قائد اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کے وصال کے بعد پاکستان کے برے دن آگئے ۔ بے پناہ
مشکلات اور مصائب نے عوام سے جینے کا حق چھین لیا۔ طالع آزماؤ ں انسانیت سے
عاری ایمان سے خالی درندہ صفت انسانوں نے اسے اس طرح لوٹا اور لوٹتے چلے
آرہے ہیں گویا کہ یہ ایک مردار ہے اور وحشی درندے اسکی لاش سے حسب استطاعت
اپنا پیٹ بھر رہے ہیں۔ پہلا براوقت تو وہ تھا جب پاکستان کی افواج کا
سربراہ صلیبی گریسی مقرر ہوا جس نے افواج پاکستان کو شاہراہ جموں و کشمیر
پر کنٹرول سے روک دیا۔پاکستان کا وزیر خارجہ غیر مسلم ہی نہیں دشمن اسلام
انگریز کے پالتو ظفراﷲ کو بنایا گیا۔ جس نے اپنے خبث باطن کا کھل کر مظاہرہ
کیا اور پاکستان کو صلیبیوں اور یہودیوں کا غلام بنادیا۔ قادیانیوں نے
پاکستان کے اہم شعبوں کو اپنے قبضہ میں کرلیا۔مملکت اسلامیہ کا قاضی القضاۃ
بھی صلیبی کارنیلس۔ کیا حرماں نصیبی؟ مسلم قائدین نے پاکستان جن مقاصد کے
لیئے بنایاتھا انہیں یکسر مفقود کردیا گیا۔ کوئی بتائے کہ 1949 کی قرارداد
مقاصد کے پاس ہونے کے بعد بھی پاکستان کا آئین کیوں نہ بن سکا ؟ در حقیقت
یہ پاکستان کے خلاف پہلی سازش اور پاکستان کے ساتھ غداری تھی۔ اسمبلی توڑ
دی گئی اور نئے انتخابا ت کے بعد وجود میں آنے والی آئین ساز اسمبلی نے وہ
کارنامہ سرانجام دیا جو پانچ سال میں کالعدم اسمبلی نہ کرسکی ۔ 1956 کا
آئین نافذ ہوگیا جسکی یاد میں 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کے نام سے پاکستان
بھر میں فوجی اور دفاعی قوت کا مظاہرہ ہوتا رہاجو اب ختم کردیا گیا ہے۔
راولپنڈی کے ریس کورس گراؤنڈ میں مرکزی سطح پر پرجوش اور پرعزم فوجی قوت کا
مظاہرہ کرکے قوم کو نئے جوش و ولولہ سے سرشار کردیاجاتا تھا۔ کالجوں میں
فوجی تربیت اور سکولوں میں بوائے سکاؤٹس تحریک بھی قوم میں عسکری جذبوں کی
عکاسی کرتے تھے ۔ ان امور کو بند کرکے فیسٹیول اور ناچ گانے کی محافل نے لے
لی۔ ہم نے بچپن سے جمہوریت کو دیکھا ۔لوٹ مار کے لیئے اسمبلیوں میں جانا
مجبوری، کچھ کا عدلیہ میں جانا ضروری تاکہ غیر قانونی کاموں پر سزا سے بچا
جا سکے۔ کچھ نے آرمی میں کمیشن لے کرعلاقائی طور پر بڑے ہونے کا ثبوت دیا۔
سیاست دانوں نے قومی وسائل پر بے دریغ قبضہ کیا ۔ مزدور تو صرف امرا کی
امارت بڑھانے کا محنت کش تھا۔اور آج بھی ہے۔ لٹیروں نے انتہا کردی کہ اشیاء
خوردنی کی ذخیرہ اندوزی کی گئی اور عوام کو مہنگے داموں چیزیں فراہم کی
جاتی تھیں۔ 7 اکتوبر 1958 کو جنرل محمد ایوب خان مرحوم نے مارشل لا لگایا
تو ذخیرہ اندوزوں نے فوجی سزاؤں سے بچنے کے لیئے گوداموں سے مال گلیوں اور
سڑکوں پر پھینک دیا۔ میں دسویں کلاس کا طالب تھا۔ فوجیوں نے قریہ قریہ کا
دورہ کیا عوام کی شکایات کا ازالہ کیا اب دکانیں کھل گئیں اور ہر چیز
