سلیم کوثر :خالی ہاتھوں میں ارض
وسما،ویلکم بُک پورٹ ،کراچی ،اشاعت ہفتم ۱۹۹۹ تبصرہ نگار :ڈاکٹر غلام شبیر
رانا
ایک قبیلہ چھوڑ دیا اور اِ ک دُنیا آباد رکھی
میں نے پہلا شعر کہا اور شجرے کی بُنیاد رکھی
میں خود اپنی آگ ہی میں جل بُجھا تو یہ کُھلا
شرط جلنے کی نہیں تھی کیمیا ہونے کی تھی
سلیم کوثر نے حریت ضمیر سے جینے کا عزم کر رکھاہے اور ہمیشہ حریتِ فکر کا
علم بُلند رکھا ہے ۔اُس نے طرز کہن پر اڑنے کے بجائے آئینِ نو پر عمل پیرا
ہونے کی جو مساعی کی ہیں اُن کی افادیت کا ایک عالم معترف ہے ۔اُس کی دلی
تمناہے کہ ماضی کی درخشاں اقدار و روایات کی اساس پر حال کے افکار کا قصر ِ
عالی شان تعمیر کیا جائے ۔اُس نے اپنے فکر و خیال کی جو لانیاں اس انداز سے
دکھائی ہیں کہ اُس کی تخلیقی فعالیت ،ذہن و ذکاوت ،ذوقِ سلیم اور تنقیدی و
تحقیقی مہارت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔اقتضائے وقت کے مطابق لفظ کی
حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس زیرک ،فعال ،مستعد اور جری تخلیق کار نے اپنے
دبنگ لہجے میں حرفِ صداقت لکھ کر فکر و نظر کو مہمیز کیا ہے۔اُس کی تخلیقی
فعالیت قاری کو ایک جہانِ تازہ سے آشنا کراتی ہے ۔انسانیت کے ساتھ خلوص اور
درد مندی کے تعلق کو وہ اپنی متاعِ حیات سمجھتا ہے ۔وطن ،اہلِ وطن اور
انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی رکھنے والے اس تخلیق کار نے
اپنے اسلوب میں نقدِ حیات کی اہمیت کو اجاگر کیاہے ۔اس کی تنقیدی بصیرت کو
اُس کے اسلوب کا نمایاں پہلو قرار دیاجا سکتاہے ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گاکہ
حریت فکر کے اس مجاہد کے اندر ایک جری نقاد اور محتسب پو شیدہ ہے ۔تخلیقی
عمل کے لیے اُس نے تنقید کو ہمیشہ اہم خیال کیا۔یہ بات بلا خوفِ تردید کہی
جا سکتی ہے کہ جس طرح سانس لینے کے لیے آکسیجن نا گزیر ہے بالکل اسی طرح
صحت مند تخلیقی عمل کے لیے تنقید ی معائر کی موجودگی نا گزیر ہے ۔اُ س کی
شاعری میں نقدِ حیات کے جو ارفع معائر جلوہ گر ہیں وہ قاری کے لیے ایک
ولولہء تازہ کے نقیب ہیں ۔
نظموں اور غزلوں پر مشتمل شعری مجموعہ ’’خالی ہاتھوں میں ارض و سما‘‘سلیم
کوثر کی فنی مہارت کی دلیل ہے ۔سلیم کوثر کی شاعری کو جن ممتاز ادیبوں نے
قدر کی نگاہ سے دیکھا ،اُن میں سلیم احمد ،ڈاکٹر سید ابولخیرکشفی ،محمد
شیرافضل جعفری ،عبیداﷲ علیم ،رام ریاض ،صابر ظفر اور پروین شاکر شامل ہیں ۔سلیم
کوثر کی شاعری پر ان مشاہیر کے تاثرات بھی اس کتاب کے آغاز میں شامل کیے
گئے ہیں ۔ان ممتاز ادیبوں کی جوہر شناس نگاہوں نے سلیم کوثر کی شاعری کے
بارے میں جو وقیع رائے دی ہے وہ کلیدی اہمیت کی حامل ہے ۔اپنی غزلوں میں
سلیم کوثر نے زندگی کی صداقتوں اور معاشرے کے تلخ حقائق کی محض عکاسی نہیں
کی بل کہ اپنے اسلوب کو حرفِ صداقت کا منبع بنا دیا ہے ۔یہ شاعری ایک ایسے
جامِ جہاں نُما کے مانند ہے جس میں زندگی کے جُملہ حقائق کے گہر ہائے آب
دار نگاہوں کو خیرہ کر رہے ہیں۔یہ شاعری تو اپنی جگہ ایک واضح حقیقت اور
مسلمہ صداقت کے روپ میں دلوں کو مسخر کرنے پرقادر ہے ۔
مِرے وجود میں سچائی میری ماں کی ہے
وگرنہ شعر عبادت تو قرضِ جاں کی ہے
تُمھیں بھی عشق کرنے کے ہُنر آنے لگے ہیں
تو کیا اب خواب دِن میں بھی نظر آنے لگے ہیں
زخمِ احساس اگر ہم بھی دِکھانے لگ جائیں
شہر کے شہر اِسی غم میں ٹھکانے لگ جائیں
آب و گِل کے زخم لے کر موسموں کے پیار سے
خشک پتے دیر تک چمٹے رہے اشجار سے
تم کیا جانو عشق میں گُزرے لمحے کیا بے کار گئے
پیار تو جیون کی بازی تھی تم جیتے ہم ہار گئے
عہدِ نو کا اس سے بڑھ کر سانحہ کوئی نہیں
سب کی آنکھیں جاگتی ہیں بولتا کوئی نہیں
