بھلا ہو آپا زبیدہ کا کہ ان کی وجہ سے ہم ایک ہائیکو لکھ
پائے۔ آپا ہمیں بالکل نہیں جانتیں اور نہ ہم انہیں۔ ہوا یہ کہ چاند کی تیرہ
کو ہماری ہمشیرہ کا فون آیا کہ آپا نے ٹوٹکا بتایا ہے کہ اگر کوئی چاند کی
١٣-١٤ اور ١٥ کو ١٠ منٹ تک چاند کو دیکھے اور اس عمل کو ہر ماہ دہراتا رہے
تو جس کو موتیا ہے وہ آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے اور جس کو نہیں ہے اس کو
ہونے کا امکان نہیں رہتا۔ سو ہم گھیر گھار کر چاند کے آگے بٹھا دئے گئے کہ
اس میں نقصان ہی کیا ہے؟ ۔۔۔۔ آسمان کو دیکھنے کا عمل ہم میں ایک عجیب سا
احساس پیدا کرتا ہے خلا سے متعلق خیالات کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ اس دن بھی
وہی کیفیت تھی ۔۔۔ ہماری زمین بھی خلا میں چکر لگا رہی ہے اور اس کے گرد
ہوا کا سمندر ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں ۔۔۔۔ یہ ہوا کا سمندر خلا میں
تحلیل کیوں نہیں ہو جاتا؟ ۔۔۔۔ یہ ہوا اس میں گم کیوں نہیں ہوجاتی؟ ۔۔۔۔
اگر ایسا ہو جائے ؟ ۔۔۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا ۔۔۔ کہ یہ بھی اللہ کی
مخلوق میں سے ایک ہیں اور یہ اس کی مرضی کے بغیر اپنے فرائض سے غفلت نہیں
برت سکتیں۔ خالق نے ہمیں اپنی مخلوق میں افضل کیا ہے اور یہ سارے انتظامات
انسان کو پیدا کرنے کے لئے ہی قائم کئے ہیں۔ روح اور زندگی کا رشتہ سانس سے
قائم ہے اور سانس ہوا کی محتاج۔ مگر اپنی زندگی کی سب سے اہم ضرورت سے
استفادہ کرتے ہوئے ہم ذرا احساس نہیں کرتے ۔۔۔ اسے یاد نہیں کرتے ۔۔۔ !!!
گم ہو گر ہوا
خلا میں کسی روز ، تو
احساس اب ہوا؟ |