جو لوگ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش
کر رے ہیں ، وہ ملک کی خدمت کر رہے ہیں ، نہ قوم کی ۔پاکستان کی چھیاسٹھ
سالہ تاریخ پاک فوج کی لازوال قربانیوں سے بھری پڑی ہے ۔ملک کی جغرافیائی
سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ قدرتی آفات میں بھی فوجی جوان سول اداروں کے شانہ
بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں اور بلا شبہ اُن کی کارکردگی دیگر اداروں سے کہیں
بڑھ کر ہوتی ہے ۔صبح ومسا دھرتی کواپنے خون سے سینچنے والے کڑیل جوانوں سے
محبت ہمارے خون میں رَچ بَس چکی ہے ۔ایک ایوب ، ایک یحییٰ، ایک ضیاء اور
ایک پرویز مشرف کی وجہ سے یہ جذبۂ محبت مدھم پڑا ، نہ پڑ سکتا ہے کیونکہ یہ
اُن کے ذاتی افعال و اعمال تھے اور ایسا کرتے وقت اُنہوں نے سوائے اپنے چند
قریبی ساتھیوں کے کسی سے مشورہ نہیں کیا تھا ۔ دینِ مبیں کی تاریخ میں حضرت
ابراہیم ؑ کا باپ،حضرت لوط ؑکی بیوی اور حضرت نوح ؑ کا بیٹا ، ربّ ِ
ذوالجلال کے ہاں راندۂ درگاہ ٹھہرے لیکن کیا اِس بنا پر اُن انبیاء ؑکی
توقیر میں (نعوذ باﷲ) کوئی فرق پڑا ؟۔ روزِ محشر ہر کسی کو اپنے اپنے اعمال
کا حساب خود دینا ہو گا ۔اُس نفسا نفسی کے عالم میں باپ کام آئے گا نہ بیٹا،
ماں سفارش کرے گی نہ بہن ۔اگر ربّ ِ کریم نے اُخروی اور ابدی زندگی کے لیے
باپ کے اعمال کا ذمہ دار بیٹے کو قرار دیا ، نہ بیٹے کے اعمال کا باپ کو تو
پھر اِس چند روزہ فانی زندگی میں یہ کہنا کہاں تک درست ہو سکتا ہے کہ پاک
فوج کے کچھ سابق سَر براہوں کے افعال و اعمال پر تنقیددر اصل افواجِ
پاکستان پر تنقید ہے جو اُس کی بدنامی کا باعث بنتی ہے؟۔اگر پرویز مشرف
صاحب نے جس آئین کے تحت حلف اُٹھایا ، اُسی آئین کو توڑنے کے مرتکب ہوئے
ہیں تو کیا اُن سے محض اِس لیے صرفِ نظر کیا جائے کہ وہ پاک فوج کے سَربراہ
رہ چکے ہیں ؟۔اور کیا آقا ؐکا یہ فرمان (نعوذ باﷲ) فراموش کر دیں ’’وہ
قومیں برباد ہو جاتی ہیں جو طاقت وروں کو چھوڑ دیتی اور کمزوروں کو سزا
دیتی ہیں ‘‘۔کیا اُس عدل کو فراموش کر دیں جس پر دینِ مبیں کی یہ عظیم
الشان عمارت اُستوار ہے ؟۔میڈیا پر باتیں فتح مکّہ کے موقعے پر عالمین کے
لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے میرے آقا ؐ کی عام معافی کی ہورہی ہیں ۔عرض ہے
کہ مکّہ تو مسلمانوں نے فتح کیا تھا اور مفتوحین کو حضورِ اکرم ؐنے چند نرم
شرائط کے ساتھ عام معافی دے دی لیکن یہاں تو کوئی فاتح ہے نہ مفتوح، یہاں
تو ایک آئین شکن ملزم کا معاملہ ہے اور کیا ہم نہیں جانتے کہ ایک دفعہ جب
ایک طاقتور قبیلے کی عورت نے چوری کی تو حضورؐ نے اُس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم
دے دیا ۔صحابہ نے عرض کیا کہ اِس عورت کو معاف کر دیا جائے کیونکہ قبیلہ
