ایک عادت سی بن گئی ہے کہ اپنے وجود کے بارے میں۔انسانیت
کے بارے میں۔دنیا کے نظام کے بارے میں سوچ بچار کرتا رہتا ہوں۔جو بات حق
لگتی ہے بلا جھجک لکھ بیٹھتا ہوں۔کوئی تنقید کرے تو پھر غور کرتا ہوں کہ
کہیں میں غلطی پر تو نہیں۔آج اچانک خیال آیا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اﷲ
نے پیدا ہی مسلمان کے گھر کیا۔ورنہ وہ کسی غیر مسلم کے گھر بھی پیدا کر
سکتا تھا۔اس بات پر ہمیں اپنے اﷲ کا شکر نہیں ادا کرنا چاہئے؟یہ شکر ہم کس
طرح ادا کر سکتے ہیں؟پھر یہ خیال آیاکہ کیا ہم اپنے مالک،خالق،رازق اور رب
کا شکر اس کے علاوہ کسی اور طرح ادا ہوسکتا ہے کہ، ہم اس ا ﷲ کے احکامات
اور اس کے پیارے رسولﷺ کے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کریں اور اس
پر عمل شروع کر دیں۔اب اس کام کے لئے ہمیں کیا کرنا پڑے گا۔ اگر کسی مولوی
کے پاس جاتے ہیں تو وہ ہم کو مسلمان بنائے گا یا دیو بندی،بریلوی،اہل حدیث
یا اہل تشیع بنائے گا۔یہ مشکل ہمیں اسی لئے پیش آتی ہے کہ ہم مسلمان کے گھر
پیدا ہوئے ہیں۔جس طرف ہمارا جھکاؤ زیادہ ہوگا ہم وہ بنیں گے نہ کہ صرف
مسلمان ۔لیکن یہ بات ان لوگوں میں نہیں ہوتی جو پہلے دین اسلام کا بغور
مطالع کرتے ہیں پھر کسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں۔اس معاملہ میں خصو صاًوہ لوگ
جو نو مسلم ہوتے ہیں اور سوچ سمجھ کر دین اسلام کو قبول کرتے ہیں صحیح دین
کو اپناتے ہیں۔وہ کسی مسلک کو نہیں قبول کرتے بلکہ پہلے دین کی بنیادی
باتوں پر عمل شروع کرتے ہیں اور ان کا مطالعہ قرآن اور حدیث سے شروع ہوتا
ہے پھر وہ جب نمازوں کے پابند ہو جاتے ہیں تو دوسرے فرائض کی ادائیگی میں
بھی کوئی مشکل محسوس نہیں کرتے۔اور اب ان کا عقیدہ اتنا مستحکم ہو جاتا ہے
کہ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہم نہ کسی مسلک کے پیروکار ہیں اور نہ ہم اپنے آپ
کو دیو بندی،بریلوی،اہل حدیث یا اہل تشیع کہلانا پسند کرتے ہیں۔ان کا مطالع
یہ بتاتا ہے کہ اﷲ نے تو مسلمانوں کو امت وسط کہا ہے یعنی بہترین امت ۔
اورجو پیدا اس لئے کی گئی ہے کہ لوگوں کو برائی سے روکے اور نیکی کی تلقین
کرے۔یعنی جو بات اس نے حق مان لی ہے اب اس کی دوسروں کے سامنے شہادت پیش
کرے کہ بھئی یہ حق ہے اور اس پر ہم سب کو عمل کرنا چاہئے۔اس کو یہ بات بھی
معلوم ہو جاتی ہے،جب وہ قرآن پاک کی مختصر ترین سورۃ الکوثر کو سمجھ کر
پڑھتا ہے کہ حق کی شہادت دینے کے بعد آزمائش پر آزمائش آنی شروع ہو جاتی
ہے۔اپنے گھر سے ہی مخالفتوں کے پہاڑ سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔اسی لئے ان
حالات میں اﷲ نے اپنے بندوں کو صبر کی تلقین کی ہے۔اس طرح رکاوٹوں کو عبور
کرنا آسان ہوتا جاتا ہے۔اب ذرا غور تو کریں کہ جب ہم اپنے دین کو اچھی طرح
نہیں سمجھے ہوتے ہیں تو نمازوں کا ادا کرنا ہی کتنا مشکل لگتا ہے۔لیکن جب