فراوانی سے ملنے لگی۔ عوامی فلاح وبہبود کے کام ہونے لگے۔ ہمارے سیاست
دانوں نے جناب محمد ایوب خان کا گھیراؤ کرلیا۔ پھر اسے عوام سے گالیاں
دلائیں لیکن وہ ایک غیر مند انسان تھا اس نے استعفیٰ دیا ،اقتدار کو لات
ماری۔ اسے کسی قسم کا ڈر یا خوف نہ تھا کیونکہ اس نے کوئی کرپشن نہ کی
تھی۔جبھی تو بغیر کسی حفاظتی حصار کے کئی سال جیا اور اسلام آبادکی سڑکوں
پر چہل قدمی کرتے آزادی کے ساتھ زندگی گذار باعزت اپنے رب کے پاس چلاگیا۔
ظالم اور لٹیرے ہی ڈرتے ہیں۔ سیاستدانوں کی لوٹ مار نے مشرقی پاکستان کے
عوام کے حقوق پر اس قدر ڈاکہ ڈالا کہ وہاں کی عوام کو مخالفین پاکستان نے
اپنے ساتھ ملا لیا حالانکہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے مسلم لیگ کی بنیا رکھی،
قرارداد پاکستان پیش کرنے والے وہیں کے تھے۔ سیاستدانوں ، سرمایہ داروں نے
انکا استحصال کیا ۔آخر تنگ آمد بجنگ آمدکے مصداق انہوں نے مغربی پاکستان کے
سیاستدانوں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اپنی نمائندہ جماعت کو کامیاب بنایا۔
انہوں نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرلی اور انہیں یقین تھا کہ اب وہ
اپنے حقوق حاصل کرلیں گے ۔ انکی حکومت بننے کے واضح امکانات تھے لیکن غاصب
سیاستدانوں نے گھناؤنا کھیل کھیلا کہ فسادات شروع ہوگئے۔اگر شیخ مجیب کی
حکومت بن جاتی تو مشرقی پاکستان کا صدمہ قوم کو نہ اٹھانا پڑتا۔ سیاستدانوں
نے فسادات کے خلاف فوج کو استعمال کیا۔ پھر سب نے دیکھ لیا کہ جبر سے
کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ مغربی پاکستان ہی اب پاکستان رہ گیا۔ پھر سیاسی
گرگوں نے عوام کا جینا دوبھر کردیا۔ گھی ، آٹا ، چینی تو سرمایہ داروں نے
عوام کے لیئے نایاب کردیئے ۔ ہم نے دیکھا کہ گھی کے سٹور پر عوام کی
لائینیں لگی ہوئی ہیں جیسے ہی کوئی گھی کا ڈبہ لے کر نکلتا چند قدم پر اس
سے وہ چھین لیا جاتا۔ راشن ڈپوؤں پر آنے والی چینی عوام کو تو نہ ملتی
البتہ بلیک کردی جاتی۔منظور نظر پارٹی کارکنوں کے وارے نیارے تھے۔ پھر فوجی
حکومت آگئی تو اسکی برکت سے عوام کو تمام اشیاء خوردنی بازار میں عام ملنے
لگیں۔ عرض کرنے کا مدعا یہ ہے کہ ہمارے ملک کے نام نہاد سیاست دان جب بھی
اقتدار میں آتے ہیں پہلے اپنا اور اپنوں کا پیٹ بھرتے ہیں ۔ عوام تک نوبت
نہیں آتی۔ خیر سے اگر کچھ عوامی بھلائی کے کام ہوئے تو وہ فوجی دور اقتدار
میں ہوئے۔ اگر ملک پر کوئی مصیبت آئی تو افواج پاکستان نے سب سے پہلے اور
سب سے زیادہ اخلاص کے ساتھ کام کیا۔ سیلاب آئے تو ڈوبتوں کو بچانا فوجیوں
کا کام ہے۔قحط آئے تو فوجی اپنے نوالے اپنے ملک کے غریبوں کے منہ میں
ڈالیں، اپنی ضرورت کی دواؤں سے انکا علاج کریں، اپنے ٹینٹ، گاڑیاں ، پانی
کے ٹینکر، کمبل غرضیکہ کہ ہر چیز اپنے ملک کے عوام پر قربان کرتے ہیں۔ پھر
