قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو(قسط دوم)

کرناٹک کے ہردن ہلیّ گاؤں میں سردارکے ڈرائیور نے سابق وزیر اعظم دیودار کے فارم ہاؤس کے قریب گاڑی روک کر پوچھا اب؟ سردار نے کہا تم جاؤ اور جب میرا فون آئے آجانا لیکن کسی بتانا نہیں کہ میں کہاں ہوں۔ڈرائیور بولا سرکار آپ کا نمک کھایا ہے۔ سردار بولاجی ہاں پتہ ہے مگر خیال رکھنا ورنہ گولی کھائے گا۔ ڈرائیور سرجھکا کر چل دیا اور سردار کوٹھی کے اندر داخل ہو گیا جہاں سابق وزیر اعظم اس کے منتظر تھے۔
سردار:پرنام گرودیو
دیودار: میرا نام گرودیو نہیں دیودارہے ہردن ہلی ّ دوڈےدار دیودار۔ کہیے کیسے یاد کیا؟
سردار:(مسکرا کر)جی ہاں مجھے آپ کا لمبا چوڑا نام اور لمبے چوڑے کام دونوں پتہ ہیں۔ بس یو نہی چونکہ آپ وزیر اعظم بن چکے ہیں اس لئےمیں نے سوچاکیوں نہ آپ کا آشیرواد لے لوں۔
دیودار:(خوش ہو کر) زہے نصیب لیکن تمہارے اپنے پریوار کےمہ خوار جی بھی تو حیات ہیں۔
سردار: جی ہاں ،لیکن وہ کسی کو پہچانتے نہیں ہیں۔ میں ان سے ملنے گیا تو پوچھنے لگے تم کون ہو؟ اب بتاؤ اس دنیا میں کوئی ایسا بھی ہے جو مجھے نہیں جانتا ہو؟
دیودار: جی ہاں مہ خوار جی جیسے کروڈوں لوگ تمہیں نہیں جانتے اور تم بھی انہیں نہیں جانتے اس لئے ان کو چھوڑو اوریہ بتاؤ کہ ملاقات کی وجہ کیا ہے ؟
سردار :بس یونہی سمجھ لیجئے۔
دیودار:یہ یونہی کیا ہوتا ہے ۔ ہمارے پیشے میں توباپ بھی اپنے بیٹے سے بلاغرض نہیں ملتااور ان حالات میں۰۰۰۰۰۰۰۰
سردار: جی ہاں۔دراصل میں اس راز کو پانا چاہتا تھا جس کی بدولت بغیر کسی محنت و سعی کے آپ کو وزیراعظم بن گئے؟ کیا آپ مجھے یہ بتانے کی زحمت کریں گے آپ پردھان منتری کیسے بن گئے تھے؟
دیودار: (مسکرا کر) یہ ایک پرانی کہانی ہے کیا میں جان سکتا ہوں کہ تم وہ سب کیوں جاننا چاہتے ہو؟
سردار: (جھینپ کر) کیا بتاؤں ۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ میں بھی اس رام بان نسخہ کو آزمانا چاہتا ہوں ۔ تاکہ میں بھی ۰۰۰۰۰۰۰۰۰آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
دیودار: جی ہاں۔ آج کل تم میڈیا میں بہت اچھے جارہے ہو اور اگر یہی ہوا بنی رہی تو ممکن ہے میری طرح تمہارا بھی لاٹری کا ٹکٹ لگ جائےاور اقتدار کا تاج تمہارے سر پر سجا دیا جائے لیکن۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
سردار: (چونک کر) لیکن کیا گرودیو کوئی سنکٹ ہے کیا ؟ اگر ایسا ہے تو سمئے رہتے بتا دیجئے تاکہ اپائے کیا جاسکے۔
دیودار: دیکھو ویسے ہی مجھے ہندی ٹھیک سے نہیں آتی اور تم درمیان میں یہ کیا کون سی زبان بولنے لگے تھے کہیں گجراتی تو نہیں تھی۔
سردار : جی نہیں گرودیو۔ وہ میں شدھ میرا مطلب ہے اصلی ہندی بولنے لگا تھا جیسی کہ ہم اپنے سنگھ پریوار کے اندر بولتے ہیں۔ نہ جانے کیوں مجھے آپ سے مل کر ایسا لگ رہا ہے جیسے میں سر سنگھ چالک کے سمکش بیٹھا ہواہوں ۔
دیودار : پھرسے تم نے وہی سنگھی بولی شروع کردی ۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں یہ حماقتیں ہی تمہاری لٹیا نہ ڈبو دیں؟
