میرے وطن کا ایک بڑا مسئلہ ژولیدہ فکری ہے۔ ہم میں سے ہر
شخص اپنی محبت اور نفرت ، پسند و نا پسند کا بڑا پکا ہے۔ اپنی اپنی چوائس
کی حد تک تو بات درست ہے لیکن جب اپنی پسند دوسروں پر ٹھونسنے کا عمل شروع
ہوتا ہے اور دوسروں کی پسند کو مکمل طور رد کر دیا جاتا ہے تو انتہا پسندی
وجود میں آتی ہے۔ ہماری سوچ بھی کہیں ایسی ہی تو نہیں ہوتی جا رہی ہے؟ اگر
ایسا ہے تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔دلیل سے بات کی جائے تو اچھا راستہ نکل سکتا
ہے لیکن اگرذاتی پسند، نقطہٗ نظریہ ،طریقہ کارہی حرف آخر بن جائے تو پھر
کیسی دلیل اور کیسا توازن ؟ضروری ہے کہ اہلِ وطن اپنے کردار کا اس نظریے کے
تحت ایک کھرا جائزہ لے لیں۔
کہیں ایسا تونہیں کہ میری نظر میں میرا لیڈر ، میری پارٹی، میرا ادارہ اور
میری پسند ہی سب کچھ ہو۔ انسان خطا کا پتلا ہے، جلد بازاورجھگڑالو ہے ۔ یہی
تو الفاظ ہیں جو اﷲ کی کتاب میں انسان کے بارے میں استعمال ہوئے ہیں۔ تو
پھر لیڈر خطاؤں سے بالا کیونکر ہو سکتے ہیں۔ یہی لیڈر پارٹی اور ادارے
چلاتے ہیں تو کوئی بھی پارٹی یا ادارہ کلیتاً درست یا کلیتاًغلط کیسے ہو
سکتا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر شخص ،ادارہ یا سوچ غلطیوں اور درستگیوں کا
ملا جلا مجموعہ ہوتا ہے۔ جہاں نظام بہتر ہے،بہتر اصولوں پر مبنی ہے، ذات کی
پسند و ناپسند سے نکل کر اجتماعی سوچ اور مشترکہ مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے
وہاں اچھے نتائج کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
پاکستانیوں نے بمشکل تمام سکھ کا سانس لینے کی تیاری شروع کی تھی کہ تحریک
طالبان کے ساتھ مذاکرات خدشات کے باوجودآگے بڑھتے دکھائی دے رہے تھے۔ ادارے
اور اشخاص اپنے اپنے دائرہ کار میں رواں ہوتے محسوس ہونے لگے تھے، تبدیلیوں
کے اثرات نظر آنے لگے تھے کہ اچانک ہی شروع ہو جانے والی ادارہ جاتی تنقید
نے اہل وطن کو مضُطرب کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے ارد گرد کے حالات بہت پرسکون
ہرگز نہیں ہیں ۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات ہو چکے،متوقع نتائج کے
مُطابق نئی قیادت کچھ دنوں تک ہی سامنے آ جائیگی ۔ امر یقینی یہ ہے کہ
پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات تناؤ کا شکار رہیں گے۔ نتائج سے قطعِ نظر،
پاکستان کی مغربی سرحدوں پر غیریقینی کی صورتحال برقرار رہے گی۔ تحریک
طالبان کا مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔ مشرق میں بھارت بھی انتخابی عمل سے گزر
رہا ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ نریندر مودی اپنے عزائم سمیت حصول اقتدار میں
کامیاب ہو جایئگا۔ روس یوکرین تنازعہ ، شام، مصر اورخلیجی ریاستوں میں پائی
جانے والی بے چینی اور ابھرتی ہوئی فرقہ واریت کی لہر آنے والے دنوں کی
مشکلات کی ایک جھلک دکھلا رہی ہے۔اندرونی محاذ کی سنگینی کا اندازہ لگانے
کے لیے صرف گُذشتہ روز پیش آنے والے واقعات ہی کافی ہیں۔سندھ ،بلوچستان اور
راولپنڈی کے علاوہ قبائلی علاقہ جات میں رونماہونے والے پہ در پہ واقعات
یقینی طور پر آنے والے مُشکل ایام کا پیش خیمہ دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں
قومی قیادت سے اعلیٰ ترین بصیرت، شخصی مفادات سے بالا تر سوچ اور خطرات کے
مقابلے کے لئے متحد ہونے کی توقع اوربڑے ظرف کی ضرورت ہے۔ ذاتی ،گروہی
پارٹی یا ادارہ جاتی نمود سے بالا تری کی اُمید ہے۔ جب ظرف بڑا اور اجتماعی
مفادات پیش نظر ہونگے تو نامعقول بیانات اور تبصرے خود بخود کم ہو جائیں گے۔
قومی قیادت کے ساتھ ساتھ میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔معقول اور بالغ
