طالبان نے جنگ بندی ختم کر دی ۔پرویز مشرف نے اپنی معاونت
کرنے والوں کے ٹرائل کا مطالبہ کر دیا ۔نواز زرداری ملاقات میں جمہوریت کے
لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا عزم کیا گیا ۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس
میں حکومتی و فوجی قیادت نے طالبان سے مذاکرات جاری رکھنے لیکن حملوں کا
بھرپور جواب دینے پر اتفاق کر لیا ۔ پچھلے ایک ہفتے میں سامنے آنیوالی اِن
تبدیلیوں کی بھیڑ میں گُم ہم سوچ رہے ہیں کہ ’’کسے یاد رکھوں ، کِسے بھول
جاؤں‘‘۔ یہ تمام معاملات ایسے ہیں جن پر ہماری’’ارسطوانہ‘‘ اور ماہرانہ
رائے اشد ضروری ہے اور اگر ہم نے اپنے تجزیوں کی ’’پوٹلی‘‘ نہ کھولی تو
ملکی و قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں لیکن مسٔلہ یہ آن پڑا
ہے کہ یہ تمام معاملات کسی ایک کالم میں سما نہیں سکتے اور اگر ہم نے انہیں
زبردستی اپنے کالم میں ’’گھُسیڑنے ‘‘ کی کوشش کی تو ’’اخباری قینچی‘‘ چلنے
کا اندیشہ ہے اِس لیے ہمارا خیال ہے کہ ہر موضوع کو تھوڑا تھوڑا ’’ٹھونگا‘‘
مار لینے میں ہی عافیت ہے لیکن سب سے پہلے کچھ ذکرپنجاب کے ہر دِلعزیز
خادمِ اعلیٰ صاحب کاکہ جن کے پُر مغز بیانات سے ہم ہر روز مستفید ہوتے ہیں
۔ الحمرا ہال میں منعقدہ تقریب جب اپنے عروج پر پہنچی تو اچانک بجلی بے
وفائی کر گئی اورجب پورے ہال میں گھُپ اندھیرا چھا گیا ، تَب خادمِ اعلیٰ
میاں شہباز شریف کو اپنے سارے بھولے بسرے وعدے یاد آ گئے۔ اسی لیے اُنہوں
نے یہ کہنا مناسب سمجھا ’’لوڈ شیڈنگ کو فوری طور پر ختم کرنا حکومت کے بَس
میں نہیں لیکن اِس پر قابو پانے کے لیے دِن رات کام جاری ہے‘‘ ۔زرداری صاحب
نے تورسانت سے فرما دیا تھا کہ’’وعدے قُرآن و حدیث نہیں ہوتے ‘‘لیکن خادمِ
اعلیٰ نے یہ جواز تراشا کہ ’’ جب اقتدار سنبھالا تو خزانے کی حالت دیکھ
کرہمارے ہوش کے ساتھ ہاتھوں کے طوطے بھی اُڑ گئے‘‘ ۔ہم تو سمجھے تھے کہ صرف
لکھاریوں نے ہی ’’جاسوس پرندے‘‘ پال رکھے ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ ہمارے
خادمِ اعلیٰ کے ہاں بھی ایسے طوطے ہیں جو ’’پھُر پھُر‘‘ اُڑ کر اُنہیں کم
از کم یہ خبر تو دے ہی جاتے ہیں کہ قوم کِن عذابوں کا شکار ہے ۔ ویسے آپس
کی بات ہے کہ بجلی کے بِل دیکھ کر تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے بھی ’’پھُر
پھُر‘‘ اُڑنے لگے ہیں اور ہم لوڈ شیڈنگ کو نعمتِ خُدا وندی سمجھنے پر مجبور
ہو گئے ہیں۔
آجکل موبائل فون کمپنیاں اپنے صارفین کو زیادہ سے زیادہ بیلنس استعمال کرنے
کے لیے طرح طرح کے انعامات کا لالچ دیتی رہتی ہیں ۔شاید چھوٹے میاں صاحب نے
بھی انہی انعامی سکیموں سے متاثر ہو کر ایک ’’مزیدار‘‘ انعامی سکیم کا
اعلان کر دیا ۔اُنہوں نے اِنرولمنٹ مہم 2014ء کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا
کہ جس حلقے کا ایم پی اے اپنے حلقے میں سو فیصد داخلے کروائے گا ، اُسے
وزیرِ تعلیم بنایا جائے گا ۔ہم چونکہ ایم پی اے نہیں اِس لیے ہمارا وزیرِ
تعلیم بننے کا کوئی چانس بھی نہیں اورجب چانس ہی نہیں تو پھر یہ کہنے میں
کیا ہرج ہے کہ’’ خادمِ اعلیٰ صاحب! آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے
‘‘ ۔البتہ ہم یہ ضرورسوچ رہے ہیں کہ وزیرِ تعلیم تو ایک ہی ہوتا ہے اور اگر
سارے ایم پی ایز نے اپنے اپنے حلقوں میں سو فیصد داخلے کروا دیئے تو کیا
پنجاب میں ساڑھے تین سو سے زائد وزرائے تعلیم ہونگے؟۔ایک اور بات جو ہمارے
ذہنی خلجان کا باعث بن رہی ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر تحریکِ انصاف کا کوئی ایم
پی اے محض شرارتاََاپنے حلقے میں سو فیصد داخلے کروا کے میاں صاحب سے
وزارتِ تعلیم کے قلمدان کا مطالبہ کر بیٹھا تو پھر یقیناََ خادمِ اعلیٰ
صاحب کا حشر بھی شیخ رشید احمد جیسا ہونے کا قوی امکان ہے ، جنہوں نے ڈالرز
