شاعری، تصورات کی تصویر کاری کا
عمل ہے. شاعری کے ذریعے تصورات میں جب ارتعاش برپا ہوتا ہے تو ہمارے قلب و
ذہن پر ایک واضع سی تصویر بن جاتی ہے. یہ ایک امیج یا ذہنی پیکر ہے، معروضی
حالات کی بنا پر یہ تصویر ساکن بھی ہو سکتی ہے متحرک بھی. لیکن جتنی یہ
تصویر واضح، بھرپور اور متحرک ہو گی، اتنی ہی امیجری جاندار ہوگی. غالب کے
ہاں متحرک امیجری کی جتنی مثالیں ملتی ہیں اردو کے کسی اور شاعر کے ہاں اس
کا ذخیرہ موجود نہیں.
ممکن نہیں کہ بھول کر بھی آرمیدہ ہوں
میں دشت غم کا آہوئے صیاد دیدہ ہوں
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
اس میں رخش عمر کی رفتار، باگ پر ہاتھ، پاؤں میں رکاب، یہ تمام تصورات مل
کر ایک یقینی مؤثر اور حقیقت پسند امیجری کو پیش کرتے ہیں. اسی طرح غالب کے
ایک اور شعر میں یہی کیفیت پائی جاتی ہے.
بوئے گل، نالہ دل، دود چراغ محفل
جو تیری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
امیجری کا بنیادی مقصد معنوی گہرائی پیدا کرنا ہے. امیجری بنیادی طور پر
مختلف النوع چیزوں کے درمیان ایک خوبصورت ہم آہنگی سے پیدا ہوتی ہے.
اردو شاعری میں دو ہی رحجانات پائے جاتے ہیں، ایک سمبل ازم اور دوسرا
امیجری کا.
میری ذاتی رائے ہے کہ ماہر علم عروض شاعر تو بلاشبہ ہوتا ہے لیکن اس کے ہاں
بیانی سطحیت پائی جاتی ہے، معنویت کا پھیلاؤ ایسی شاعری میں ابھرنے نہیں
پاتا جبکہ امیجری کا بنیادی مقصد ہی معنوی گہرائی پیدا کرنا ہے لیکن ایک
شاعر میری نظر سے ایسا بھی گزرا ہے جس نے سرزمین ساھیوال کی مردم خیز مٹی
میں نمو پائی، جو کلاسیکی زبان استعمال کرتے ہوئے فکر و عمل کا بہت ہی
خوبصورت امتزاج پیدا کرتا ہے، جو عروضی تجربے کرتا رہا لیکن اس کے ہاں
بیانی سطحیت بھی نہیں پائی جاتی اور وہ نام ہے دبستان ساھیوال کا مستند نام
بشیر احمد بشیر
بشیراحمد بشیر کو بحور کے استعمال پر بڑی قدرت اور گرفت حاصل ہے اور یہ ان
کے گہرے عروضی مطالعے کا حاصل ہے، بحرہزج مسدس، اخرب مقبوض مقصور یا محزوف
مفعول مفاعلن مفاعیل/مفعولن اور بحر ہزج مسدس اخرم اشتر مقصور یا محزوف
مفعولن فاعلن مفاعیل/فعولن بڑی مشکل بحریں ہیں ایک ہی شعر میں ان دونوں کا
اجتماع جائز ہے. بشیر احمد بشیر نے یہ بحر بڑی سہولت اور روانی کے ساتھ
استعمال کی.
بشیر احمد بشیر کی شاعری کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ امیجری رحجانات
کے مقلد ہیں. امیجری رحجانات نے دراصل سمبل ازم کے رحجانات کی مخالفت میں
جنم لیا، دونوں رحجانات میں فرق یہ ہے کہ سمبل ازم داخلی شاعری ہے یعنی یہ
اپنی ذات اور اندر کا اظہار ہے جبکہ امیجری وضاحت اور خارجیت کی طرف توجہ
مبذول کراتی ہے.
بشیر احمد بشیر آج کے عہد کا شاعر ہے اس کا کہنا ہے
کیا عہد ہے سورجوں کے خالق
شمعون سے ضیائیں مانگتے ہیں
زندوں کے لئے پیالہ زہر
مردوں سے مراد مانگتے ہیں
ہر عہد کا زہر ہے رگوں میں
ہونٹوں پر ہزار ذائقے ہیں
معکوس مزاج، مسخ اقدار
قوموں پر عذاب آرہے ہیں
بشیر احمد بشیر کا خود کہنا ہے " اردو شاعری میں مضامین کے پرانے روائتی
نظام کا میں قائل نہیں ہوں. پرانے سخنوروں کی کہنہ روایات سے اٹل وابستگی
کسی کو استادی درجہ تو دے سکتی ہے، جذبے کی ترسیل اور اظہار بیان کے تازہ و
شاداب منظر نہیں دے سکتی، اٹل روائتیں جن میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو، بند
گلیاں ہیں جو تحفظ کا احساس تو دیتی ہیں، اگلے افق کا رستہ نہیں دکھاتیں"
جیسا کہ میں نے کہا جہاں ذہنی رحجان یہ رہا ہو وہاں وسعت معنی خود بخود
پیدا ہو جایا کرتا ہے.
بشیر احمد بشیر کے ہاں دو رویے پائے جاتے ہیں ایک یہ کہ وہ عروضی قواعد کا
خاص خیال رکھتے ہیں اور میرا یہ خیال ان کی شاعری نے غلط ثابت کر دیا کے
عروی لہجے کا حامل شاعر اپنی شاعری میں سطحیت رکھتا ہے اس کے ہاں امیجری کی
کمی ہوتی ہے، معنویت کا فقدان ہوتا ہے- دوسرا رویہ ان کے ہاں یہ ہے کہ شعری
وجدان کا اشراق صوفیانہ روییے سے ہوتا ہے
بشیر احمد بشیر کا صوفیانہ رنگ دیکھئے
تو درویش ہے مرشد تیرے باھو بلھے شاہ
چپ کر دڑوٹ خاموشی سے وقت گزار بشیر
-------------------
اے وائے بشیر عہد اپنا
ظالم کو پڑا کریم کہنا
-------------------
عجیب مزاج ہے تیرا بشیر کیا کہیے
گلہ بھی کرتا ہے اسکا، دعا بھی دیتا ہے
میں نے بشیر احمد بشیر کو اس عہد کا شاعر کہا ہے اور کوئی بھی شاعر اپنے
ماحول سے بے خبر نہیں ہو سکتا
ان کا کہنا ہے
بجا تھا خوف دلوں کا ہوا ہی ایسی تھی
نہ گھر بچے نہ گھروندے، بلا ہی ایسی تھی
بتا دیا تھا تجھے شہر جبر کا انجام
تجھے تو آپ خبر ہے بنا ہی ایسی تھی
اور آخر میں ایک بار پھر بشیر احمد بشیر کی شاعری کے امیجری رویے کا اظہار
جہاں کھڑے ہو، یہاں کھولتا سمندر تھا
طبق لرزتے تھے آتے تھے زلزلے کیا کیا
دہکتی، تپتی، پگھلتی ہوئی چٹانوں پر
امڈتے جھومتے بادل برس گئے کیا کیا
پھر اس کے بعد ہوئی سرد تو یہی مٹی
دکھا رہی ہے زمانوں سے معجزے کیا کیا |