پہلے آپ پھر ہم۔۔۔ جی باری باری۔۔۔ کبھی پی پی، کبھی نون
اور کبھی پی ٹی آئی انکے علاوہ چھوٹی چھوٹی بھی فیضیاب۔۔!! جی ہاں پاکستانی
عوام اپنے ذہنوں اور روح کو پابند کرلیں کہ وہ انسانی بنیادی ضروریات کے
تحت بجلی کے مکمل حصول کو بہت جلدحاصل کرلیں گے اس طرح نہ شادی حالوں، نہ
کیفے اور نہ بازاروں کو سورج غروب ہوتے ہی بند ہونا پڑے گا اور نہ شاہراہیں
بھی سرے شام اندھیرے میں ڈوب جائیں گی اور اسٹریٹ کرائم کرنے والوں کو
چھپنے کیلئے کہیں اندھیرا نہ میسر آئے گا، اب بات کی جائے اگر میرے اس کالم
کے عنوان کی کہ میں نے دو ہزار پینتس کیوں لکھا تو شائد میرے قائرین کو یاد
ہو کہ ان نام نہاد جمہوری سیاسی جماعتوں نے سوائے عوام اور قومی خذانے کی
لوٹ مار کے اور دیا ہی کیا ہے ؟؟ اگر بات کی جائے الیکشن سے قبل وعدﺅں کی
تو یہ کوئی نئی بات نہیں ۔۔ ان اڑسٹھ سالوں میں یہی تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔۔
اب تو یہ مداری عوام کو نجاتے ہیں، پہلے عوام انہیں نجاتی تھی۔۔!! ناچے
کوئی بھی گھنگرو تو ٹوٹتے ہی ہیں اور بکھر کر اک شور برپا کرتے ہیں۔ عجب
شور، نہ سناجائے نہ دیکھا جائے مگر ہاں مظلوم عوام کی چیخیں میڈیا سلب
کرلیتا ہے ، احساس جگا تا ہے، بار باربریکنگ کرکے نوعیت کی اہمیت جتاتا ہے
۔۔لیکن پھر بھی ۔۔ بے حس انتظامیہ اور زرخرید پولیس کچھ کرنے سے قاصر ہوتے
ہیں ۔۔ آخر کیوں؟؟ کیونکہ یہ انہی کے طے کیئے ہوتے ہیں ، گویا جیسے تاش کے
پتے طے کیئے ہوں۔۔ !! اور تو اور پولیس کم تھی کہ عدلیہ بھی کود پڑی ،
نجانے یہ کیسے از خود نوٹس کرتے ہیں ، کہ خودی اس پر پشیماں رہتے ہیں کہ آج
تک نہ ہوسکا ان پر کوئی احکام پورا، سوائے تاریخ پر تاریخ رقم کی جاتی
رہی۔۔۔پھر عوام کس طرف دیکھیں ، کس سے کہیں ، کون ہے مسیحا ۔۔۔!! عوام جس
کو چنتے ہیں وہی منافق نکلتا ہے۔زرداری نے جو کیا وہ اچھا نہ تھا لیکن جو
نواز اور عمران کررہے ہیں وہ کیا بہتر ہے یقینا ہر کوئی نفی میں جواب دیگا
کیونکہ عوام آج بھی برسوں پہلے کی جگہ پر کھڑی ہے۔۔۔ جب وفاقی حکومت کا یہ
حال ہے تو صوبائی حکومتوں کی کیا بات کریں۔۔۔!! افسوس افسوس میرے قلیق
صحافی ایسے بھی ہیں جو صحافت کے رنگ و عمل کو اپنانے سے زیادہ مفادات کو
ترجیح دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب صحافت نہیں آپریٹنگ ہو جیسے جب چاہیں جس
طرف چاہیں آپریٹ کردیا جائے۔ بحرکیف بات کررہا تھا کہ پاکستان مین لوڈشیڈنگ
کا مکمل خاتمہ سن دو ہزار پینتس میں توقع کیا جاسکتا ہے، یعنی بیس سال ۔۔
ان بیس سالوں میں عوام کی نئی نسل، نیا شعور اور جدید ٹیکنالوجی پھیل چکی
ہوگی ۔۔۔ اس حالت میں کہ سیاسی جماعتیں اور لیڈران اپنے اپنے صوبوں میں نئی
نسل کو نا اہل اور ناکارہ بنانے کیلئے تعلیم میں نقل اور عدم دلچسپی کا زہر