نظر صحافت قوم کے لیے ایک نعمت ہے تو ریٹنگ کے نام پر مچایا جانے والا دنگا
فساد ،موجودہ حالات میں یقینی طور پرانتہائی مُضر ثابت ہو سکتاہے۔کسی بھی
پیچیدہ صورتحال میں عوام میڈیا ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔سنجیدہ معاملات پر
معاشی اور ادارہ جاتی مفادات کو پسِ پُشت ڈال کر مثبت اور متوازن صحافت ہی
موجودہ خلفشار کو کم کر سکتی ہے۔
پاک فوج اس وقت نہایت مشکل حالات کا مقابلہ کر رہی ہے۔ پچھلے تیرہ سال سے
ایک پیچیدہ جنگ میں اُلجھی قوم کے ساتھ ساتھ فوج بھی بے بہا قربانیاں دے
چکی۔بدلتی دنیا کے ساتھ ساتھ آج فوج کے جوان اور افسر بھی اپنی قومی قیادت
کی ایک ایک حرکت اور ایک ایک بیان کو بغور دیکھتے ہیں۔ایسی جنگ میں تمام
دنیا کی بہترین افواج بھی شدید نفسیاتی دباؤ میں رہتی ہیں۔تمام دنیا کی
افواج کی نسبت پاکستانی فوج کے جوان اور افسرشرحاً وار زون میں تقریباً دو
گنا زیادہ وقت گزار رہے ہیں۔پاکستانی جوان کی نسبت آدھے سے بھی کم وقت
گزارنے کے باوجودآئے دن امریکی فوج کے ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کی داستانیں
ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ شدید ترین دباؤ اور بھانت بھانت کی بولیاں سننے
کے باوجود افواج ِ پاکستان میں ایسے عارضے نہ ہونے کے برابرہیں۔ماہرینِ حرب
حیران ہیں اور اس کی وجوہات میں سے بڑی وجہ عوام کی محبت اور اعتماد کے
ساتھ ساتھ پا ک فوج کی نظریاتی ہم آہنگی،اعلیٰ معیار تربیت اور قیادت
پربھرپور اعتماد کو قرار دے رہے ہیں۔ قوم کی طرف سے حوصلہ افزائی کے چند
کلمات، محبتوں کے چند پھول اور چاہتوں کے چند جملے اپنے محافظوں کے جذبوں
کو جلا بخش سکتے ہیں۔
آج کے دور کی جنگ صرف فوج اور اسلحے کی بدولت جیتنا تو درکنار لڑی ہی نہیں
جا سکتی۔ ایسی جنگ میں اصل حملہ قوم کی فکر اور سوچ پر ہی ہوتا ہے۔ سوچ کو
تقسیم کر کے ہی دشمن اپنے مقاصد کے لئے زمین تیار کرتا ہے۔ اس تقسیم یا
فکری ژولیدگی کو استعمال کرکہ ہی دہشت گرد اپنے لئے مددگار اور سہولت کار
تیار کرتے ہیں اور پھر ریاستوں کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس
سارے عمل میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔جدید میڈیا کو استعمال کر کے
ہی عوام الناس کے ذہنوں کو آلودہ کیا جاتاہے۔ غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر
کے محافظ اداروں کے بارے میں منفی پیغامات پھیلائے جاتے ہیں اور اداروں کے
درمیان تصادم کے بارے میں افواہ بازی کی جاتی ہے۔مشہور شخصیات کی زبانوں سے
اپنے مطلب کے پیغامات حاصل کیے جاتے ہیں اورپھر اِن الفاظ کو توڑ مروڑ کر
ان کو اپنے مخصوص مطالب و مفاہیم میں سمو دیا جاتا ہے ۔ہشت گردی کے خاتمے
کے لئے پوری قوم یکسو ہے ۔ ہر ایک یہی چاہتا ہے کی سروں کی فصلیں مزید نہ
بوئی جائیں۔ ملک میں امن وامان ہو تاکہ ہم حقیقی ترقی کے ثمرات حاسل کر
سکیں۔اگر کچھ اختلاف ہے تو صرف اس بات پر کہ دہشت گردی کے خاتمے کا طریقہء
کار کیا ہونا چاہیے؟ صاحب اقتدار ،فیصلہ سازوں اور عساکرکے مشترکہ نقطۂ نظر
کے بعد ہی معاملے کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے
۔امید ہے کہ یہ معاملہ پرامن طریقے سے حل ہو جائیگا اور ریاست کو اپنی
عسکری قوت کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرحلے
پر غیر سنجیدہ بیان بازی سے گریز کیا جائے۔ اداروں کے ایک دوسرے کے وقار کا
خیال رکھنے کے عزم کو مشترکہ عزم سمجھا جائے اور اپنی سوچ اور سمت کو درست
رکھا جائے کیوں کہ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تو معقول ہے اور نہ ہی قابل
عمل۔ |