خبردارنے اپنے ٹی وی چینل پر نیا جائزہ پیش کرنے کے بعد
سردار کو فون کرکے پوچھا:
خبردار : کیوں جناب سردارصاحب اب تو آپ مطمئن ہیں ۔ آپ کا پیسہ وصول ہوا
یا نہیں ؟
سردار :(غمگین لہجے میں ) ہم پیار میں جینے والوں کو چین کہاں آرام کہاں ؟
خبردار:کس کے پیار کی بات ہو رہی ہے؟ کرسی کے یا بسنتی کے؟
سردار:(چونک کر)کرسی تو ٹھیک ہے لیکن یہ بسنتی کون ہے؟ آج کل تو میں نے
تانگہ وانگہ چھوڑ کر ہوائی جہاز پر سواری شروع کردی ہے۔
خبردار: اوہو آپ بھول گئے وہی بنگلوروالی حسینہ جس کی آپ جاسوسی کروایا
کرتے تھے۔
سردار : بھئی تم نے تو پرانے زخم ہرے کردئیے ۔ الیکشن کی گہما گہمی میں تو
میں اپنے آپ کو بھول گیا تھا ؟
خبردار: وہ بھی ٹھیک ہے لیکن کسی سنگھ پرچارک کو پیار محبت کی باتیں زیب
نہیں دیتیں ۔ یہ آپ کو کیا ہوگیا ہےسردار صاحب؟
سردار :کیوں؟ کیا کوئی سنگھ سیوک انسان نہیں ہوتا ؟ اور وہ پیار نہیں
کرسکتا؟
خبردار : کیوں نہیں ؟کیوں نہیں؟ جناب آپ کی جماعت میں تو ایک عاشق مزاج
بلانوش پرچارک بھی تو گزرا ہے جس کو وزیراعظم بننے کا بھی سو بھاگیہ پراپت
ہو ا اور اتفاق سے وہ شاعر بھی تھا۔ مجھے یاد ہےوہ جب بھی شراب کے نشے میں
ٹنُ ہو جایا کرتے تھے تومحبت کے پیارے پیارے نغمے گاتےتھے ۔کہیں آپ نے بھی
تو۰۰۰۰۰۰۰۰۰(خبردار کی زبان لڑکھڑا گئی)
سردار: میں نے؟ میں نے کیا تم رک کیوں گئے ؟ بولو تم تو اپنے ہی آدمی ہو۔
خبردار: جی نہیں۔ کچھ نہیں ۔ میں سوچ رہا تھا کہ کہیں آپ نے بھی تو ان کے
نقشِ قدم ہر چلتے ہوئے دوچار پیگ نہیں لگا لیے۔ اس لئے کہ وہ پینے کے بعد
ہی بہک جایا کرتے تھے ۔
سردار: ارے بھائی وہ پرانے لوگ تھے جینے بہکنے کیلئے سوم رس کا سہارا لینا
پڑتا تھا ہم تو اس کے بغیر ہی ۰۰۰۰۰۰۰۰۰
خبردار: جی ؟؟؟ میں نے تو ایسے کئی لوگ دیکھے ہیں جو پی کر بھی نہیں بہکتے
مثلاً آپ کے گرو گھنٹال اناڑی جی اورآپ جام و سبو کے بغیر ۰۰۰۰۰۰بات کچھ
سمجھ میں نہیں آئی ؟
سردار: بھئی ہم سنگھ کے کاریہ کرتا ہیں صدا دیش بھکتی کے نشے میں چوُر رہتے
ہیں ۔
خبردار: وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں یہ پوچھ رہا تھا کہ اب تو آپ کا پیسہ وصول
ہو گیا ہوگا اس لئے آپ ہماری آخری قسط بھی بھجوا دیجئے۔
سردار : ابھی کہاں ؟ ابھی تو انتخاب ایک مہینہ چلیں گے اور اس کے بعد رائے
شماری ہو گی تب جاکر ہم وزیر اعظم بنیں گے ۔
خبردار : وہ تو ٹھیک ہے سرکار لیکن آپ کے وزیر اعظم بننے یا نہ بننے سے
ہمارا کیا تعلق؟
سردار : کیا مطلب؟ کیا تم نہیں چاہتے کہ میں وزیر اعظم بنوں ؟
خبردار:یہ آپ سے کس نے کہا کہ میں یہ نہیں چاہتا ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ
آپ بغیر الیکشن کے وزیر اعظم بن جائیں لیکن کیا کریں مجبوری ہے؟
سردار : ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ میرے وزیراعظم بننے یا نہ بننے سے
تمہارا کیا تعلق؟
خبردار: جی جناب وہ تو میں اپنے ٹھیکہ کی بات کررہا تھا ۔ ہمارے درمیان یہ
معاملہ طے پایا تھارائے دہندگی تک ہم بتدریج انتخابی جائزےلےلے کر این ڈی
اے کو ۲۷۲ تک پہنچا دیں گے سو ہم نے اتوار کو اسے۲۷۵ پر پہنچا دیا اس لئے
ہمارا کام پورا ہوگیا اب ہمیں اپنا معاوضہ مل جانا چاہئے۔
