اروند کیجریوال اور نریندر مودی کے درمیان سانپ اور منگوس کا رشتہ ہے کہ
سانپ جیسے ہی پھنکارتا منگوس اسے آلیتا ہے ۔لاکھ جوڑ توڑ کے بعد اپنے آپ
کو بی جے پی کا امیدوار نامزد کروالینے کے بعد نریندر مودی نے جب پانچ
ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی مدد سے اپنا سکہّ جمانے کی کوشش کی تو دہلی
میں بی جے پی کی شکست نے رنگ میں بھنگ ڈال دیااور مودی اپنا سا منہ لے کر
احمدآباد لوٹ آیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کانگریس کو
ٹھکانے لگانے کی خاطر اپناقومی ویژن(نقطۂ نظر)پیش کرنے کیلئے دوبارہ دہلی
کا رخت سفر باندھا۔ اس مہم کے لئے کسی جیوتش نے اسے۱۹ جنوری ۲۰۱۴ کا مہورت
نکال کردیا۔ ادھر کانگریس سے پریشان اروند کیجریوال کواس سے اپنا پیچھا
چھڑانے کیلئے بھی غالباً اسی جیوتش نے کیجریوال کو ۲۰ جنوری کا شبھ مہورت
نکال کردے دیا ۔ پھر کیا تھا اروند نے آؤ دیکھا نہ تاؤوزیر داخلہ کے گھر
جانب کوچ کیا اور درمیان میں دھرنے پر بیٹھ گیا۔ اس احتجاج کے نتیجے میں
کیجریوال کا کوئی بھلا تو نہیں ہوا لیکن مودی کا خواب کافور ہوگیا اس لئے
کہ ٹیلی ویژن پر مودی کے ویژن کی جگہ اروند کیجریوال کا دھرنا چھاگیا ۔
نریندر مودی نے دولت کی مدد سے ذرائع ابلاغ کو اپنا ہمنوا بنا کر جب پھر
ایک بار اپنی شہرت کا غبارہ ہوا میں چھوڑا اور ساری قوم اسے آسمان میں
اڑتا ہوا دیکھنے لگی تو اروند کیجریوال نے گجرات کا دورہ کرنے فیصلہ کیا
نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے دن تو گجرات کے نام نہاد ترقی کا پول کھل گیا اور
دوسرے دن مودی نے ملاقات سے انکار کرکے خود اپنی مٹی پلید کروا لی سچ تو یہ
ہےکہ مودی کے غبارے کا ذکر تو راہل نے خوب کیا لیکن اس کے اندر سے ہوا
نکالنے کا سہرہ اروند کیجریوال کے سر جاتا ہے۔ اس کے بعد نریندر مودی پھر
ایک بار جوش میں آگیا اور جب بڑے تزک و احتشام کے ساتھ اس نے بڑودہ سے
اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کیلئے وہ سابق شاہی
خاندان کی ایک معززخاتون اور ایک چائے والے کو ساتھ لے کر جلوس کی شکل میں
الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچا لیکن جس دن اس خبر کو ذرائع ابلاغ پر چھا جانا
تھا اروند کیجریوال دہلی میں رکشا ڈرائیور لالی کے گھر پہنچ گیا پھر کیا
تھا ایک اور مرتبہ مودی کو اروند نے ذرائع ابلاغ میں دھول چٹا دی ۔
اروند کیجریوال کا یہ قدم دہلی میں انتخاب سے ٹھیک ایک دن قبل اٹھایا گیا
تھا گویا جب لوہا بالکل گرم تھا اس نے ہتھوڑا ماردیا۔ اس ضرب کے اثرات
کانگریس اور بی جےپی والے نتائج کے اعلان والے دن محسوس کریں گے۔ اروند
کیجریوال پر احمدآباد، وارانسی، روہتک اور دہلی میں حملہ ہو چکا تھا ۔ اول
الذکر تین حملوں کا جائے حادثہ حملہ آور کے بارے میں چغلی کھاتا تھا لیکن
چوتھا حملہ دہلی کے ایک مسلم نوجوان عبدالواحد نے کیا تھا اور آخری لالی