سردار : کیسی باتیں کرتے ہیں گرودیو ۔ میرا پریوار تو میری نیاّ کا کھیویاّ بنا ہوا ہے۔ اس نےمجھے کامیاب کرنے کیلئے اپنے ۲ہزار سیوک وارانسی روانہ کئے ہیں ۔
دیودار: (ہنس کر) مجھے نہیں لگتا کہ سنگھ سیوک مرلی منوہر جوشی کی جگہ پر تمہیں جتائیں گے ۔ براہمن آخر براہمن ہوتا ہے ۔ ہمارے یہاں مثل مشہور ہے کہ اگر براہمن اور سانپ ایک ساتھ مل جائیں تو پہلےبراہمن کو مارو۔
سردار: جی ہاں سرکار ہمارے یہاں بھی یہ بات زبان زدِ عام ہے اس لئے اب کی بار میں نے ایک ایک براہمن کا کانٹا نکال دیاہے ۔ مرلی منوہر جوشی سے کر تو لال جی ٹنڈن تک کسی کو نہیں چھوڑا۔
دیودار: مجھے لگتا ہے تم نے اس بابت بڑی جلدبازی کا مظاہرہ کیا ہے اسی لئے مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ براہمن تمہارا کانٹا نہ نکال دیں ۔ اگر اپنی بھلائی چاہتے ہو تو سب سے پہلے سنگھ سیوکوں کو وارانسی سے نکالو ورنہ وہ گنگا گھاٹ میں تمہارا شرادھ(آخری رسومات ادا) کر کردیں گے۔
سردار : (ہنس کر) مجھے اس کی چنتا نہیں ۔ یوپی سے تو میں یونہی لڑ رہا ہوں اور اگر ہار بھی جاؤں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اپنی بڑودہ کی سیٹ تو محفوظ ہے وہاں سے جیت کر وزیراعظم بننے میں کیا حرج ہے؟ ویسے اگر میں اترپردیش سے جیت بھی گیا تو میرا ارادہ اس نشست کوچھوڑ دینے کا ہے۔ اب اگر کوئی مسئلہ ہو تو بتائیں ؟
دیودار: ایک مسئلہ تمہاری زبان ہے جس پر کوئی لگام نہیں ہے ۔ ایک توتم بولتے کم ہو اور اگر کبھی بولتے بھی ہو تو کتے بلی کی مثال دے دیتے ہو۔ مجھے تو لگتا ہے تمہیں اپنے احمقانہ بیانات سے خطرہ درپیش ہے ۔
سردار: وہ ایسا ہے جب بھی ؁۲۰۰۲کےفسادات کا ذکر ہوتا ہے میرا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کوئی اور بات ہو تو بتائیں۔ کیا آپ کو پتہ ہے وارانسی کے مسلمانوں کا دل جیتنے کیلئے میں نے آج ہی کیا کہا؟
دیودار: جی نہیں ویسے بھی آج کا بیان تو اخبار میں کل چھپے گا تو اسے بھی دیکھ لوں گا ۔
سردار:(ہنس کر) ارے صاحب آپ بھی آخر پرانی نسل کے آدمی نکلے۔ آج کل اخبار کون پڑھتا ہےسارے لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں۔
دیودار: میں بھی ٹی وی دیکھا کرتا تھا لیکن فی الحال چھوڑرکھا ہے۔
سردار: وہ کیوں ؟ ٹی وی دیکھنے کا اصلی لطف تو انتخاب ہی کے زمانے میں ہے ۔
دیودار: ہوگا ! مگرمیں ٹی وی تفریح کیلئے نہیں بلکہ خبروں کیلئے دیکھتا تھا اور اب تو ہر چینل پر نمو نمو کی اشتہاری رٹ کے علاوہ کچھ بھی سنائی نہیں دیتا اس لئے کر بور ہوکر چھوڑ دیا ہے۔خیرٹی وی کو چھوڑ اور تم خود ہی اپنا بیان بتادو۔ مجھے یقین ہے کہ وہ دلچسپ ہوگا۔
سردار:(سینہ پھلاکر) جی ہاں جناب شکریہ ۔ میں نے کہا کہ میں مسلمانوں کے خلاف نہیں ہوں اور وہ جب مجھ سے ملیں گے تو انہیں مجھ سے پیار ہوجائیگا۔
دیودار: یہ تو تم نے بڑا منفی بیان دے دیا۔