ایک مسلمان سمجھ کر نمازیں پڑھنی شروع کرتا ہے تو اس کو نمازوں کے چھوڑنے
کی تو کبھی نوبت نہیں آتی لیکن اگر بیماری یا نیند کے غلبہ کی وجہ سے کبھی
نماز بغیر جماعت کے ادا کرنی پڑ جائے تو اس وقت اس کو اس قدر کمی محسوس
ہوتی ہے کہ سارا دن اس کا بے چینی میں گزرتا ہے۔انسان کے اندر ایک نفس جو
ہے جسے نفس امارہ کہتے ہیں وہ نیکی کے کام کو مشکل اور برائی کے کام کو
آسان بنا دیتا ہے فجر کی نماز کس قدر مشکل لگتی ہے اور اسی طرح عشاء کی بھی
۔جہاں نماز کا خیال آیا نیند آنی شروع ہو جاتی ہے اس کے بر عکس فلمیں
دیکھنے میں ساری رات بھی جاگنا پڑے تو نیند نہیں آتی۔آخر اس کی کیا وجہ
ہے۔ذرا غور تو کریں کیا شیطان ہمیں نیکی کے کاموں سے نہیں روکتا۔اور انسان
کا نفس امارہ ہی اس کے لئے سب سے بڑا شیطان ہوتا ہے۔ہم مسلمان ہیں اور
ہمارے پاس دنیا کا افضل ترین نظام زندگی قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے
پھر بھی ہم دوسر وں کی طرف دنیاوی نظام چلانے کے لئے دیکھتے پھریں۔یہ تو
سورج کے سامنے چراغ دکھانے والی بات ہے۔جس ذات نے سارے جہانوں کا نظام
چلایا ہے،جس نے ہمار ے جسم کا نظام ایسا بنایا ہے کہ انسان اس پر غور کرے
تو حیران رہ جاتا ہے کہ واقعی یہ اسی ذات کاکمال ہے جو وحدہو لا شریک ہے ۔اس
کے علاوہ کوئی خدا نہیں۔جب اس نے یہ تمام نظام بنائے ہیں تو کیا ہمارا
معاشی نظام،معاشرتی نظام اور سیاسی نظام وہ نعوذ با اﷲ بنانا بھول گیا تھا
جو ہم اس ذات سے بغاوت کرتے ہوئے دوسروں سے لے رہے ہیں۔وہ (اﷲ)سود کو حرام
قرار دیتا ہے اور ہم سودی قرضے دھڑلے سے لیتے ہیں۔زکواۃ میں مال بڑھتا ہے
اور سود سے دولت تباہ ہوتی ہے لیکن ہم جانتے بوجھتے یہی کام کرتے ہیں جس سے
ہماری معیشت تباہ ہو،ہماری معاشرت کا بیڑا غرق ہو ہماری سیاست 5 فی صد
اشرافیہ کے گرد گھومتی رہے۔ہم جب تک اس نظام کو بدلنے کے لئے ایک نہیں
ہونگے ملک ترقی کی طرف نہیں جا سکے گا۔ہم پاکستانی مسلمان مجموعی طور پر
اپنے آپ پر ،اپنے طریقوں پر غور کریں ہم اپنے عمومی معاملات میں کس کی
تقلید کر رہے ہوتے ہیں۔کیا ہمیں اپنے دین کی پیروی اس قدر مشکل لگتی ہے اور
غیروں کے طریقے اس قدر آسان لگتے ہیں کہ ہم کسی معاملہ میں قرآن و سنت کے
طریقوں کو سامنے نہیں رکھتے۔اگر ہمیں دنیا میں عروج حاصل کرنا ہے،قدر تی
وسائل سے فائدہ حاصل کرنا ہے تو ہم کو اپنے رب کی ہدایات پر عمل پیرا ہونا
پڑے گا۔اپنے پیارے آقا ﷺ کے طریقوں کو اپنانا ہوگا ورنہ ہم ہمیشہ کے لئے
یہود و نصاریٰ کے غلام بن کر رہ جائیں گے۔ہم کو اپنے اس خول سے نکلنا پڑے
گا جو مغرب اور ہندوانہ کلچر نے ہمارے اوپر ڈال رکھا ہے۔اپنی خوشی اپنی غمی
سب کو دین اسلام کے ماتحت کردیں پھر دیکھیں اﷲ کی رحمت آسمان سے بھی برسے
گی اور زمین بھی اﷲ کی رحمتوں سے مالا مال ہو جائے گی۔اﷲ ہمیں دین حقیقی
سمجھ عطا فرمائے اور ہم ایک اﷲ کے بندے بن جائیں دوسرے سارے خداؤں کو پیر
کی ٹھوکر سے اڑا دیں۔ |