نے جس کا سارا خاندان عاپ پارٹی کا حامی ہے۔ کیجریوال نے پہلے تو وہی دشمن
کی چال والا شور مچایا ۔ صرف ہمیں پر حملے کیوں ہوتے ہیں؟ ان حملوں کے
پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ یہ سوال کیا پھر گاندھی سمادھی پر جاکر اعلان کیا کہ
میں ان حملوں سے ڈر کر نہ تحفظ لوں گا اور نہ ان کا جواب دوں گا۔ اروند نے
یہانتک کہہ دیا کہ تشدد سے اگر مسائل حل ہوتے ہیں تو مجھے بتایا جائے کہ
میں کب اور کہاں آؤں اور لوگ مجھے مارپیٹ کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر لیں ۔
اروند کیجریوال کی یہ ساری حکمت عملی سنگدل میڈیا کا دل نرم نہ کرسکی اور
بائیکاٹ جاری رہا لیکن پھر اس نے ایک ایسا داؤں کھیلا کہ میڈیا چاروں شانے
چت ہو گیا ۔ اروند کیجریوال کے رکشا ڈرائیور لالی کے گھر جانے کوٹی وی چینل
والے نظر انداز نہیں کرسکے ۔ لالی اروند کیجریوال کے قدموں میں گر گیا اور
کہا کہ آپ دیوتا سمان ہیں میں عاپ کا وفادار ہوں ، مجھے آپ کے اقتدار
چھوڑ دینے کا دکھ تھا ۔ میں نے جنتا دربار میں ملاقات کی کوشش کی لیکن
ناکام رہا ۔ لالی نے ہاتھ جوڑ کر اپنی غلطی تسلیم کی اور اروند کیجریوال نے
کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے معاف کردیا ۔ کوئی نہیں جانتا کہ نریندر
مودی کے ساتھ جانے والوں کا نام کیا تھا لیکن لالی کوسارا ہندوستان نہ صرف
جانتا بلکہ پہچانتا بھی ہے ۔ اسے کہتے ہیں سو سنار کی تو ایک لوہار کی اور
وہ بھی ایسے موقع پرجب کہ لوہا گرم بھی ہو اور نرم بھی۔
ذرائع ابلاغ جب لالی اور کیجریوال سے پیچھا چھڑا کر واپس بڑودہ پہنچا تو
وہاں نریندر مودی کا حلف نامہ نے ان کا منتظر تھا۔ اچانک پانچویں مرتبہ
کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتے ہوئے نریندر مودی اپنی شادی کا اعتراف کرکے سب
کے ہوش اڑا دئیے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ انتخابات نریندر مودی کو وزیر اعظم
بناسکیں گے یا نہیں لیکن اس نے بیوہ کی سی زندگی گزار نے والیجشودھا بین کو
ایک کاغذی شوہر ضرورعطا کر دیا ۔ اس لئے ماننا پڑے گا کہ جشودھا بین ۴۰ سال
کے بعد الیکشن کے بغیر ہی بلا مقابلہ کامیاب ہوگئیں۔ اس سے قبل مودی نے چار
مرتبہ کاغذاتِ نامزدگی داخل کئے اور ہر مرتبہ بیوی کے خانے کو خالی چھوڑ
دیا ۔ کسی سنگھ پرچارک کے اس کالم کا خالی ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی
لیکن پانچویں مرتبہ اچانک حلف نامہ میں اعتراف کیجریوال پر ہونے والے
پانچویں حملے سے زیادہ چونکادینے والا تھا اس لئے فلمی اداکارائیں تو گوں
ناگوں وجوہات کی بناء پر اپنی شادی کوراز میں رکھتی ہیں لیکن کسی سیاستداں
کی جانب سے سامنے والا یہ پہلا مشہور واقعہ تھا۔
نریندر مودی نے اس مرتبہ یہ اعتراف کیوں کیا ؟ اس سوال بہت ہی آسان جواب
یہ ہے کہ گزشتہ سال کسی رضاکار تنظیم نےسپریم کورٹ میں گہار لگائی کہ رائے