سلیم کوثر کی نظمیں بھی زبان و بیان اوراظہار و ابلاغ پر اس کی خلاقانہ
دسترس کی مظہر ہیں ۔اس زیرک شاعر کے پانچ شعری مجموعوں میں غزلوں اور نظموں
پر یکساں توجہ دی گئی ہے ۔سلیم کوثر کی تخلیقی فعا لیت سے اُردو شاعری کی
ثروت میں جو اضافہ ہوا ہے اُسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اس کی نظمیں معاصر
ادب کے وسیع مطالعہ ،زندگی کے تجربات ،مشاہدات اور تجزیات کی حقیقی صورت
حال کو سامنے لاتی ہیں۔پیش لفظ (منظوم)کو پڑھ کر اندازہ ہو جاتاہے کہ اس
شعری مجموعے کا تخلیق کار صنف نظم میں کس قدر فنی مہارت اور تخلیقی استعداد
سے متمتع ہے ۔اس شعری مجموعے میں شامل جو نظمیں چشم کشا صدقتوں کی امین اور
عزم و ہمت کے ساتھ جہد مسلسل کی نقیب ہیں ،اُن میں بِسم اﷲ وحدہ لا شریک ،زندگی
کے باب کا ورق ورق گواہ ہے ،ماں ،ایک بُھولی ہوئی یاد ،نرخ بالا کُن کہ
ارزانی ہنوز ،آرٹ گیلری میں ایک تصویر ،ابد کے راستوں سے مِلنے والی ایک
تحریر ،سوال ،گیت ،نوید ،سیّال لمحہ ،کھیل کھیل میں ،موسم کی پہلی بارش ،ہم
بُرے لوگ ہیں،بارِ امانت ،ادھوری کہانی ،دعا،کون دِلاں دِیاں جانے ،میری
بچی اور وقت مُنصف ہے کو فکر پرور خیالات کا مخزن سمجھناچاہیے۔تخلیقِ فن کے
لمحوں میں سلیم کوثر نے معاصر ادبی رُجحانات ،درخشاں روایات اور زندگی
اقدارِ عالیہ کو ہمیشہ زادِ راہ بنایا ہے ۔سلیم کوثر کی نظموں میں زندگی کے
تلخ حقائق کی جانب توجہ مبذول کرا ئی گئی ہے ۔اس اعتبار سے یہ نظمیں مقصدیت
کی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں :
سیّال لمحہ
گیند کے پیچھے بھاگنے والے ننھے بچے
یہ کیا جانیں !
گیند اور اُن کے ہاتھوں کے بِیچ
ایک ایسا لمحہ حائل ہے
جو دونوں کو جُدا کر دے گا
اپنی نظموں میں سلیم کوثر نے حقیقت نگاری کے اعجاز سے وہ دھنک رنگ منظر
نامہ پیش کیا ہے جو قاری کے فکر و خیال پر دُور رس اثرات مُرتب کرتا ہے ۔ان
نظموں کے مطالعہ سے حالات و واقعات کی جو تصویرسامنے آتی ہے وہ زندگی کے
حقائق کی گرہ کشائی کرتی ہے ۔ان نظموں میں تخلیق کار کے اقوال ،افعال ،اعتقادات
،مشاہدات اور تجربات کی تمام صورتیں اپنا رنگ جماتی نظر آتی ہیں:
کھیل کھیل میں
بہتی ندی میں کاغذ کی کشتی کو چھوڑ کے
پگڈنڈی پر اس کے پیچھے بھاگنے والے میرے ساتھی
شہروں کو جانے والی سڑکوں پر آئے
تو گھر کا رستہ بُھول گئے
اِک دُوجے سے بِچھڑ گئے ہیں
ہر قسم کی عصبیت کو مسترد کرتے ہوئے اور ذاتی پسند و نا پسند سے بالا تر
رہتے ہوئے سلیم کو ثر نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورشِ
لوح و قلم پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے ۔ اُسے پاکستانی ادبیات اور عالمی
ا دبیات سے گہری دلچسپی ہے ۔اظہار اور ابلاغ کا جو ارفع معیار اس کے اسلوب
میں موجود ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔دردمندی اور خلوص سے لبریز اس کی شاعری
میں جہاں لفظ کی حُرمت کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہاں زبان کی پاکیزگی، تخیل کی
نُدرت ،اسلوب کی جدت ،نزاکت اور تنوع کا بھی خیال رکھا گیاہے ۔اُس نے ہمیشہ
ٹھنڈے دِل سے اپنے ماحول ،معاشرے اور گردو پیش میں رونما ہونے والے واقعات
کا جائزہ لیا ہے اور جو کچھ اُس کے دِل پر گُزرتی ہے وہ اُسے زیب ِ قرطاس
کرتا چلا جاتا ہے ۔اُس کا اسلوب اُس کی ذات ہے اور وہ جو کچھ سوچتا ہے وہ
اُس کے دِل اور ضمیر کی آواز بن کر اشعار کے قالب میں ڈھل جاتا ہے ۔اُس کے
اسلوب میں مذہبی اور اخلاقی اقدار بالخصوص توحید و رسالت اور کارِ جہاں کے
بے ثبات ہونے پراُس کا ایقان فکرو نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے
۔سلیم کوثر کی شاعری ہر عہد میں قارئین کے دلوں میں جذبوں کی صداقت کا
احساس بیدار کرتی رہے گی ۔ |