انڈیل رہے ہیں انہیں نوجوانوں میں ایسا بھی طبقہ پیدا ہورہا ہے جو تمام تر
غیر قانونی ذرائع میسر ہونے کے باوجود اپنے آپ سے انصاف کرتے ہوئے صحیح اور
لگن کے ساتھ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں انہیں نہ حکومت کی جانب سے
کوئی رعایت یا مراعات کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ان کے سیاسی سرگرمیوں سے لگاﺅ
،ایسے ہی نوجوان ہمارے مستقبل کو روشن کریں گے اور ان ناکام ، ناکارہ،
جھوٹے، منافق سیاسی جماعتوں، لیڈران کا قلع قمع کرکے ایک قوم ایک نسل بن کر
پاکستان کو روشن تابناک بنائیں گے۔ گزشتہ جتنے بھی جمہوری ادوار کا مطالعہ
کیا جائے تو انھوں نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے مستقل بنیادوں پر ہرگز
کام نہیں کیا بلکہ اپنے سیاسی امیج کی خاطر مصنوعی انداز میں ایسے چمکتے
کام دکھائی جو آج بھی لگائے ہوئے چونے کے درد کو محسوس کرتی ہے ، ٹھیکے
اپنوں کے، کمیشن دوستوں کے، ذخیرہ مدتوں کا، ساری دولت ہماری لیکن بھوک و
افلاس عوام کیلئے۔۔اللہ نے پاکستان کے ہر چپے پر خذانے کے انبار بچھائے
رکھے ہیں لیکن یہ نا مراد منافق اور ظالم لیڈران عوام کے حلق میں نہ پانی
اور نہ دانا دیکھنا پسند کرتے ہیں ، اپنی چکنی چپڑے باتوں سے عوام کو
بہلانے کے سوا ہے ہی کیا ان کے پاس!!۔۔نوازشریف نے ڈیڑھ ارب ڈالر سعودی عرب
سے حاصل کیئے وہ کس کیلئے ،جی ہاں صرف اپنی ذات اور اپنے کاروبار کیلئے!!
کیوں بلا وجہ مخالفین جماعتوں کے لوگ شور مچاتے ہیں یہ بھی کسی سے کم نہیں
، کسی کو کم ملا تو بھی شور اور کسی نہ نہ ملا تو بھی شور ، ان کا کام ہی
شور مچانا ہے ، تب تک جب تک انہیں حصہ نہ ملے۔۔۔ پھر عوام کہاں جائے گی؟؟
یہ تو خود عوام کو سوچنا ہوگا، سمجھنا ہوگا، ان سیاسی جماعتوں اورلیڈران سے
بچنا ہوگا، یا تو ووٹ کا صحیح نظام رائج کروائیں یا پھر کسی کو بھی ووٹ
دینے کیلئے نہ جائیں ؟؟ پھر کہیں جاکر تقدیر بدل سکتی ہے ! عوام کے ٹیکس کو
عوام پر لگایا جاسکتا ہے ،اس عزم اور ہمت میں بیس سال کابھی شائد کم ہو اور
اگر یہ قوم سنبھل جائے تو چند لمحے بھی بہت ہیں،اسی لیئے ہم لوڈ شیڈنگ کے
علاوہ ہر کمی کو دور کرسکیں گے شائد ان بیس سالوں میں ۔۔۔۔پھر بھی اس کیلئے
سب سے پہلے ہر طبقہ فکر کے عالم و فاضل، اسکالرز، مفتیان، پیر عظام
علماءکرام کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشی شخصیات کو اپنا اپنا مثبت کردار ادا
کرنا ہوگا۔اس موقع پر مجھے حکیم الامت شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر بہت
یاد آرہا ہے۔۔۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی، یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے
نہ ناری |