جو لوگ بلوچستان کی موجودہ
صورتحال پر نظر رکھتے ہیں انہوں نے یہ بات محسوس کی ہوگی کہ اسلام آباد کے
ارباب اقتدار کی طرف سے اکثر و بیشتر یہ افواہ پھیلائی جاتی ہے کہ بلوچ
لیڈروں کے ساتھ مذاکرات ہورہے ہیں کبھی کبھی اس حد تک بھی کہا جاتا ہے کہ
مزاحمت کاروں کے ساتھ بھی ہمارے رابطے ہیں اس کے جواب میں مزاحمت کاروں کی
قیادت کی طرف سے ایسی خبروں کو ہمیشہ گمراہ کن و بے بنیاد قرار دے کر ان کی
تردید کی جاتی ہے چونکہ سرکار بلوچستان و بلوچ بارے کسی طرح بھی سنجیدہ
نہیں اس لیے اسے بارہا اس طرح کے ہتھکنڈوں کا سہارا لینا پڑتا ہے-
ایسی خبریں پھیلانے میں رحمان ملک سے لے کر بلوچستان میں پی پی پی کے صدر
اور وزیر اعلٰی سمیت اکثر اعلٰی سرکاری عہدہ دار شامل رہے ہیں۔ آج کل ایسی
ہی ایک بے بنیاد خبر رحمان ملک کی طرف سے پاکستانی اخبارات کی زینت بنی ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ وہ سردار اختر مینگل سے رابطے میں ہیں اور اب
براہمدغ بگٹی سے ملنے کابل جارہے ہیں-
یہ افواہ سن کر ایک بات آگئی جس نے بھی کہا ہے بہت سچ کہا ہے کہ رحمان ملک
اتنے جھوٹ بولتے ہیں کہ اس کی باتیں کندھے پر بیٹھا گناہیں لکھنے والے
فرشتے کے ہاتھ لکھتے لکھتے شل ہوچکے ہیں اور دائیں کندھے پر بیٹھا نیکیاں
لکھنے والا فرشتہ بے روز گار بیٹھا برسوں کی نیند سو رہا ہے-
وزیر داخلہ کا بیان یوں چھپا ہے کہ“ رحمان ملک کا اختر مینگل سے مثبت بات
چیت اور براہمدغ بگٹی سے ملاقات کرنے کا فیصلہ “ آگے رپورٹ میں کہا گیا ہے
کہ “ نواب بگٹی کے پوتے براہمدغ بگٹی کابل میں موجود ہیں اور وہ حکومت کے
ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں حکومت کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ بلوچ رہنما
کو واپس لائے بغیر بلوچستان میں دیر پا امن قائم نہیں کیا جاسکتا-“
چونکہ خبر بڑی ہے اور ایسی ہی گمراہ گن و بے بنیاد باتوں سے بھری ہے اس لیے
ہم نے مذکورہ خبر سے صرف دو جملے نکالے اور انہی کا تجزیہ کرتے ہیں جس سے
آسانی سے پتہ چل سکتا ہے کہ صرف دو جملوں میں اتنی غلط بیانی کی گئی ہے کہ
باقی کہ باقی جملوں میں کیا کیا گل کھلائے ہوں گے سمجھنا اتنا مشکل نہیں-
خبر کی سرخی کہ “ رحمان ملک کا براہمدغ بگٹی سے ملاقات کرنے کا فیصلہ “ پڑھ
کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخص خجالت جیسے لفظ سے بالکل نا واقف ہے نہیں تو
کون نہیں جانتا کہ اگر براہمدغ بگٹی کی طرف سے ملنے کا اشارہ ملتا ہے رحمان
ملک اپنی جگہ گیلانی اور آصف زرداری دونوں کب کے ملاقات کرچکے ہوتے- ہمیں
براہمدغ بگٹی کی نیت کا علم نہیں لیکن ان کے بیانات اور انٹرویو کی روشنی
میں یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر رحمان ملک نے ان سے ملاقات کا فیصلہ کسی
کی درخواست پر کیا ہے تو وہ اپنا فیصلہ واپس لے لے، کیونکہ براہمدغ بگٹی نے
ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر نہیں کی ہے اور نہ ہی براہمدغ بگٹی کو اس
ملاقات کی ضرورت ہے-
اس خبر کو اس طرح دینے سے پاکستان کے وزیر داخلہ نے یہ تاثر دینے کی کوشش
کی ہے کہ براہمدغ بگٹی عرصے ملاقات کے لیے بے چین بیٹھے تھے لیکن وزیر