دہندگان کے بنیادی حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ امیدوار اپنے حلف نامہ میں
ساری معلومات فراہم کرے۔ اس پر فیصلہ کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے ۱۳ ستمبر
۲۰۱۳ کو یہ فیصلہ دیا کہ اگر کوئی امیدوار مکمل معلومات فراہم نہیں کرتا
تو انتخابی افسر اس کو یاددہانی کرائے اور اس کے باوجود اگر کوئی بات
چھپائی جاتی ہے تو اس کی درخواست کو رد کردے ۔ سپریم کورٹ کے اس ڈنڈے نے
نریندر مودی کا منہ کھلوایا اور اس سے جشودھا بین کے بھاگ (تقدیر) کھلے اس
لئے جشودھا کو اس تنظیم اور عدالت کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
اس خبر پر جوسیاسی بونڈر کھڑا ہونا تھا سو ہوا۔ راہل گاندھی نے کہا نریندر
مودی دہلی میں آکر خواتین کے حقوق پر لمبی چوڑی تقریر یں کرتے ہیں لیکن
خود اپنی اہلیہ کا نام تک لینے سے کتراتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو اپنی بیوی
کو سنبھال نہ سکا وہ ملک کیا سنبھالے گا اور ملک کی خواتین اس سے انصاف کی
توقعکیسے کرسکتی ہیں؟دگ وجئے سنگھ نے چٹکی لی مودی جھوٹا ہے اس نے حلف نامہ
پر جھوٹ کہا ہے اس لئے اس پر فوجداری مقدمہ چلایا جاناچاہئے۔ دگ وجئے نے
کہا کہ اگر مودی کو جشودھا سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہی تھی تو لازم تھا کہ
وہ طلاق دیتا ۔ دگ وجئے نےمودی کی بیوی کا معاملہ اس وقت بھی اٹھایا تھا جب
مودی نے کانگریسی رہنما ششی تھرور کی ازدواجی زندگی پر تنقید کی تھی۔ اس
بیچ وزیر قانون کپِلسبل نے ایک وفد کے ساتھ الیکشن کمشنر سے ملاقات کرکے
مودی کی جانب سے ماضی حلف نامہپر غلط بیانی کے خلاف مناسب کارروائی کا
مطالبہ کیا ۔
کپِل سبل نے بی جے پی کی جانب سے کئے جانے والے اس دفاع کو مسترد کردیا کہ
یہ مودی کا ذاتی معاملہ ہے ۔ سبل کے مطابق اپنے امیدوار کے بارے یہ معلومات
جاننا رائے دہندگان کا حق ہےاور اسے چھپانا ان کی حق تلفی ہے۔ بی جے پی
والے اس معاملے میں جس قدر دفاع کرتے ہیں اتنے ہی پھنستے چلے جاتے ہیں
۔کوئی شخص اگر کسی مال غصب کرلے اور کہہ دے کہ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے تو
کیا وہ معاف کردیا جائیگا۔ بی جے پی یہ بھی کہتی ہے کہ وہ بچپن کی شادی تھی
جو زبردستی کردی گئی تھی۔ ۱۷ سال کی عمر میں یہ شادی ہوئی اور تین سال تک
وہ دونوں ساتھ رہے تو کیا یہ کوئی بچوں کا کھیل تھا ۔ مدھو کشور جو آج کل
مودی کی بڑی وکیل بنی ہوئی ہیں فرماتی ہیں دراصل وہ ایک رسم تھی شادی ہوئی
ہی نہیں تھی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر ایسا ہے تو مودی نے اپنے حلف نامہ
میں جشودھا کو اپنی بیوی کیوں لکھا؟ دراصل اگر شادی نہیں ہوئی تھی تو یہ
حلف نامہ غلط ہے اور اگر ہوئی تھی تو پرانے حلف نامے غلط تھے ۔ دونوں کسی
صورت درست نہیں ہو سکتے۔
بی جے پی کی وینکٹ رمن کہتی ہیں کہ وہ بچپن کی شادی تھی جو قانون کے خلاف
