سلیم کو ثر :ذرا موسم بدلنے دو ،ویلکم بُک پورٹ ،کراچی
،اشاعت ششم ۱۹۹۹ تبصرہ نگار :ڈاکٹر غلام شبیر رانا
اُسے لکھنا مگر مشکل نہ لکھنا محبت ہے تو حالِ دِل نہ لکھنا
یہاں سب کو کسی قابل سمجھنا مگر خود کو کسی قابل نہ لکھنا
ان اشعار کے خالق پاکستان کے ممتاز شاعر سلیم کوثر کے پانچ شعری مجموعے(یہ
چراغ ہے توجلا رہے ،ذرا موسم بدلنے دو ،محبت اک شجر ہے ،خالی ہاتھوں میں
ارض و سما،دُنیا مِری آرزو سے کم ہے ) شائع ہو چکے ہیں جنھیں قارئینِ ادب
کی طرف سے زبردست پذیرائی مِلی۔ دِل کی گہرائیوں سے نکلنے والی سلیم کوثر
کی شاعری قاری کے قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جاتی ہے ۔ اپنی
تہذیبی قدروں سے والہانہ محبت کرنے والے اس زیرک تخلیق کار نے انسانیت کے
وقار اور سر بُلندی کو اپنا نصب العین بنا رکھاہے۔اس کی دلی تمنا ہے کہ ہوس
کے باعث نوع انساں کو جس آشوب ِ زیست کا سامنا ہے ،اُس سے گلو خلاصی کی
کوئی صورت پیدا ہو ۔خزاں کے سیکڑوں مناظر نے طلوع صبحِ بہاراں کے امکانات
کو معدوم کر دیا ہے ۔سلیم کو ثر کی شاعری میں حوصلے اور اُمید کا دامن تھام
کر سوئے منزل اپنا سفر جاری رکھنے کا پیغام ہے ۔سلیم کوثر کو اس بات کا شدت
سے احساس ہے کہ عام آدمی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جو خواب دیکھتا
ہے وہ استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں کے باعث شرمندہء تعبیر نہیں ہو سکتے
۔اس کی شاعری میں رجائیت کا پہلو قاری کو ولولہء تازہ عطا کرتا ہے ۔اپنے
داخلی تجربات ،وسیع مشاہدات ،فلسفیانہ تصورات اور نفسیاتی کیفیات کے بارے
میں سلیم کوثر نے بڑی دردمندی اور خلوص کے ساتھ اظہارِ خیال کیا ہے ۔ بہار
،خزاں ،سرما اور گرما کے آنے یا جانے سے سرے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتااصل
معاملہ تو دِل کی کلی کے کِھلنے اور مُرجھانے کا ہے ۔غنچہء دِل اگرکِھل
اُٹھے تو سب موسم بدل جاتے ہیں اور خانہ ٗ دِ ل میں موسم بدلنے سے عطربیزی
کے سلسلے کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ اس دُھوپ بھری دُنیا میں آلامِِ روزگار کی
تمازت میں جُھلسنے والی بے بس انسانیت کو یو ں محسوس ہوتا ہے کہ گُلشنِ
ہستی میں خُو نیں کفن لالہ کو غم زدوں کے حال کے ساتھ ایک ضد سی ہے یہی وجہ
ہے کہ بے کسوں کے دِ ل کی کلی کسی موسم میں نہیں کِھلتی۔ہجومِ یاس میں جب
ان کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے تو وہ گھبرا کر یہ سوچتے ہیں کہ
پیچ و تاب ِ شوق کے سامان رفتہ رفتہ تھم رہے ہیں اور اب کے خزاں کے چمن سے
جانے کے بعد جب بہار آئی تو اُن کا جانا بھی ٹھہر گیاہے ۔سلیم کوثر کی
نظمیں زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔یہ
بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ سلیم کوثر نے فرد کی نفسیاتی
اوراحساساتی کیفیت کو جِس خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے
،وہ اُس کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔اُس کی نظمیں جن بصیرت افروز خیالات ،چشم
کشا صداقتوں ،روح پرورتجربات و مشاہدات اور خلوص و دردمندی کی آئینہ دار
ہیں وہ قاری کو ایک جہانِ تازہ سے آشنا کرانے کا وسیلہ ثابت ہوتی ہیں۔ان
نظموں کے مطالعہ سے قاری شاعری کی مسحور کُن کیفیات اور مابعد الطبیعاتی
عناصر کے بارے میں انکشافات کی جانب متوجہ ہو تا ہے ۔مثال کے طورپر نئی
لوری ،دُکانِ گِریہ ،ذرا موسم بدلنے دو ،یا دہانی ،اُمید ،نئے وصال کی
اُلجھن ،نوحہ اور ،محبت ڈائری ہر گز نہیں ہے بُلند پایہ ادب پارے ہیں۔اپنی
نظموں کے ذریعے سلیم کوثر نے جمو د، مایوسی اور اضمحلا ل کے خاتمے کی سعی