سردار: آپ کیسی بات کرتے ہیں گرودیو؟ آپ کو تو میری ہر بات غلط نظر آتی ہے ۔
دیودار: دیکھو میں تمہارا خیرخواہ ہو اس لئے تم میری بات کا برا نہ مانو۔ تم نے اپنے بیان میں ایک تو یہ تسلیم کرلیا کہ وہ ابھی تک تم سے ملے نہیں ہیں۔ اگر تم اپنے حلقۂ انتخاب کے لوگوں سے رابطہ تک نہ کرسکے تو ان کا ووٹ کیسے پاؤگے؟
سردار: لیکن وہ محبت والی زبردست بات اس کے بارے میں آپ کا خیال ہے؟
دیودار: بھئی تم نے یہ نہیں کہا کہ تمہیں ان سے محبت ہے اور یہ کہہ دیا کہ ان کو محبت ہوجائیگی؟
سردار: اس سے کیا فرق پڑتا ہے
دیودار: بہت فرق پڑتاہے ۔ کسی کا پیار حاصل کرنے کیلئے پہلے اس سے محبت کرنی پڑتی ہے ۔ کسی کااعتماد حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اعتماد کیا نہ جائے۔
سردار: لیکن یہ کس نے کہہ دیا کہ میں مسلمانوں پر اعتمادنہیں کرتا۔
دیودار: تمہارے ٹوپی پہننے سے انکار اور اس پر اصرارنے ۔
سردار : میں تو ٹوپی پہننے کے بجائےٹوپی پہنانے کو اہمیت دیتا ہوں ۔
دیودار: وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم یہ کیوں کہہ دیا کہ تم لوگوں کو بے وقوف بنانے کیلئے ٹوپی نہیں پہنتے۔
سردار:(بیزاری کے ساتھ)پھر آپ مسلمانوں کارونا لے بیٹھے۔ ویسے بھی مسلمان مجھے ووٹ نہیں دے رہے ہیں اس لئے کیا فرق پڑتا ہے؟
دیودار: یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ تم نے اس بیان سے ہندووں کی دل آزاری کیوں کردی؟
سردار:آپ کیسی بات کہہ رہے ہیں گرودیو۔ ہندووں کا تو اس میں سرے سےکوئی ذکر ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے کٹر پنتھی ہندو تو خوش ہوئے ہوں گے کہ میں نے مسلمانوں کی خوشامد نہیں کی۔
دیودار: دیکھو سردار ان شدّت پسندوں کے پاس تو کوئی متبادل ہی نہیں ہے اس لئے وہ لا محالہ تمہی کو ووٹ دیں گے ۔ میں تو کہتا ہوں تم ان کی چنتا چھوڑ دو۔ رام سینے کے پرمود متلک کوہی دیکھو تم لوگوں نے اسے لات مار کر بھگا دیا اس کے باوجود زبان لٹکائے تمہارے تلوے چاٹتا رہا ۔ اگر اپنی عزت نفس کا ذرہ برابر بھی خیال ہوتا تو مڑ کر تمہاری جانب نہ دیکھتا۔ اس نے تو ہمارے کنڑی وقار کو ملیا میٹ کردیا۔
سردار: تو گویا آپ ہمارے اس رویہ کی توثیق کرتے ہیں ۔
دیودار: جی ہاں وہ اقدام تو ٹھیک ہی تھا لیکن تمہیں دیگر اعتدال پسند ہندووں کو اپنے قریب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یاد رکھو تم لوگ جب بھی مسلمانوں کی دل آزاری کرتے وہ معتدل ہندو دور چلا جاتا ہے۔
سردار : وہ تو ٹھیک ہے لیکن میرے ٹوپی والے بیان سے ان کی دل آزاری کیسے ہوگئی ؟
دیودار: تمہارے بیان کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے مسلمانوں کی طرح ٹوپی لگا لینے سے وہ بیوقوف نہیں بنیں گے لیکن اس کا یہ پہلو بھی تو ہے کہ جو آئے دن جو تم ہندووں اور سکھوں کے نت نئی پگڑیا ں باندھتے ہو اس سے وہ بیوقوف بن جائیں گے۔
سردار: آپ تو بہت دور کی کوڑی لائےگرودیو۔ اتنا کون سوچتا ہے؟اور ہمارےا کالی دل والے سردار تو بالکل بھی نہیں سوچتے ۔
