ایک درجن سے زائدعالمی شخصیات نے بھارتی جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے
امیدوار نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کو ہندوستان کے مستقبل کے لیے بد
شگونی سے تعبیر کیا۔گارجیئن کو لکھے اپنے ایک مکتوب میں ، جس پر برطانیہ کے
وکیلوں ، سماجی کارکنوں اور تین ممبران پارلیمنٹ کے بھی دستخط ہیں کہا گیا
ہے کہ اگر مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بن گئے تو یہ ایک ایسے ملک ہندوستان
کے لیے اچھا شگون نہیں ہوگا جہاں ہر طبقہ کے لوگوں کو تحفظ حاصل ہے۔کپور
نے، جو کہ ہندستان میں ہی پیدا ہوئے اور یہیں پرورش پائی اور اب لندن میں
سکونت پذیر ہیں، کہا کہ اصل تشویش ناک بات یہ ہے کہ مودی وزیر اعظم بننے کے
بعد ہندوستان کو ایک خالص ہندو ملک بنانے کے لیے اور بھی زیادہ ایڑی چوی کا
زور لگا دیں گے اور یہ وہ تشویش ہے جو محض ان دستخط کنندگان کو ہی نہیں
بلکہ لاتعداد افرا دکو ہے۔پورے بھارت کو 46 سال تک اْلو بنانے والے 63 سالہ
نریندر مودی کے ڈھول کا پول کھل گیا، اس نے اعتراف کر لیا ہاں ہاں شادی شدہ
ہوں، کنوارا نہیں۔ الیکشن کے بعد مودی سرکار بن سکے گی؟ گجرات فسادات کے
بعد لوگوں نے کہا کہ مودی سب سے بڑا قاتل ہے، کچھ نے کہا سب سے بڑا ڈان ہے
اور کچھ نے کہا کہ سب سے بڑے سیاستدان ہیں لیکن بات کھلی کہ مودی تو سب سے
بڑا جھوٹا ہے۔ انہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تو جان لیا ان کی ایک
بیوی یشودھابن ہے۔ شادی کے وقت دونوں کی عمر 17 سال تھی، مودی نے شادی کے
بعد بیوی کو کبھی منہ نہ دکھایا اور بھاگ گئے۔ جو شخص اپنی بیوی کا خیال نہ
رکھ سکا وہ سوا ارب شہریوں کا کیا خیال رکھے گا اور جو شخص 46 سال لوگوں کو
الو بناتا رہا وہ وزیراعظم بن کر قوم کو کیا الو بنائے گا، اس جھوٹ کے بعد
ایسا نہ ہو کہ سیاست کی دیوی ان سے روٹھ جائے اور کہے کہ طلاق، طلاق، طلاق۔
بی جے پی کے انتہا پسند رہنما نریندر مودی کی اہلیہ کا نام یشودھابن ہے جو
ان کے آبائی گاؤں ودھ نگر کی رہائشی ہیں۔ مودی کی بیوی نے کہا ہے کہ وہ
قانونی طور پر اب بھی مودی کی بیوی ہیں۔ جب وہ 17 سال کی تھیں تو بی جے پی
کے رہنما سے ان کی شادی ہوئی اور تین سال بعد علیحدگی ہو گئی تھی۔ بھارتی
اخبار کو ویب سائٹ پر انٹرویو میں یشودھابن نے بتایا کہ وہ ریٹائرڈ سکول
ٹیچر ہیں، ماہانہ 14 ہزار روپے پنشن ملتی ہے۔ وہ اپنے بھائی کے ساتھ رہتی
ہیں اور زیادہ وقت عبادت میں گزارتی ہیں۔ شادی کے بعد انہوں نے اور نریندر
مودی نے تین سال کے عرصے میں جتنا وقت ایک ساتھ گزارا وہ مجموعی طور پر تین
ماہ کا عرصہ بنتا ہے۔ مودی کے ساتھ ان کا کبھی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ معقول
شرائط پر علیحدگی ہوئی۔ اس سوال پر کہ اگر مودی نے وزیراعظم بننے کے بعد
انہیں فون کیا اور اپنے ساتھ نئی دلی لے جانا چاہا تو کیا وہ جائیں گی؟ اس
پر یشودھابن کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں مودی انہیں کبھی فون نہیں کریں
گے او وہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ مودی کو نقصان پہنچے۔ ایک اور سوال پر
یشودھابن نے کہا کہ مودی کے پاس ان کے لئے وقت نہیں تھا، علیحدگی کا فیصلہ
ان کا اپنا تھا۔ مودی کی اہلیہ گجرات کے نواحی علاقے میں کسمپرسی کی زندگی
گزار رہی ہیں۔ پاؤں پھٹے، ٹوٹے جوتے، بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس یشودھابن کا
چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا ہے، وہ گاؤں کی ایک عام خاتون نظر آتی ہیں۔ بھارت
کی حکمران جماعت کانگریس نے شادی کے حوالے سے جھوٹ بولنے پر ہندو انتہا
پسند رہنما نریندر مودی کو نااہل قرار دینے کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کر
لیا ہے۔ کانگریس کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی درخواست میں
موقف اختیار کیا گیا کہ نریندر مودی نے گجرات سے لوک سبھا کی سیٹ کے لیے
جمع کرائے گئے عہد نامے میں خود کو شادی شدہ بتایا ہے جب کہ اس سے قبل
نریندر مودی نے کسی بھی عہد نامے میں یہ بات نہیں بتائی۔ کانگریس نے اپنی
درخواست میں مزید کہا کہ یہ کوئی ذاتی نہیں بلکہ قانونی مسئلہ ہے اور