موصوف نے ملاقات کا فیصلہ نہیں کیا تھا لٰہذا اب انہیں فرصت مل گئی ہے اور
وہ ان سے ملیں گے اسی خبر سے منسلک ایک اور بات یہ کہ ٹھیک دو ہفتے پہلے
پاکستان کے مشیر نے سات سو کے قریب تخریب کاروں کی فہرست افغان حکومت کے
سپرد کی ہے جس میں براہمدغ بگٹی کا نام پاکستانی حکام نے دہشت گردوں میں سر
فہرست رکھا تھا اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص دو ہفتہ پہلے دہشت گرد تھا
اور بلوچستان میں تمام دہشت گردی کے واقعات میں مطلوب تھا اب ان چودہ دنوں
کے اندر کیا ہوگیا کہ اس کے سینکڑوں کیس ختم ہوگئے خاص کر وہی کیسز جو اس
نام و نہاد و جمہوری دور میں اس پر قائم کئے گئے تھے - دو ہفتوں کے اندر
اندر وہ قومی رہنما بن گیا اور اس سے رحمان ملک جیسا پاکستان کا اعلٰی
عہدیدار ملاقات کرنے جارہا ہے اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اختر مینگل
اور براہمدغ بگٹی کل بھی قومی رہنما تھے اور آج بھی قومی رہنما ہے اور
براہمدغ کے خلاف پاکستانی حکام کی طرف سے سینکڑوں کیسز بے بنیاد ہیں جنہیں
صرف بلیک میلنگ کے لیے قائم کیا گیا ہے اس ایک طرف اس ملک میں تمام سیاسی
شخصیات پر کیسز کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے تو دوسری طرف اس ملک کے عدالتی
نظام کا بھی پول کھلتا ہے گویا ملک عدل و عدالت حکمرانوں کے گھر کی لونڈی
ہے جب جی چاہا کیس بنا دیا جب جی چاہا واپس لے لیا-
اسی خبر میں جہاں تک اس اطلاع کا تعلق ہے کہ گورنمنٹ براہمدغ بگٹی سے مسلسل
رابطے میں ہے بھی اپنی ساخت کے لحاظ سے حقیقت سے بہت دور نظر آتی ہے اور
شاید ایسے موقعوں پر کہا جاتا ہے“ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے“ یا اس غلط بیانی
کے بھونڈے پن کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ “ نقل کے لیے بھی عقل چاہیے-“
اگر رحمان ملک کی یہ بات حقیقت ہے کہ براہمدغ بگٹی سرکار کے ساتھ رابطے میں
ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر رابطے میں ہوتے تو رحمان ملک ان کے بارے
میں مسلسل غلط بیانیوں سے کام نہیں لیتے خاص کر جان سلیکی کے اغواء کے وقت
تو براہمدغ پر الزام لگانے اور پھر انہیں اٹھانے میں رحمان ملک بلا کی
پھرتی دکھا چکے ہیں- پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پہلے کئی انٹرویوز میں اس
انگریز کے اغواء میں مری ہاؤس کی طرف انگلی اٹھاتے رہے اور ایک بار تو اس
حد تک کہا کہ براہمدغ کا اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ
اجلاس میں تمام الزامات براہمدغ بگٹی پر لگائے گئے- دوسری بات یہ کہ اگر
براہمدغ بگٹی مسلسل رابطے میں ہے اسے افغانستان سے نکالنے افغان حکومت کو
فہرست دینے اور باضابطہ اس کی طلبی کی کیا ضرورت تھی- اور خاص کر اس سطح پر
بات کرنا کہ حامد کرزئی کو براہ راست بلوچ رہنما کو اپنے وطن سے نکالنے یا
پاکستان کے حوالے کی درخواست کرنا- اس کا مطلب ہے آپ پہلے غلط بیانی سے کام
لے رہے تھے جب براہمدغ بگٹی کی حوالگی کی بات کررہے تھے یا اب سچ نہیں بول
رہے ہیں کہ براہمدغ بگٹی مسلسل آپ کے ساتھ رابطے میں ہیں- ( جاری ) |