طاقتور ہے اور شَر کا اندیشہ ہے ۔تب حضورؐ نے فرمایا’’ ربّ ِ کعبہ کی قسم
اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اُس کا ہاتھ کاٹنے کا بھی حکم
دیتا‘‘(مفہوم)۔
اکتوبر 1999ء میں محترم نواز شریف نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے جنرل
ضیاء الدین بَٹ کو افواجِ پاکستان کا نیا سر براہ بنانے کی کوشش کی اور
ایسا کرتے ہوئے میاں صاحب کے سامنے کارگل کی جنگ اور پرویز مشرف صاحب کی
باغیانہ روش تھی ۔اگر آئین وزیرِ اعظم کو یہ حق نہیں دیتا تو پھر میاں صاحب
قومی مجرم ہیں اور اگر یہ اُن کا آئینی حق تھا تو پھر کیا پرویز مشرف صاحب
قومی مجرم نہیں ٹھہرتے ؟۔ فوج ایک با وقار ادارہ ہے جس کا احترام سب پر
لازم لیکن میاں نواز شریف صاحب بھی تو سولہ کروڑ عوام کے منتخب نمائندے تھے
۔کیا اُن کا احترام واجب نہیں تھا ؟۔ کیا ہم دینَ مبیں کا یہ حکم بھول گئے
کہ اﷲ کی اطاعت کرو ، اﷲ کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور حاکمِ وقت کی ۔سوال یہ
ہے کہ اکتوبر 1999ء میں حاکمِ وقت کون تھا، پرویز مشرف یا میاں نواز
شریف؟۔اگر میاں نواز شریف ہی حاکمِ وقت تھے تو پھر کِس کی اطاعت واجب تھی
؟۔ پرویز مشرف صاحب کے دَور میں میاں نواز شریف صاحب کے ساتھیوں پر جو ظلم
کے پہاڑ توڑے گئے اور جو سلوک خواجہ محمد آصف ، خواجہ سعد رفیق اور پرویز
رشید صاحب کے ساتھ روا رکھا گیا وہ اتنا کریہہ اور گھناؤنا ہے کہ خود اِن
اصحاب کی زبانیں گُنگ۔اِس انسانیت سوز سلوک کے باوجود سبھی نے اپنی ذاتی
رنجشوں کو بھلا کر جب کئی بار یہ کہا کہ اُنہوں نے پرویز مشرف کو معاف کر
دیاتو پھر ہمیں بھی اُن کے کہے پہ یقین کر لینا چاہیے ، حالانکہ اینٹ کا
جواب پتھر سے دینا بھی عین اسلام ہے ۔اِن اصحاب نے پرویز مشرف صاحب کے
معاملے میں وہی رویہ اختیار کیا جو حضرت علی ؓ نے ایک یہودی کے ساتھ اختیار
کیا تھا ۔ حضرت علی ؓ نے دَورانِ جنگ ایک یہودی کو زمین پر گرا یا اور اُس
کی چھاتی پر بیٹھ کر اُس کی گردن تَن سے جدا کرنے ہی والے تھے کہ اچانک
یہودی نے آپ ؓ کے مُنہ پر تھوک دیا ۔حضرت علیؓ اُس کی چھاتی سے اُتر گئے
اور اُسے معاف کر دیا ۔یہودی کے استفسار پر آپؓ نے فرمایا ’’پہلے میں تمہیں
اﷲ ذوالجلال کی خاطر قتل کرنا چاہتا تھا لیکن تمہارے میرے مُنہ پر تھوکنے
سے اِس میں میری ذاتی رنجش بھی شامل ہو گئی ۔اِس لیے میں نے تمہیں معاف کر
دیا‘‘۔میاں فیملی ، خواجگان اور پرویز رشید صاحب تو ذاتی رنجش معاف کر چکے
لیکن قومی جرم معاف کرنے کا حق تو اُنہیں بھی حاصل نہیں ۔ ایسے طالع آزما
جو آئین کو سو صفحات پر مشتمل ایک فضول سی کتاب سمجھتے ہیں ، اُن پر تنقید
ہمارا حق ہے اور فرض بھی ، جو ہم اداکرتے رہیں گے لیکن اِس کا یہ کہاں مطلب
نکلتا ہے کہ ہمیں افواجِ پاکستان سے پیار نہیں ؟۔بات اشرافیہ کی نہیں