ہے ۔ اگر ایسا تو جن لوگوں نے اس قانون کی خلاف ورزی کی ہے ان کو سزا ملنی
چاہئے۔ نیز اس منطق سےاگر اس ملک کی لاکھوں شادیوں کو غیرقانونی قراردے دیا
جائے تو نہ جانے کتنے خاندان اجڑ جائیں گے ۔ ایک آدمی کو بچانے کیلئے بی
جے پی ملک کے کروڈوں لوگوں کو مصیبت میں ڈالنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کا یہ
بھی کہنا ہے کہ دیش کی بھکتی میں مودی نے اپنی اہلیہ کو چھوڑ دیا ۔ اگر
ایسا ہے تو کہ کیا مودی کے علاوہ بی جے پی کے دیگر شادی شدہ ارکان دیش بھکت
نہیں ہیں؟ اس بار بی جے پی رہنماؤں مثلاً یشونت سنہا، صاحب سنگھ ورما، رمن
سنگھ، وسندھراراجے، مینکا گاندھی، کلیان سنگھ ،پرمود مہاجن وغیرہ وغیرہنے
اپنی اولاد کو سیاسی اکھاڑاہے توکیا یہ سب دیش دروہی ہیں ۔ درحقیقت اس بابت
مودی نے نہ صرف ملک و قوم بلکہ سنگھ پریوار کو بھی دھوکہ دیا ہے -
بی جے پی کے ترجمانوں کو جب کوئی جواب نہیں سوجھا تو وہ دھمکی پر اتر آئے
اور کہنے لگے ہمارے پاس بھی نہرو گاندھی خاندان کے خلاف بہت کچھ مواد ہے
اور اگر ہم اسے باہر لے آئیں گے تو ہنگامہ مچ جائیگالیکن بی جےپی کو معلوم
ہونا چاہئے کہ یہ مسئلہ دھمکیوں سے قابو میں آنے والا نہیں ہے۔ بی جے پی
کے منشور میں اس بار بھی یکساں سول کوڈ کی بات کی گئی ہے جو بلاواسطہ مسلم
پرسنل لاء کی مخالفت ہے ۔ سنگھ پریوار کو مسلمانوں سے شکایت ہے کہ وہ ایک
سے زیادہ نکاح کرتے ہیں ۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے متھرا سے بی جےپی
امیدوار ہیما مالنی خود تعدد ازدواج کی محرک اور دھرمیندر کی دوسری بیوی
ہیں ۔ ویسے ماضی میں دھرمیندر بھی بی جے پی کے رکن پارلیمان رہ چکے ہیں۔
مودی کے سب سے بڑے حامی رام جیٹھ ملانی اور سابق بی جےپی نائب صدر کی بھی
دو عدد بیویاں ہیں اور نہ جانے ایسے کتنے بی جے پی رہنما ہیں جو مسلم پرسنل
لاء سے استفادہ بھی کرتے ہیں اور اس کی مخالفت بھی کرنے سے باز نہیں آتے۔
اس کے علاوہ بی جے پی کو مسلمانوں سے شکایت ہے کہ وہ بے دریغ طلاق دے کر
اپنی بیوی کےساتھ ناانصافی کرتے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ اگر مسلمان طلاق کی
بابت دینی حدود قیودکا خیال نہ رکھیں تو اس سے خواتین کے ساتھ ناانصافی
ہوتی ہے لیکن پھر بھی زوجہ دوسری شادی کرنے کیلئے آزاد تو ہو جاتی ہے اور
ایسا کرنا ۴۰ سال سے زیادہ عرصہ اپنی دھرم پتنی کو معلق چھوڑ دینے سے بہتر
ہے ۔ جہاں تک انصاف کا سوال ہے نریندر مودی نے کاغذات نامزدگی میں اپنی
جائیداد ڈیڑھ کروڈ بتلائی ہے لیکن اس کثیر دولت میں اس کی بیوی کا کوئی حصہ
نہیں ہے ۔ وہ خود سرکاری محل میں رہتا ہے جبکہ بیوی ۵۰۰ روپئے والے کرائے
کے مکان میں رہتی ہے جس کے اندر بیت الخلاء تک کی سہولت نہیں ہے ۔ اس کو جب
اپنے بھائی کے پاس پڑوس کے گاؤں میں جانا ہوتا ہے تو بس یا رکشا سے جاتی
ہےجبکہ مودی چارٹرڈ ہوائی جہاز پر چلتا ہے کیا یہی انصاف کا اعلیٰ نمونہ