سردار : سو تو ہے لیکن ایسی بھی کیا جلدی ہے؟ ایک ماہ رک جاؤ ۔اس کے بعد
سود سمیت سارا قرض چکا دیا جائیگا۔
خبردار: لیکن جناب یہ تو وعدہ خلافی ہے ۔ آپ لوگوں نے کہا تھا سروے کے دو
دن کے اندر ساری بقایا جات چکا دی جائیں گی اب تو چار دن گزر چکے ہیں
اورآج کل آپ لوگوں کے وعدے پر تو اب بھولی بھالی عوام بھی اعتماد نہیں
کرتی۔
سردار : ارے بھائی تم کہاں دوچار دنوں کا رونا لے کر بیٹھ گئے ۔ ایک مرتبہ
میں کرسی پر بیٹھ گیا تو سالوں سال عیش کروگے سالوں سال ۔ دیکھا نہیں تم نے
گجرات میں گزشتہ بارہ سالوں سے کس کی مجال ہے جو مجھے ہٹا سکے ۔ دہلی میں
بھی یہی ہوگا ۔
خبردار: جی ہاں جناب مجھے یقین ہے کہ یہی ہوگا لیکن میں اب مزید انتظار
نہیں کرسکتا اس لئے آپ کی بھلائی اس میں ہے کہ آج شام تک رقم بھجوا دیں ۔
سردار: اچھا ! مجھے دھمکی دے رہے ہو؟ سردار کوآنکھ دکھا رہے ہو ؟ تم نہیں
جانتے کہ سہراب الدین کے ساتھ میں نے کیا سلوک کیا ؟ جو ہم سے ٹکراتا ہے
مٹی میں مل جاتا ہے۔ اگر رقم نہیں پہنچی تو تم کیا کرلوگے؟
خبردار: دیکھئے جناب ویسے بھی ہم پر پنجہ بردار کا بہت دباؤ ہے۔ ہم تو بس
یہ کریں گے آج سے اپنا لب و لہجہ تبدیل کردیں گے اور چار دن بعد ایک نیا
جائزہ پیش کردیں گے جس میں وہ اعدادو شمار ناظرین کے سامنے رکھ دیئے جائیں
گے جن کو ہم نے آپ کی خاطرسے بدل دیا تھا ۔ اس سے ہماری کھوئی ہوئی ساکھ
بھی واپس آجائیگی نیزاطالوی ہاتھ سے جو ملے گا وہ علٰحیدہ ہے۔
سردار :یارخبردار کچھ تو شرم کرو ۔ میں تو تمہیں شریف آدمی سمجھتا تھا
لیکن تم تو بڑے کمینے نکلے
خبردار: آپ ہی کیوں ساری دنیا مجھے وہی سمجھتی تھی جو آپ سمجھتے تھے اور
اب ساری دنیا مجھے وہی سمجھتی ہے جو آپ سمجھتے ہیں اس لئے اب شرم کیسی؟
سردار : میں سمجھ گیا ۔ میں تو یونہی مذاق کررہا تھا تمہیں اپنی بقایا جات
آج شام تک مل جائیں گی لیکن اتنا یاد رکھو کہ تمہارا کام ابھی ختم نہیں
ہوا ہے بلکہ یہ تو اسی وقت ختم ہو گا جب میرا کام شروع ہوگا۔
خبردار: شکریہ جناب لیکن بات دراصل یہ ہے کہ ہم لوگ جو کچھ کرسکتے تھے کر
چکے اب گیند عوام کے پالے میں ہے ۔ جن پرہمارا کوئی اختیار نہیں ۔ اب ان کی
مرضی ہےکہ وہ گیندکو گول کے اندر ماریں یامیدان کے باہر اچھال دیں۔
سردار:یار اس موقع پر تم گیند کے میدان سے باہر جانے کی بات نہ کرو مجھے
بہت ڈر لگتا ہے۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی اگر جام لبوں سے چھن جائے تو
کیسا لگے گا؟تمہیں بولو کیسا لگے گا؟
خبردار: بھئی یہ تو مہ نوش کا مسئلہ ہے کہ وہ اس کا کیا کرتا ہے۔ مہ فروش
کے لئے تو سب یکساں ہے۔چاہے مہ خوار سے بوتل کھو جائے، ٹوٹ جائے، پی لی
جائے یا کسی اورکو ہدیہ کردی جائے اس کواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس کا
مال بک گیا منافع مل گیا بات ختم ۔
سردار: یار تم سے بڑا خبر فروش کوئی اور نہیں ہوسکتا لیکن سچ بتاؤں تم
لوگوں کی تمامتر کوششوں کے باوجود مجھے اطمینان نہیں ہوتا ۔کوئی ایسی ترکیب
بتاؤ کہ سب کچھ یقینی ہوجائے۔
خبردار: (کچھ دیر سوچ کر) میری رائے ہے کہ آپ سابق وزیراعظم دیودارسے مل
لیں ۔
سردار : دیودارسے کیوں ؟ آج کل پارٹی کی زمامِ کار اس کے بیٹے کے ہاتھ میں
ہے اور وہ ہمارے ساتھ کام بھی کرچکا ہے اس سے کیوں نہیں ؟