عامیوں کی ہے جو اپنے رکشوں ، ویگنوں ،ٹرکوں اور ٹیکسیوں کے پیچھے ’’پاک
فوج کو سلام‘‘ لکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ
پاکستان کی آبادی اگر بیس کروڑ ہے تو پونے بیس کروڑ یہی’’عامی‘‘ ہی تو ہیں
۔
میرے کچھ مہربان میرے کالموں پر طنز و تعریض کے تیروں کی بوچھاڑ کرتے رہتے
ہیں ۔بعض اوقات اُن کی طعنہ زنی نا قابلِ برداشت ہو جاتی ہے ۔اِس کے باوجود
بھی میں نے ضبط کا دامن کبھی نہیں چھوڑا ۔کہا جاتا ہے کہ ہم ’’بھاڑے کے ٹٹو
‘‘ اور قلم فروش ہیں۔اگر کسی سیاسی جماعت کی پالیسیوں سے اتفاق کرنا جُرم
ہے تویہ جرم ہم سے سرزد ہوتا ہی رہے گا اِس لیے اپنے مہربانوں کی خدمت میں
عرض ہے
نکالا چاہتا ہے کام تُو طعنوں سے کیا غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تُجھ پر مہرباں کیوں ہو
مسلم لیگ نواز کو پسند کرنے اور اُس کی پالیسیوں کو ملک و قوم کے لیے بہتر
خیال کرنے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ ہم افواجِ پاکستان کے ساتھ محبت و
یگانگت کے سارے رشتے بھلا چکے ہیں ۔فوج پر تنقید اگر کروں تو خود میری ذات
بھی اِس کی زد میں آتی ہے کیونکہ میری بیٹی میجر ڈاکٹر ہے جو بلوچستان کے
دور دراز اور خطر ناک علاقوں میں خدمات سر انجام دے چکی ہے ۔میرا میجر
ڈاکٹر داماد ’’سیا چِن ‘‘کی بلند ترین چوٹی ’’بالتورو‘‘ پر خدمات سر انجام
دے چکا ہے اور آجکل بھی اُس علاقے میں تعینات ہے جو براہِ راست طالبان کی
زد میں ہے ۔ہم اُس کَرب سے بخوبی آگاہ ہیں جو اپنے جگر گوشوں کو خطرناک
ترین علاقوں میں بھیج کر والدین کو ہوتا ہے ۔مجھے وہ دِن بخوبی یاد ہیں جب
میری بیٹی بلوچستان میں اپنے فرائضِ منصبی ادا کر رہی تھی اور وہاں ہر روز
بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ ہو رہی تھی ۔وہ دِن بھی بھلائے نہیں بھولتے جب
میرا داماد سیاچِن کی بلند ترین چوٹی پر بیٹھا تھا اور ہمارا اُس سے کسی
قسم کا کوئی رابطہ نہیں تھا ۔ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے اُس شہید لیفٹیننٹ
کو بھی منوں مٹی کے سپرد کیا جو ’’وانا‘‘ میں اپنی پہلی ہی پوسٹنگ پر گیا
اور منصبِ شہادت سے سر فراز ہوا ۔میرے خاندان کے کئی افراد اب بھی افواجِ
پاکستان میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ، اِس لیے کسی کو ہمیں یہ بتلانے کی
ضرورت نہیں کہ ہمیں پاک فوج سے پیار ہے یا نہیں ۔ہمارا واضح نقطۂ نظر یہ ہے
کہ کسی کے ذاتی افعال و اعمال کو کسی ادارے کی بدنامی سے جوڑنا بد دیانتی
کی انتہا ہے لیکن بَد قسمتی تو یہ ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا محض اپنی
ریٹنگ بڑھانے اور چند ٹَکوں کے اشتہارات کے چکر میں سول اور عسکری قیادت کے
درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھرپور سعی کر رہا ہے جو کسی بھی لحاظ سے
مناسب ہے نہ لائقِ تحسین۔ |