ہے؟ مودی نے اپنے حلف نامہ میں بیوی کی جمع پونجی یا پین کارڈ کے متعلق
لکھا کہ اسے معلومات نہیں ہے ۔ اگر جشودھا کا گھر ٹمبکٹو میں ہوتا تب تو اس
بیان پر یقین کیا جاسکتا ہے لیکن یہ کیسا وزیر اعلیٰ ہے جو اپنی ہی ریاست
میں رہنے والی ایک خاتون کا بینک بیلنس یا پین کارڈ نمبر معلوم کرنے سے
قاصر ہے جبکہ بقول خود وہ اس کی بیوی بھی ہے۔
مودی کو ان الزامات سے بچانے کی آسان سی ترکیب آسارام باپو کے ساتھ کیا
جانا والا مردانگی کا ٹسٹ ہے جس کے مثبت نتائج نے اسے ضمانت سے محروم
کردیا۔ اگر مودی اس ٹسٹ میں ناکام ہوجائے تو طبی بنیاد پر اسے راحت مل سکتی
ہے لیکن اس کے باوجود نریندر مودی کوبال برہما چاریکا سرٹیفکٹ نہیں مل سکتا
۔ اس لئے کہ ۱۷ اپریل ۲۰۱۳ کوسی بی آئی کے سامنے گجرات ایس آئی ٹی
کےآئی پی ایس افسر جی ایل سنگھل نےجو انکشافات کئے وہ نریندر مودی کی فطرت
سے آگاہ کرتےہیں۔سنگھل دراصل عشرت جہاں کےفرضی انکاؤنٹر میں ملوث تھا اور
اسی تفتیش کے دوران یہ معاملہ سامنے آیا ۔ سنگھل نے ۲۵۷ ٹیلی فون ٹیپ پر
مشتمل ایک یو ایس بی سی بی آئی کے حوالے کی جس میں۲۰۰۹ کے دوران پران لال
سونی بیٹی کی نجی زندگی کینگرانیغیر قانونی طور پر نریندر مودی کے منشاء کے
مطابق کی گئی تھی۔مودی کے ساتھ ۲۰۰۵میں کچھّ شرد اتسو کے دوران اس کنواری
لڑکی کی ملاقات کا ذکر ضلع کلکٹرپردیپ شرما نے سپریم کورٹ میں اپنے داخل
کردہ حلف نامہ میں کیا ہے۔
گجرات پولس نے نہ صرف گجرات میں اس لڑکی سمیت اس کے منگیتر کے ٹیلی فونس
ٹیپ کئے بلکہ ہر جگہ ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ ہوٹل میں ان کے برابر والے
کمرے میں پولس والے کو تعینات کردیا گیا۔ بنگلورمیں جہاں وہ رہتی تھی وہاں
بھی اس کے فون کو ٹیپ کرانے درخواست کی گئی مگر یدورپاّ نے ایسا کرنے
سےانکار کردیا ۔ بی جے پی نے اس بابت یہ صفائی پیش کی اس لڑکی کے والد نے
اس کی درخواست کی تھی لیکن سچ تو یہ ہے اس نگرانی کا پتہ نہ لڑکی کو تھا
اور نہ اس کے منگیتر یا باپ کو۔ بی جے پی نے ڈرا دھمکا کر خط لکھوالیا لیکن
قانون کے مطابق اگر کوئی ملک و قوم کیلئے خطرہ نہ ہو تو اس کے فون ٹیپ نہیں
کئے جاسکتے اور بی جے پی نے تسلیم کیا ہے کہ اس سے ریاست کوکوئی خطرہ نہیں
تھا ۔
اس نگرانی میں مودی کی دلچسپی اور امیت شاہ پر دباؤ کا اندازہ ایک فون
گفتگو سے کیا جاسکتا ہے جو سنگھل اور شاہ کے درمیان ہوئی۔ اس ۹ اگست
۲۰۰۹کی گفتگو میں شاہ کہتا ہے صاحب کو کسی اور سے پتہ چلا کہ وہ لوگ دو
مرتبہ باہر گئے اور ہمارے آدمی اس کی اطلاع نہ دے سکے ۔ مجھے لگتا ہے کہ
اپنے آدمی ٹھیک کام نہیں کررہے۔ سنگھل توجہ دو تاخیر سے اطلاع آنے کی
صورت میں ہماری تصویر بگڑ جاتی ہے ۔ جس خوف کا شکار امیت شاہ تھا اسی خوف و
دہشت کا شکار فی الحال جشودھا بین ہے اس لئے وہ کہتی ہے کہ اسے مودی سے
کوئی شکایت نہیں ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ مودی وزیر اعظم بن جائے ۔وہ اس کیلئے