کے ریٹس اٹھانوے روپے تک آنے کی صورت میں اپنے نشست سے مستعفی ہونے کی
’’بڑھک‘‘ ماری اور اسحاق ڈار صاحب نے موقع غنیمت جانتے ہوئے ڈالر کے ریٹس
98 کیا 96 روپے تک جا پہنچا دیئے لیکن شیخ صاحب ہیں کہ ابھی تک اپنی سیٹ سے
چمٹے ہوئے ہیں ۔اُدھر ہمارا ’’شرارتی‘‘ الیکٹرانک میڈیا دِن میں کئی کئی
بار یہ ’’بڑھک‘‘ نشر کرکے شیخ صاحب کا ’’حشر نشر‘‘ کرتا رہتا ہے۔
ویسے اگر شیخ رشید صاحب لال حویلی میں ’’پیشین گوئیوں‘‘ کی دوکان کھول لیں
تو اُن کی ’’دوکانداری‘‘ چمکنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیں کیونکہ وہ بھولے
بھالے عوام کو بیوقوف بنانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔اُن کی کوئی بھی
پیشین گوئی کبھی درست ثابت نہیں ہوئی ، اِس کے باوجود بھی نیوس چینلز
اُنہیں بڑے شوق سے بلاتے اور عوام بڑے شوق سے سُنتے ہیں۔ اُنہوں نے بار بار
فرمایا کہ حکمرانوں میں پرویز مشرف کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی جرأت ہی نہیں
لیکن حکمرانوں نے اُنہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا ۔پھر کہا کہ فوج پرویز مشرف
پر قائم مقدمے کو شدت سے نا پسند کرتی ہے لیکن فوج نے اُنہیں اپنے ہاتھوں
سے پہلے خصوصی عدالت میں بھیجا اور پھر اے ایف آئی سی سے ڈسچارج بھی کر دیا
۔پھر خواجگان کے ’’متنازع ‘‘ بیانات پر شیخ صاحب کی آنکھوں میں چمک آ گئی
اور اُنہوں نے یہ فرمانا شروع کر دیا ’’میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ
اپریل کا مہینہ حکمرانوں پہ بھاری ہے اور 2014ء میں میاں نواز شریف صاحب کو
یا تو ملک سے باہر بھیج دیا جائے گا یا پھر وہ امیر المومنین بن جائیں گے
‘‘۔لیکن یہ مہینہ وزیرِ اعظم صاحب پر اِس طرح سے’’ بھاری‘‘ پڑا کہ آرمی چیف
جنرل راحیل شریف نے اُنہیں کاکول پاسنگ آؤٹ پریڈ میں بطور مہمانِ خصوصی
شرکت کی دعوت دے ڈالی اور میاں صاحب نے وہ دعوت قبول بھی کر لی ۔شیخ صاحب
تو خیر ہیں ہی لیکن ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی کسی سے کم نہیں جو اُس
’’پھَپھے کُٹنی‘‘ کا کردار ادا کر رہا ہے جو پورے محلے میں لگائی بجھائی کر
کے لطف اندوز ہوتی رہتی ہو ۔آجکل الیکٹرانک میڈیا سیاستدانوں کے کئی کئی
سال پرانے بیانات نشر کرکے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے جلتی پہ تیل ڈال
رہا ہے ۔حکومت یہ کہہ کہہ کے تھک چکی کہ تمام قومی امور پر سیاسی و عسکری
قیادت ایک صفحے پر ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا پر صرف جنگ و جدل سے بھرپور
’’شاہکار‘‘ ہی نظر آتے ہیں ۔ نواز زرداری ملاقات کے دوران بھی اِس تناؤ کی
بازگشت اُس وقت سنائی دی جب جنابِ آصف زرداری نے اِس کا ذکر کیا۔تب میاں
صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ تناؤ الیکٹرانک میڈیا پر ہے یا پھر کچھ
لوگوں کے ذہنوں میں ۔ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی مسکراہٹوں کا
تبادلہ ہوتا رہا اور قوم و عسکری قیادت ، تمام ملکی معاملات ، خصوصاََ
طالبان سے مذاکرات یا جنگ پر یکسؤ نظر آئی۔ اب وہ تمام افواہیں ایک ایک
کرکے دَم توڑرہی ہیں جو چائے کی پیالی پر طوفان اٹھانے والوں نے پھیلا رکھی
تھیں ۔آخر میں یہ کہ آخر طالبان اِس خوش فہمی میں کیسے مبتلاء ہو گئے کہ وہ
حکومت کا مقابلہ کر سکتے ہیں ؟۔ہنسی آتی ہے طالبان ترجمان کے اِس بیان پر
کہ ’’ساتھیوں کی مخالفت کے باوجودجنگ بندی کا تحفہ دیا لیکن حکومت نے مناسب
جواب نہیں دیا‘‘۔شاید طالبان کو ادراک ہی نہیں کہ اچھّی بھلی عوامی اور
سیاسی مخالفت کے باوجود حکمرانوں نے طالبان کو مذاکرات کا تحفہ دیا لیکن
طالبان نے اسے حکومت کی کمزوری سمجھ لیا ۔وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر
طالبان اپنے ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے تو پھراُن کا قصّۂ پارینہ بن جانا اظہر
من الشمس ہے۔ |