کی ہے اور سعی ٗ پیہم پر اصرار کیا ہے ۔سلیم کوثر کی شاعری جہاں کلاسیکی
ادب سے مربوط ہے وہاں اس کا زمانہ حال اور مستقبل سے بھی گہرا تعلق ہے ۔ آج
ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ،آبادیاں
پُر خطر ، کلیاں شرر ،زندگیاں مختصر اورآہیں بے اثر کر دی گئی ہیں ۔ ان
مسموم حالات میں زندگی کی حیات آٖفریں اقدار اور درخشاں روایات کو ناقابلِ
تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ اِس لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور جان لیوا ماحول میں
زندگی کے متعدد حقا ئق خیال وخواب بن چُکے ہیں ،ہمارے بچے خوف و دہشت کی
فضا میں پروان چڑھ رہے ہیں ۔سلیم کوثر نے قومی اُفق پر چھائی یاس و ہراس کی
گھٹا کے بارے میں اپنی نظم ’’نئی لوری ‘‘میں لکھا ہے :
لوری کی رِم جِھم میں
سونے والے بچے
گولی کی آواز سے ڈر کر اُٹھ جاتے تھے
لیکن اب تو
لوری کی رِم جِھم سے ڈر کر اُٹھ جاتے ہیں
گولی کی آواز پہ ہنس کر سو جاتے ہیں ۔
سلیم کوثر کی شاعری وقت کے کئی حادثات اور اُن کے پسِ پردہ کارفرما حالات
کا حقیقی تناظر میں مطالعہ کرنے کی جانب متوجہ کرتی ہے ۔اُس کی شاعری میں
تکمیلِ تمنا کا عزم اورسعیٗ پیہم کی پُکار قاری کے لیے ایک منفرد اور جامع
نوعیت کے تجربے کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس کے متعدد اشعار سہل ِممتنع کی عمدہ
مثال ہیں ۔جدید اُردو شاعری میں اِس نو عیت کے ہئیتی اور تخلیقی تجربات کے
اعجاز سے تخلیقی عمل ،لسانیات اورشعری آہنگ کو جدت ،ندرت اورتنوع نصیب ہوا
۔سلیم کوثر کی شاعری اُردو ادب کے قاری کو فکر و خیال کے نئے آفاق تک رسائی
کا ولولہ عطا کرتی ہے ۔اِس مخصوص طرزِ فغاں نے افکار کی بو قلمونی سے اُردو
شاعری کو جہانِ تازہ سے آشنا کیا ہے :
کیا بتائیں فصلِ بے خوابی یہاں بوتا ہے کون
جب در و دیوار جلتے ہوں تو پِھر سوتا ہے کون
وہ جِن کے نقشِ قدم دیکھنے میں آتے ہیں
اب ایسے لوگ تو کم دیکھنے میں آتے ہیں
کسی بھی جبر کو ہم لوگ جب تسلیم کرتے ہیں
تو آنکھیں ساتھ دیتی ہیں نہ لب تسلیم کرتے ہیں
سلیم کوثر کی شاعری مجموعی طور حیات و کائنات کے مسائل اور انسانیت کے وقار
اور سر بُلندی کی تمناکی ترجمان ہے ۔اُس کے ذہن و ذکات کی جُملہ فعالیتیں
اس کی شاعری میں جلوہ گر ہیں۔حریت ِ فکر کے اس مجاہد نے قارئین ادب کو اپنی
حقیقت سے آ شنا ہونے اور اپنی دُنیا آپ پیدا کرنے کی راہ دکھائی ۔اُس کا
شعری وجدان اور جذباتی میلان معاصر ادب میں اُسے اہم مقام عطا کرتا ہے
۔جدید طرز احساس سے لبریز سلیم کوثر کی شاعری کا کرشمہ دامنِ دل کھینچتا ہے
اور قلب اورروح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی یہ شاعری سنگلاخ چٹانوں اور
جامد و ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔اپنے دلی
جذبات کے اظہار میں وہ جس خلوص ،دردمندی ،بے ساختگی اور بے تکلفی کو رو بہ
عمل لاتا ہے اُس سے تخلیق ادب میں ایک دھنگ رنگ منظر نامہ پرتب ہوتا ہے جس
کا حُسن اوررعنائی قاری کو مسحورکر دیتی ہے ۔وہ خوابوں کی خیاباں سازیوں کا
قائل نہیں بل کہ زندگی کے تلخ حقائق کا احساس و ادراک کرتے ہوئے اپنی
آرزوؤن ،اُمنگوں اور تمناؤں کو اعتدال ،تواز اورمناسب حدود میں رکھنے پر
زوردیتا ہے ۔ شعری مجموعہ’’ ذرا موسم بدلنے دو ‘‘تازہ ہو کے جھونکے کے
مانند ہے جس نے ہمیں آئینے کے رُو بہ رُو کھڑا کر دیا ہے ۔کارِ جہاں کی بے
ثباتی اور دل کی ویرانی کو دیکھ کر بے خواب آنکھیں اس صورت حال کو دیکھ کر
کُھلی کی کُھلی رہ جاتی ہیں۔شاعری کا یہ مسحور کُن کرشمہ اپنی مثال آپ ہے۔ |