نریندر مودی کے عہد نامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ جھوٹ بولا۔ اس
سے قبل نریندر مودی 4 انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں لیکن انہوں نے ہر بار
خود کو غیر شادی شدہ ہی ظاہر کیا اور مودی جلسوں میں کہتے رہے کہ
وہ’اکیلا‘’ ہونے کی وجہ سے بہتر طریقے سے عوامی خدمت کر سکتے ہیں۔بھارت کی
حکمران جماعت کانگریس نے الزام عائد کیا ہے کہ ہندو انتہا پسند تنظیم
بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے وزیر اعظم کے عہدہ کے امیدوار نریندر مودی کے امیج
بنانے پر دس ہزار کروڑ روپے خرچ کررہی ہے اور اس میں90 فیصد بلیک منی کا
استعمال ہورہا ہے۔ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی مسٹر مودی کے لئے زبردست
انتخابی مہم چلارہی ہے اور یہ پوری مہم صرف ایک شخص پر مرکوز ہے۔ بھارتی
شہر کانپور میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مذہبی جلوس کا روایتی راستہ
تبدیل کرنے پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی ہیں جس میں
ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں ۔ مشتعل ہندوؤں نے ضلع مجسٹریٹ کی
گاڑی کو آگ لگادی۔ حملہ میں روشن جیکب نامی مجسٹریٹ بال بال بچیں جبکہ ان
کو بچاتے ہوئے متعدد پولیس اہلکار زخمی ہو گئے ۔ہندوؤں نے گیسٹ ہاؤس میں
مسلم خاندان کی شادی کی ایک تقریب پر بھی حملہ کیا اور خواتین و بچوں پر
بھی بڑی بے رحمی سے تشدد کیا گیا۔ فساد متاثرہ علاقہ میں غیر اعلانیہ کرفیو
نافذ کر دیا گیا ۔ کانپور کے ایڈیشنل ضلع مجسٹریت اویناش سنگھ نے بتایاکہ
ہندوؤں کی جانب سے مذہبی تہوار رام نومی پر کلیان پور تھانہ کے علاقہ سندر
نگر سے جلوس نکالا جانے لگا تو مسلمانوں نے اعتراض کیا کہ ہر سال یہ جلوس
سید نگر کے مقررہ روٹ سے نکلتا ہے مگر اب یہ جلوس سندر نگر سے کیوں
نکالاجارہا ہے؟ اس پر جلوس میں شامل ہندو سیخ پا ہوگئے اور انہوں نے اعتراض
کرنے والوں پر تشدد شروع کر دیا جس سے پورے علاقہ میں سخت کشیدگی کاماحول
پیدا ہو گیا۔ اس دوران پتھراؤ ہونے سے بھگدڑ مچ گئی ۔ پولیس نے مشتعل
ہندوؤں کومنتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کیا تو بدلہ میں ہندوؤں نے مجسٹریٹ
کی جیپ کو بھی آگ لگا کر نذر آتش کر دیا اور آٹھ سے دس دوکانوں کو بھی آگ
لگا دی۔ پولیس کی جانب سے مشتعل ہندوؤں پر قابو پانے کیلئے آنسو گیس کے
گولے پھینکے گئے اور ربڑ کی گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا۔ فساد کے موقع
پر ایس پی انل کمار مشرا کی قیادت میں کئی تھانوں کی پولیس نے علاقہ کو
گھیرے میں لئے رکھا۔ مذکورہ علاقہ میں کشیدگی کا ماحول تاحال برقرار ہے اور
غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ سید
نگر ہندو مسلم فسادات پارلیمانی انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کی منصوبہ
بند سازش کا نتیجہ ہے۔ مسوان پور اور سید نگر میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے
کہ ایک پارٹی کے نام نہاد لیڈر نے سازش کے تحت کچھ آوارہ لڑکوں کی ٹیم تیار
کر کے جلوس میں شرپسندی کے مقصد سے شامل کروایا تھا اور بادی النظر میں وہ
نام نہاد لیڈر اپنی سازش میں کامیاب رہا ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی
جامع مسجدفتح پوری کے امام مولانا ڈاکٹر مفتی مکرم احمد نے مسلمانوں سے
اپیل کی ہے کہ الیکشن میں حصہ لے کر انتہا پسند عناصر کو شکست دیں۔اگرچہ بی
جے پی نے مسلمانوں کو لبھانے کے لئے اپنے منشور میں مدارس کی جدید کاری اور
انصاف کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن جس پارٹی کے لیڈر امت شاہ اور
وسندھرا راجے سندھ جیسے لوگ جو کھل کر بدلہ لینے اور ٹکڑے کرنے کی باتیں کر
رہے ہوں ان سے کیاتوقع کی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کو تمامتر اختلافات بالائے
طاق رکھ کر ہندو انتہا پسندامیدواروں کا ناکام بنانا چاہیے۔ اگرچہ اس وقت
بھی مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں لیکن سیکولر امیدواروں سے ناراضگی
کا مطلب یہ ہوگا کہ فرقہ پرست عناصر کامیاب ہوجائیں گے اور یہ ملک کے
مستقبل کے لئے خطرناک ہوگا۔ |