پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی جاسوسی

سیاسی گرما گرمی کے سے سبب جمہوری نظام کو در پیش خطرات کے بعد میڈیا جن خدشات کا سب سے زیادہ اظہار کر رہا ہے ان میں ملکی سلامتی خصوصاً ایٹمی اثاثوں کی بیرونی جاسوسی اور نگرانی سرفہرست ہے۔ ویسے تو پاکستان اپنے قیام کے دن ہی سے دشمن قوتوں خصوصاً صیہونی طاقتوں کی آنکھ میں بری طرح کھٹک رہا ہے لیکن جب سے پاکستان نے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا ہے ارض وطن کیخلاف یہودو نصاریٰ کی سازشوں میں بھی انتہائی تیزی آگئی ہے اور وہ نعوذ باللہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو تباہ کرنے کی نت نئی سازشوں اور منصوبہ بندیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اگرچہ ان طاقتوں میں اسرائیل اور بھارت کے نام سر فہرست ہیں لیکن یہ دونوں ممالک از خود اتنی جرات نہیں رکھتے کہ پاکستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں لہٰذا اپنے مذموم مقاصد کے لیے انہوں نے امریکی گود میں پناہ لے رکھی ہے۔ امریکہ گو کہ خود کو ہمارا دوست اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہمارا اتحادی گردانتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے ہماری دوستی سے زیادہ اپنی ضرورتیں اور مفادات عزیز ہیں اور وہ ان کے حصول کے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے جس کی ایک مثال مختلف اوقات میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر تشویش کا اظہار اور بارہا ان پر قبضے کے حوالے سی کی جانیوالی کوششوں کی وہ خبریں ہیں جو آئے روز میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں جبکہ اس مقصد کے لیے امریکہ نے بعض اطلاعات کے مطابق جاسوسی کا باقاعدہ نظام بھی وضح کر رکھا ہے، جو بھارتی ایجنسی راء اور اسرائیلی ایجنسی موساد کی مدد سے جاری ہے ۔

پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کی ایک طویل داستان ہے جس کے حصول میں بڑے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ دشمنوں نے ہمارے ایٹمی پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کئی بار کوششیں اور سازشیں کیں جو کہ تاحال جاری ہیں جس کی ایک مثال گزشتہ دنوں امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک کی جانب سے سامنے آنے والا وہ بیان ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ القاعدہ اب پاکستان سے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کے پاکستانی سائنسدانوں سے بھی رابطے ہیں۔ حالانکہ اگر حقائق پر نظر دوڑائیں تو خود امریکہ ایک عرصہ سے ہمارے اثاثوں کی جاسوسی کی سر توڑ کوششوں کے باوجود اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکا جو کہ اس بات کی ٹھوس دلیل ہے کہ پاکستان کے اثاثے نہ صرف محفوظ ترین ہیں بلکہ دنیا کی ان تک رسائی بھی ناممکن ہے اور یہی دلیل ہالبروک کے الزامات کی تردید بھی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کتنے محفوظ ہیں یا ان کا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم کس قدر مؤثر ہے اس کا اندازہ ان اثاثوں کی جاسوسی کے ناکام واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ کوئی تین عشرے قبل امریکہ نے ہمارے کچھ انجینئر اور سائنسدانوں کو خرید کر نیوکلیئر تنصیبات کو تکنیکی طور پر تباہ کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ کراچی یونیورسٹی میں ایم اے انگلش لٹریچر کی ایک طالبہ کو ایک لڑکے رفیق منشی سے عشق ہو گیا۔ یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد وہ آپس میں ملتے رہے۔ شادی کے وعدے وعید بھی ہوئے۔ وہ کراچی کے ایک کالج کی لیکچرر تعینات ہو گئی اور رفیق منشی کینوپ میں ملازم ہو گیا۔ ایک دن رفیق منشی اچانک غائب ہو گیا۔ چار سال بعد رفیق منشی پھر کراچی میں نمودار ہوا۔ ماضی کے برعکس اب وہ مالدار تھا اور ایک خوبصورت امریکن لڑکی اس کی دوست بن چکی تھی لیکن وہ اس کے پاس آتا رہا۔ گو اس کے دل میں رفیق منشی کی دوسری دوست کھٹکتی تھی مگر عشق چلتا رہا اور انتقام کی آگ بھی سلگتی رہی۔ ایک دن رفیق منشی دفتر جاتے ہوئے اپنی الماری بند کرنا بھول گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس الماری میں بہت سے ڈالر اور کاغذات پڑے ہیں۔ ان کاغذات میں بہت اہم ملکی راز تھے جنہیں وہ افشاء کرنے سے ڈرتی تھی مگر وہ اس کے ذہن پر سوار ہوگئے۔ان دنوں لیفٹنٹ کرنل امتیاز آئی ایس آئی سندھ کے سربراہ تھے۔ بات ان تک پہنچی اور پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کی بہت بڑی سازش قبل از وقت ناکام ہو گئی۔ لیفٹنٹ کرنل امتیاز کو تمغہ بصالت دیا گیا۔ رفیق منشی امریکی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا۔ امریکی خفیہ ایجنسی نے دو خوبصورت لڑکیوں سمیت پانچ امریکیوں کو پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرنے کا کام سونپا تھا۔ ان دو لڑکیوں میں سے ایک رفیق منشی کی محبوبہ بنی ہوئی تھی۔ یہ امریکی ایجنٹ پاکستان کے مختلف شہروں میں کام کر رہے تھے اور پاکستان کی مختلف نیوکلیئر انسٹالیشنز کے رفیق منشی سمیت 12 ملازمین کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ آئی ایس آئی کے کاؤنٹر سیبوٹاج کے نتیجہ میں پانچوں امریکی اور 12پاکستانی گرفتار کر لئے گئے۔ امریکیوں کو ملک سے نکال دیا گیا۔ صدر ضیاءالحق نے ٹیلیفون کر کے امریکہ کے صدر سے احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں امریکہ نے آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی مگر وعدہ لے لیا کہ یہ خبر ذرائع ابلاغ کو نہیں دی جائے گی۔

یقین دہانی اور وعدے کے باوجود امریکہ باز نہ آیا اور اس کی ایک اور بڑی سازش اس وقت بے نقاب ہوئی جب کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کی حدود میں ایک چرواہے کی نظر کچھ بڑے پتھروں پر پڑی جن میں جاسوسی کے حساس آلات اور کیمرے نصب تھے جن کے ذریعے وہاں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جارہی تھی۔ اسی سلسلے کا ایک واقعہ ناظرین کی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ جب ضیاءالحق اپنے دور صدارت میں امریکہ کے دورے پر گئے تو وہاں وائٹ ہاؤس میں ایک میٹنگ میں انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہمارا ایٹمی پروگرام منجمد ہے۔ اس پر وہاں موجود سی آئی اے کے سربراہ نے ایک فلم دکھائی جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام منجمد نہیں بلکہ جاری ہے۔ شاید یہ فلم بھی مذکورہ پتھروں میں نصب شدہ کیمروں کی مدد سے بنائی گئی تھی۔