کوئی زبان درازی کرے کہ فوجی اچھے نہیں۔ تم سیاستدان اچھے ہوکہ دنیاکے
مختلف ممالک میں تمہارا سرمایہ ہے جو تم پاکستان سے لوٹ کر لے گئے۔ غیر
آباد اور پرخطر سرحدی علاقوں کی زمینوں کو آباد کیا تو فوجیوں نے کیا۔ فوج
نے اپنے بجٹ سے کئی کارخانے ، فیکٹریاں اور ملیں لگا کر قومی معیشت کو آگے
بڑھایا۔ ممکن ہے کہ کسی جرنیل نے سیاستدانوں کی شاگردی میں کچھ ناجائز مال
حاصل کیا ہو۔ مگر وہ پھر بھی ایک ڈسپلن کا پابند ہوتا ہے اپنی کئی سال کی
نوکری کو بے دھڑک داؤ پر نہیں لگاتاجس طرح ہمارے ملک کے سیاستدان ۔ چور
چوروں کو تحفظ دیتے ہیں۔ سوئز بنکوں میں پاکستانیوں کا سرمایہ واپس لانے
بارے کیوں سبھی خاموش ہیں، پاکستان کی بجائے دنیا کے دوسرے ممالک میں کیوں
سرمایہ کاری کی گئی اور کی جارہی ہے۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے حصے کے
اثاثے بھارت نے غصب کرلیئے تو وہاں لگائی جانے والی صنعتیں بھی اسی ملکیت
ہیں۔ پاکستان کے عوام کیا اسی لیئے پیدا ہوئے کہ سیاستدان انکی خون پسینے
کی کمائی اور اﷲ کے عطا کردہ وسائل دوسرے ملکوں کے عوام کی بھلائی پر صرف
کریں؟ پاکستان کے عوام ایسے لٹیرے حکمرانوں سے تنگ آچکے ہیں اور اب مزید
انہیں موقع نہیں دینا چاہتے۔ افواج پاکستان ہی پاکستان کی مخلص ہیں۔
پاکستان کی اندرونی اور بیرونی حفاظت انہیں کا کام ہے۔عوام انہیں ہی اپنا
نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ نام نہاد سیاستدانوں کے مزے ہیں ۔ رکن اسمبلی بنے
تو بھاری تنخواہ اور مراعات لینا شروع کردیں۔ ترقیاتی فنڈز علیحدہ کھائے۔
پرمٹ لیئے، عوام سے کام کرنے کے معاوضے علیحدہ لیئے۔ گندے کرتوت کرکے سب کو
بدنام کرایا۔ جب رکنیت ختم ہوئی تو پنشن ملنے لگی۔ کوئی نہیں کہتا کہ انہوں
نے کونسا قومی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ فوج کا سپاہی 18 سال سروس کرے دن
رات ملک اور قوم کی خاطر صاف ستھری زندگی بسر کرے تو اسے ٍمعمولی پنشن ملتی
ہے۔یہ سیاستدان مشکل وقت پر ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔ کیا ان کو سرخاب کے پر
لگے ہوئے ہیں کہ یہی پاکستان پر مسلط رہیں گے۔ اسلامی طریقہ کے مطابق ملک
کے سربراہ کا ماہر حرب وضرب اور دلیر ہونا ضروری ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ
مارشل ہی لگایاجائے بلکہ ملک کی انتظامیہ اور تمام محکموں کے سربراہ اعلیٰ
فوجی افسران ہوں ۔ جنہیں اس بات کا خطرہ ہوگا کہ اگر کرپشن کی یاظلم کیا تو
فوجی احتساب کی تلوار سرپر ہے۔ اب نظام حکومت تبدیل کیا جائے۔افواج پاکستان
کا سربراہ ہی ملک کا آئینی سربراہ ہو۔ انتظامیہ فوجی ہو۔ خفیہ ایجنسیوں کی
رپورٹ پر ہر طبقہ زندگی سے نمائندے لے کر مجلس شوریٰ تشکیل دی جائے جس کا
سربراہ خود سربراہ مملکت ہو۔ اب ڈوبتی ناؤکو بچانے کا یہی طریقہ ہے۔ بیرون
ملک پاکستان کا سرمایہ طاقت سے واپس لایا جائے۔ |