خبردار: اس سے ملنے کا کوئی انتخابی فائدہ نہیں ہے اس لئے کہ کرناٹک میں
آپ کی پارٹی کا جہاز ویسے ہی ڈوب رہا ہے اس لئے الیکشن سے پہلے تو وہ آپ
کے ساتھ آنے سے رہے۔
سردار : اگر بیٹا نہیں تو باپ کیسے ہاتھ آئیگا ؟یہ کل یگ ہے اس میں باپ کا
بیٹے پر نہیں بلکہ بیٹے کاباپ پر زور چلتا ہے۔
خبردار: میں زور آزمائی کی نہیں بلکہ سکون و چین کی بات کررہا تھا ۔
سردار:موجودہ سیاست میں پنجہ آزمائی کے بغیر چین کہاں؟میں تمہاری بات نہیں
سمجھا۔
خبردار: میرا مطلب یہ ہے کہ ایک زمانے میں یہ بات کسی اور کے تو دور خود
دیودارکے خواب و خیال میں نہیں تھی کہ وہ ملک کے وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں
لیکن وہ بن گئے ۔ اس لئے اگر آپ ان سے مل کر دریافت کریں کہ وہ چمتکار
کیسے ہوا؟ اور اس نسخہ ٔ کیمیاکو آزمائیں۔ ممکن ہے بات بن جائے ؟
سردار:یار تم چمتکار کی بات مت کرو۔ جانتے ہوئے گزشتہ دنوں میں بنگال جب
میں تقریر کررہا تھا تو کیا ہوا؟
خبردار:جی نہیں چونکہ بنگال میں آپ کے جلسوں میں لوگ کم آرہے تھےاس لئے
ہم لوگوں نے ان خبروں کا بلیک آؤٹ کررکھاتھا ۔ اب آپ ہی بتا دیجئے کہ
کیا ہوا؟
سردار:(ہنس کر) یہی کہ میں نےحسب معمول لوگوں سے کہا کہ ہماری سرکار آئیگی
تو مہنگائی کم ہو جائیگی۔ بیروزگاری دور ہو جائیگی۔ خوشحالی کا دور دورہ
ہوگا۔بھارت سوپر پاور بن جائیگا وغیرہ وغیرہ۔
خبردار :ہمیں پتہ ہے ۔ یہ سب تو آپ ہر جلسہ میں کہتے ہیں ۔ اس میں نیا کیا
ہے؟
سردار: وہ دراصل آخر میں حسب عادت میں نے نعرہ لگایا ’’اب کی بار‘‘ عوام
نے جواب دیا ’’پی سی سرکار‘‘۔ میں نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ یہ پی سی
سرکار کون ہے؟ لوگوں نے بتایا یہ بنگال مشہور جادوگر ہے ۔
خبردار: تو آپ نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ کیا وہ آپ سے بھی بڑا جادوگرہے؟
سردار:( قہقہہ لگا کر)بھئی کیوں نہیں میں نے یہ سوال کیا تو جانتے ہو اس کا
کیا جواب ملا؟
خبردار:(حیرت سے)کیا؟
سردار: جواب تھا ۔ جی ہاں جس طرح گجرات میں آپ سے بڑا کوئی بازیگرنہیں ہے
اسی طرح بنگال میں پی سی سرکار سے بڑا کوئی جادوگر نہیں ہے۔
خبردار: (خوش ہوکر)بھئی اب تو آپ حجتِّ بنگال کے قائل ہو گئے ہوں گے۔ پھر
اس کے بعد آپ نے کیا کیا؟
سردار: ہم نے پی سی سرکار کو پکڑ کر اپنی پارٹی کا ٹکٹ دے دیا ۔ اب وہ
بنگال میں ہمارے لئے چمتکار کرنے جارہا ہے۔
خبردار: بہت خوب ۔ آپ تو ہر خطرے سے موقع نکال لینے میں ماہر ہیں لیکن
دیودارسے ملاقات کے بارے میں کیا رادہ ہے اگر مرضی ہو تو میں کوشش کروں؟
سردار: جی ہاں میں سوچتا ہوں مل ہی لوں لیکن دیکھو رجنی کانت پہلے ہی سرد
مہری کا مظاہرہ کرچکا ہےاگردیودارنےبھی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تو بڑی
سبکی ہوگی ۔
خبردار: آپ فکر نہ کریں یہ ذاتی نوعیت کی خفیہ ملاقات ہوگی ۔ کسی کو اس کی
کانوں کان خبر نہ ہوگی۔
سردار نے فون بند کیا اور آواز لگائی ارے او سانبھا میرا مطلب ہے شاہ چل
بدل چینل اورایم ٹی وی چلا دے۔ جیسے ہی چینل بدلا گیا اس پر عزیز نازاں کی
قوالی جھوم برابر جھوم شرابیکاریمکس چل رہا تھا ۔ سردار بولا ارے یہ کیا
بسنتی یہاں بھی نہیں ہے؟
(جاری)
|