ضیاءالحق دور ہی میں بھی بھارت، امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے مشترکہ طور پر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن مؤثر ترین سکیورٹی کے سبب نہ صرف یہ ناپاک جسارت ناکام ہوئی بلکہ تینوں ممالک کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ امریکی شہہ پر اسرائیل اور بھارت نے مشترکہ طور پر 1980ء میں عراق کے ایٹمی پلانٹ کو ایف سولہ طیاروں کے ذریعے تباہ کرنے کی طرز کی کارروائی ہی سے پاکستان کے اثاثوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن پاکستانی حکام خبر ہونے پر پاکستان نے اپنے اس وقت کے وزیر خارجہ کو اس پیغام کے ساتھ دہلی بھیجا گیا کہ اگر پاکستان کی نیوکلیئر تنصیبات پر کوئی بھی حملہ ہوا تو پاکستان بھارت ہی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائے گا اور بھرپور جوابی حملہ بھی کرے گا۔ اسی دوران امریکی سیٹلائیٹ سے لی گئی تصاویر سے جب منصوبہ سازوں کو معلوم ہوا کہ پاک فضائیہ نہ صرف حرکت میں آچکی ہے بلکہ نیوکلیئر وارہیڈ سے لیس ایف 16طیاروں کے ایک اسکوارڈن کو بھارتی نیوکلیئر تنصیبات ٹروم بے،ٹرینکو میلی اور دوسرے مقامات پر حملے کرنے کے لیے ریڈ الرٹ کر دیا گیا تو دہلی، واشنگٹن اور تل ابیب میں کھلبلی مچ گئی اور دشمن کو ہماری نیوکلیئر تنصیبات پر حملے جرآت نہ ہوئی۔ ایسا ہی ایک واقعہ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھی پیش آیا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب بریگیڈیئر امتیاز نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں ڈی جی آئی بی بنائے گئے۔ بریگیڈیئر امیتاز کو ایک شخص جو کہ اسلام آباد میں موجود ایک یورپی سفیر سے رابطے میں تھا اور ایک تیسرے ملک کی جانب سے سی آئی اے کے لیے بھی کام کر رہا تھا کو امریکہ کی جانب سے امریکہ اور بھارتی فنانسنگ کے ذریعے پاکستان کے اہم ایٹمی پروگرام کے سکیورٹی نقائص اور ایٹمی ہتھیاروں کی اصل پوزیشن کا پتہ چلانے کا ہدف ملا تھا کی موجودگی کی اطلاع ملی، ”سٹار“ کوڈ کے نام سے کام کرنے والے اس شخص کو پاکستانی حکام نے ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرنے پر راضی کیا اور ڈی بریفنگ کے ذریعے جو راز اگلوائے ان کے مطابق اسے نہ صرف ایٹمی تنصیبات کا ٹاسک سونپا گیا تھا بلکہ اس کے ذمہ یہ کام بھی لگایا گیا تھا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر پالیسی فیصلوں کو امریکی خواہشات کے مطابق کرانے کے لیے اقتدار کی دہلیز پر موجود لوگوں سے رابطہ کرے اور سرائیکی منصوبے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے علاقائیت کو فروغ دے۔ اس مقصد کے لیے اسے ایک این جی او بنانا تھی جس کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد اور شاخیں بہاولپور، اور سندھ میں قائم کی جانی تھیں لیکن یہاں بھی ارض وطن کے تحفظ کے ذمہ داروں نے دشمن کی چال کو ناکامی سے دوچار کر دیا۔

1998ء میں جب پاکستان نے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا تو امریکہ سمیت ہمارے روایتی دشمنوں کو ایک بار پھر سانپ سونگھ گیا اور وہ پھر سے سازشوں میں مصروف ہوگئے اور یوں ”آپریشن بلیو تلسی“ جس پر ایک عرصہ سے کام جاری تھا زور پکڑ گیا۔ اس آپریشن کے ذریعے جہاں پاکستان میں ”را“ سی آئی اے اور موساد نے پاکستان میں حالات کی خرابی اپنا مشترکہ ہدف قرار دی وہیں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو (نعوذ باللہ) نیست و بابود کرنے کا بھی عہد کیا۔ ارض پاک پر دہشت گردی اور لسانیت کے ذریعے اس آپریشن کے ایک حصے میں خاصی کامیابی کے بعد اب دوسرے حصے کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی پر عمل جاری ہے اور رچرڈ ہالبروک کا اوپر بیان کردہ الزام بھی اسی سلسلہ ہی کی ایک کڑی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج بھی دشمن عملی طور پر ناکام ہونے کے بعد ایک اور چال چل رہا ہے اور اس کے تمام پروپیگنڈے کا مقصد ہمارے ایٹمی اثاثوں پر قبضے کے سوا کچھ نہیں۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 56937 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.