دعا کرتی ہے وغیرہ۔ سچ تو یہ ہے کہ جب ۲۰۰۹ میں ہیما دیشپانڈے اس سے ملی
تھی تو وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اسکول کے پرنسپل نے اول تو منع کیا
پھر کچھ لوگوں کو بلا کران سے ڈرایا دھمکایا گیا۔ اس کے بعد وہ ہیما سے ملے
بغیر ہی چلی گئی اور اب تو سنا ہے کہ وہ یاترا پر نکل چکی ہے۔ مظلوم جشودھا
کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے اس لئے کہ وہ نریندر مودی جیسے درندہ صفت انسان
کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہےجس کے نزدیک انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ اپنی تمام تر سفاکی کے باوجود نریندر مودی کی
بیچارگی کا یہ عالم ہے کہ بی جے پی کا یہ خودساختہ سپر اسٹار ہر فلمی ستارے
کے پیچھے بھاگتا ہے ۔ پہلے اس نے سلمان خان کے ساتھ پتنگ بازی کی اور نتیجہ
یہ ہوا کہ ملاقات کے بعد آنے والی سلمان کی فلم جئے ہو بری طرح فلاپ ہو
گئی ۔ اب مودی رجنی کانت سے ملنے کیلئے بیتاب ہے۔ رجنی کانت نے ۲۰۰۴ میں
بی جے پی کوووٹ دیا بی جے پی تمل ناڈو میں اپنا کھاتہ نہ کھول سکی ۔ ۲۰۰۹
میں اڈوانی نے ملاقات کی لیکن اس کا اعتماد نہ حاصل کرسکے۔ اب مودی نے
ملاقات کی کوشش کی تو اس نے پہلےانکار کردیا لیکن جب تمل اکائی نے بہت منت
سماجت کی تو راضی ہو گیا ۔ دراصل رجنی کانت کی بیٹی کی ہدایت میں بننے والی
پہلی فلم کوچہ دایان مئی میں ریلیز ہونے والی ہے ۔ مودی سے ملاقات کے بعد
اس فلم کا کیا حشر ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
ایک انتخابی جلسہ میں مودی نے کہا تھا ’’ میرے نہ کوئی آگے ہے نہ پیچھے
میں بدعنوانی کس کیلئے کروں گا ‘‘ فی الحال ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنا
ہوا ہے۔ دراصل انسان جرائم کا ارتکاب خود اپنے لئے کرتا ہے لیکن دوسروں کو
موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔مودی نے یقینا ً اپنی کرتب نگاری سے سنگھ کو اپنے
آگے سے ہٹا دیا ہے اور جشودھا بین سمیت اپنے سارے خاندان سے پیچھا چھڑا
لیا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ اس کے پیش نظر اقتدار کا حرص اور پیچھے
اروند کیجریوال ہے جو اس کےلئے خطرہ بنا ہواہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ اقتدار کے
حصول کی خاطر اور اسے قائم و دائم رکھنے کیلئے مودی نے نہ صرف بدعنوانی
بلکہ قتل و غارتگری تک سے گریز نہیں کیالیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ
حقیقت ہے کہ اقتدار کے ہاتھ سے نکل جانے کے خطرہ اسے نہ چین سے بیٹھنے دیتا
ہے اور نہ دے گا۔یقینا ًجب انسان اقتدار کے ساتھ عائد ہونے والی ذمہ داری
کے احساس سے بے بہرہ ہوجائے تو وہ ظالموں اور جاہلوں کی قبیل میں شامل ہو
جاتا ہے اوربدقسمتی سے اس بابتبیشتر سیاستداں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک ہی
کشتی میں سوار ہیں۔ |