومعاشی عدم استحکام،خاندانی اور کاروباری پریشانیاں،سماجی حالات میں آئے روز خوفناک قسم کی تبدیلیاں اور انسان کے ذاتی حالات اور اس کی پریشانیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ ماں اپنی ممتا کے جذبے کو سلا کراپنی ہی کوکھ سے جنم لینے والے بچوں کو مار رہی ہے، باپ اپنے بچوں کو دودھ نہ لے کر دے سکنے کو ایک جرم سمجھتے ہوئے ان کو بھی اور خود کو بھی موت کی وادی دھکیل رہا ہے، زندگی جیسی قیمتی نعمت اتنی ارزاں ہو چکی ہے کہ جب جس وقت اور جس کا جی چاہتا ہے وہ اپنی یا کسی بھی دوسرے کی جان لینے کو تیار بیٹھا ہے۔ ان حالات میں ذمہ داری تو تھی حاکم وقت کی کہ وہ اپنی رعایا کی زندگیوں میں سکون مہیا کرنے کی کوششیں کرتا، مگر یہاں بھی بد قسمتی آڑے آئی کہ وہ حکومتی منصب جو ذمہ داری سے کندھوں کوجھکا دے اور راتوں کی نیند اڑا دے وہ باعث فخر سمجھا جانے لگا اور اس اقتدار کے حصول کے لئے جانیں لی اور دی جانیں لگیں۔جب لیلائے اقتدار سے بزور معانقہ کیا جائے گا تو کہاں کی ذمہ داری اور کہاں کا احساس، حاکم وقت کے بعد یہ ذمہ داری والدین اور اساتذہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کوزندگی کی مشکلات میں صبر کی تلقین کریں اور معاشی تنگدستی کی بناء پر موت کو گلے لگانے کے کلچر کو مسترد کرتے، یا علماء وقت اپنی ذمہ داریوں کو احساس کرتے اور اپنی تقاریر میں، خطبات جمعہ میں یا دروس کی محفلوں میں قومی و ذاتی مسائل کا تجزیہ اس انداز میں کرتے کہ یہ مسائل اتنے بڑے نہ لگتے کہ قوم اجتماعی خود کشی کے راستے پر نکل پڑتی، بلکہ حکمت و دانائی سے انہیں راستہ بتایا جاتا اور صبر کی عزیمت سے آشنا کروایا جاتا، مگر…………………………
ان حالات میں مرکزی جمعیت اہلحدیث پنجاب کے قائدین مولانا محمد نعیم بٹ،پروفیسر حافظ عبد الستار مد،مولانامیاں محمود عباس اور دیگرنے امیر مرکزیہ علامہ پروفیسر ساجد میر اور ناظم اعلیٰ ڈاکٹر حافظ عبد الکریم کی راہنمائی میں’’تحریک بیداری ملت‘‘ کا آغاز کیا اور اس تحریک کے ذریعے ملت کو اپنے مسائل کے حل کیلئے اصل ماخذ کی طرف رجوع کرنے کا درس دیا۔ دنیا کو یہ باور کروایا کہ ہماری بقاء اور استحکام صرف اور صرف اﷲ کے دئیے ہوئے نظام سے منسلک ہے، اس نظام کو چھوڑا تو نہ دنیا میں عزت ملے گی اور نہ آخرت کی کامیابی کا تصور کیا جا سکتا۔پاکستان ہمارے وطن عزیز کی مثال ’’دار ارقم‘‘ کی بھی ہے(کہ یہاں دنیا بھر کے ظالموں کے ظلم وستم کو سہنے والے ڈرے سہمے مسلمان پناہ کے لئے آتے ہیں)اور یہی ملک دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے مثل مدینہ بھی ہے(کہ خالص نظریہ اسلام کے نام پر بنا اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی جائے امن بھی ہے) حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسے اسلام کی تجربہ گاہ ہی بنانے کامنصوبہ بنایا تھا، اسی وطن عزیز کے باسیوں کو یہ سبق دینے کے لئے پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں،استحکام اور بقاء اسلام سے وابستہ ہے،مشکلات سے نجات دامن اسلام میں پناہ لینے سے ہی ملے گی،بحرانوں سے نکلنے کا واحد راستہ اسلام ہے،آج دنیا بھر کا کفر صلیبی و صیہونی قوتوں کے آلہ کار اس ملک کی سلامتی کے در پے ہیں، ان عناصر کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں قرآنی حکم اور اسوہ نبوی ﷺ کے مطابق اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنا ہوگی، اور تحریک بیداری ملت مقاصد بھی یہی ہیں، انہیں مقاصد کے حصول کے لئے ساہیوال، سرگودھا،بہاولنگر اور دیگر شہروں کے بعد اب یہ قافلہ گوجرانوالہ میں اترا ہے۔اور گوجرانوالہ کی جماعت کے مقامی قائدین مولانا محمد صادق عتیق ،پروفیسر سعید کلیروی، حافظ عمران عریف،مولانا محمد حنیف ربانی اور ان کے ضلعی رفقاء نے اس قافلے کو زبردست انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ویلکم کرنے کا اعلان کیا ہے، ان شاء اﷲ 10اپریل( جمعرات) کی رات کو منی سٹیڈیم میں شہریان گوجرانوالہ کا ایک عظیم اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان شاء اﷲ اس بات کا عزم کرے گا کہ ہم اس ملک میں قرآن و سنت کے نفاذ کا ہراول دستہ بنیں گے۔اسلام اور پاکستان کے تحفظ کیلئے جانیں قربان کرنا پڑیں تو یہ مہنگا سودا نہیں ہو گا۔بلاتفریق مسلک ہم سب پاکستانی پاکستان میں امن کے لئے حکومت کی کوششوں کی حمائت بھی کریں گے اور حکومت وقت سے یہ مطالبہ بھی کریں گے کہ وہ ملک کو معاشی و اقتصادی تباہی سے بچانے کے لئے سودی نظام کا خاتمہ کرے، نظام صلوٰۃ و زکوٰۃ کو بالفعل نافذ کرے، اس کانفرنس کے مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم شعوری پر اپنے دین سے وفاداری کا اعلان کریں اور ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر کوئی شرمندگی یا ندامت نہیں ہو نی چاہئے، دین اسلام ہماری بنیاد ہے اور اس بنیاد پر ہم بنیاد پرست ہیں، ہم زندگی کے آخری سانس تک نتائج سے بے پروا ہو کر غلبہ اسلام کی جدو جہد جاری رکھیں گے، اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا ادراک خود بھی رکھیں اور دشمن کی چالوں سے اپنے بھائیوں کو بھی خبردار کریں گے۔ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اﷲ’’بیداری ملت اہلحدیث کانفرنس‘‘ اپنے نتائج کے اعتبار سے انتہائی مؤثر ثابت ہو گی اور ملک میں جاری تحریک نفاذ اسلام کو مضبوط کرنے کا باعث ہو گی۔
ممکن ہے زمانہ رخ بدلے یہ دور ہلاکت مٹ جائے
یہ ظلم کی دنیا کروٹ لے،یہ عہد ضلالت مٹ جائے
دولت کے فریبی بندوں کا،یہ کبر و نخوت مٹ جائے
برباد وطن کے محلوں سے غیروں کی حکومت مٹ جائے

Naveed Zia
About the Author: Naveed Zia Read More Articles by Naveed Zia: 4 Articles with 2212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.