دیودار: سوچنے سمجھنے میں سکھوں کو پہلے بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن ان میں کم از کم قومی خوددارہوا کرتی تھی لیکن تم لوگوں کی صحبت نےان کو بھی بے غیرت بنا دیا ہے ۔ اس نوجوت سنگھ سدھو کو ہی دیکھو ۔ بلاجوازامرتسر سے اس کا ٹکٹ کاٹ کر ارون جیٹلی کو دے دیا گیا اس کے باوجود وہ تمہارے حق میں چوکے چھکے لگائے جارہا ہے ۔
سردار: آپ کیسی باتیں کرتے ہیں ۔ کیا پارٹی کا وفادار کارکن ہونا بھی کوئی عیب ہے ؟
دیودار: کیوں نہیں ۔ اگر وہ خوبی ہوتی تو پارٹی اس کو انعام دیتی اس کا پتہ نہ کاٹتی ۔
سردار: بات بار بار ٹوپی سے شروع ہوتی ہے لیکن پھر کہیں اورنکل جاتی ہے ۔
دیودار: بھئی میں تو اپنی بات کہہ چکا ۔ ایک عام ہندو بہت کچھ سوچتا ہےاس لئے تمہیں احتیاط برتنی چاہئے
سردار: آپ کی بات درست ہے لیکن میں آپ کو اندر کی بات بتاتا ہوں ۔ وہ ہوا یہ کہ انڈیا ٹی وی پر آپ کی عدالت والے پروگرام میں سوالات و جوابات دونوں ہمارے نمک خوار وفادارشرما نے بنا کردئیے میں نے تو صرف اپنے انداز میں انہیں پیش کردیا تھا اس لئے اس حماقت کی ذمہ داری مجھ پر نہیں آتی۔
دیودار: یہی تو میں کہتا ہوں دوسروں پر آنکھیں موند کر بھروسہ کرنے کی حماقت سے باز آجاؤ۔
سردار :کیا بتاؤں اس قدر جلسوں سے خطاب کرنا پڑتا ہے کہ کچھ یاد ہی نہیں رہتا اس لئے دوسروں پر انحصار کرنا ہی پڑتا ہے
دیوار: میرا مشورہ تو یہ ہے کہ تم صبح شام پابندی کے ساتھ پابندی کے ساتھ چیون پراش کھایا کرو
سردار : یہ چیون پراش بیچ میں کہاں سے آگیا؟ میں کوئی بچہ ہوں اور مجھے کوئی امتحان پاس کرنا ہے جو چیون پراش کھاؤں
دیودار: دیکھو سردار ۔ بچہ اور بوڑھا ایک سمان ہوتا ہے اور پھر کسی سیاستدان کیلئے انتخاب سے بڑا امتحان کون سا ہو سکتا ہے ۔
سردار : کیا آپ واقعی سنجیدگی سے مشورہ دے رہے ہیں یا یوں ہی دل لگی کررہے ہیں
دیودار: یہ میرا نہایت سنجیدہ مشورہ ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اگر تم نے اس پر عمل کیا تو تم وہ احمقانہ بیان دینا بند کردو گے جن کے سبب ذرائع ابلاغ میں تمہاری فضیحت ہوتی رہتی ہے ۔
سردار:آپ کس ذرائع ابلاغ کی بات کررہے ہیں اسے تو دن رات نمو نمو کی گردان سے فرصت نہیں ہے ۔ کیا آپ میری کسی ایسی غلطی کی نشاندہی کرسکیں گے ؟
سردار نے یہ کہہ کر ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول اٹھایا اور اسے چلا دیا ۔ اتفاق سے اس وقت نریندر مودی کی مہاراشٹر کے وردھا میں کی جانے والی تقریر نشر ہو رہی تھی ۔ سردار نے کہا کہ آپ میری یہ تقریر سنیں اور بتائیں کہ کیا اس سے اچھا خطیب ہندوستان کی تاریخ میں پیدا ہوا ہے۔ دیودار نے حمام کی جانب جاتے ہوئے کہا ٹھیک ہے ۔تم فکر نہ کرو اس ٹی وی کے اسپیکر ہر طرف لگے ہوئے ہیں میں وہاں بھی تمہاری تقریر سن سکتا ہوں ۔
(جاری)

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1225232 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.