میں 19اپریل ہفتے کے روز اسلام آباد میں جیو ٹیلی وژن کی
عمارت اور پارلیمنٹ کے درمیان بند سڑک پر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ کرکٹ
کھیلنے میں مصروف تھا کہ تقریباً شام ساڑھے پانچ بجے میرے موبائیل فون کی
گھنٹی بجی، ایک قریبی دوست کا فون تھا اس لئے فیلڈنگ کرتے ہوئے بھی فون
اٹینڈ کرلیا۔ فون کال کیا تھی ،یہ تو میرے اوپرآسمانی بجلی گرنے سے کم نہ
تھی۔ بیگ صاحب آپ کہاں ہیں؟ میں کرکٹ کھیل رہا ہوں دفتر کے باہر، میں نے
کہا۔ آپ کے جیو ٹی وی چینل پر ٹِکر چل رہا ہے کہ حامد میر صاحب قاتلانہ
حملے میں زخمی ہوگئے ہیں۔ میں نے ایک دم چیخ ماری "او ہوووو !یار حامد میر
صاحب قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے ہیں"ہم سب اپنے آفس کی طرف بھاگے، ہر طرف
افرا تفری تھی، کسی کی آنکھوں میں آنسو تھے تو کوئی پریشانی میں سر پکڑ کر
بیٹھا تھا، دکھ اور درد کی اس دردناک کیفیت میں سکوت چھایا تھا، بس ہر ایک
کو اسی بات کا شدت سے انتظار تھا کہ خیریت کی کوئی اطلاع ملے۔ حامد میر
صاحب اور ہم ان کے ٹیم ممبران اسلام آباد آفس میں بیٹھتے ہیں، حملہ کراچی
میں ہوا تھا، اس لئے صورتحال پوری طرح واضح نہیں تھی ۔بس صرف دل سے ڈھیروں
دعائیں نکل رہی تھیں۔ حامد میر صاحب کے بارے میں ہمیں کراچی آفس سے ہی
اطلاعات موصول ہورہی تھیں۔ ہر طرف سے ٹیلی فون کالز آرہی تھیں، پوری قوم
افسردہ ہوگئی کہ مظلوموں کی آواز کو خاموش کرنے کی یہ بدترین کوشش کس نے
اور کیوں کی !
میں جیو ٹی وی میں ان کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ سال سے ہوں، اس سے پہلے بھی ایک
اخبار میں چار سال ان کے ساتھ رہا، جیو ٹی وی میں انکی کیپیٹل ٹاک ٹیم کا
حصہ ہونے کی وجہ سے ان سے کافی قریب ہوں۔ میں نے اتنا نڈر ، بے باک، جرات
مند ،کھرا، سچا ، دیانتدار اور اپنے پیشے کے ساتھ مخلص شائد ہی کسی کو
دیکھا ہو۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ حامد میر صاحب کو کافی عرصے سے
دھمکیاں مل رہی تھیں اور انہیں اپنے قریبی حلقوں کی طرف سے یہ بھی کہا
جارہا تھا کہ وہ دبئی سے اپنا ٹاک شو کریں۔ ہم بھی انہیں بار بار اپنی نقل
و حرکت تھوڑا محدود کرنے کا مشورہ دیتے رہے۔ لیکن وہ کوئی اور نہیں بلکہ
حامد میر ہیں، وہ ہمیشہ مسکراکر کہتے رہے اللہ خیر کرے گا!۔ اس ملک کی
صورتحال ایسی ہے کہ سچ بولنا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے، کسی رپورٹرکو خبر
دینے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا ہے کہ اس خبر سے کھلنے والے راز کا نتیجہ
کیا ہوگا، کسی اینکرپرسن کو بات کرنے یا کسی مسئلے پر روشنی ڈالنے سے قبل
متعدد بار سوچنا پڑتا ہے کہ زبان کھولنے کے نتیجے میں اسکی زندگی کو کن
خطرات کا سامنا ہے۔ اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے پارلیمنٹ کے
سامنے ڈی چوک پر دھرنا دیا تو یہ حامد میر ہی تھے جنہوں نے لائیو ٹاک شو
کیا اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر اس گھمبیر
مسئلے کو اجاگر کیا۔ دیگر اینکر پرسنز ڈر کے مارے چپ رہے۔اس کے بعد
بلوچستان کے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ
مارچ کیا تو یہ لانگ مارچ کئی ہفتوں تک جاری تھا ، تمام پاکستانی میڈیا
چینلز نے چپ سادھ لی، کیونکہ ہمارے ملک کے کچھ ادارے انکی کوریج نہیں چاہتے
تھے۔ لیکن دلیر حامد میر نے نہ صرف اپنی ٹیم کو کوریج کیلئے بھیجا بلکہ اس
لٹے پھٹے قافلے کے بارے میں جس میں خواتین اور معصوم بچے بھی تھے، اپنے
کالموں اور ٹاک شو میں بار بار ذکر کرتے رہے۔ یہ قافلہ جب اسلام آباد پہنچا
تو انہوں نے ماما قدیر بلوچ ، ایک لاپتہ ڈاکٹر مجید بلوچ کی بیٹی فرزانہ
بلوچ ایک لاپتہ بھائی کی بہن اور دو کم سن بچوں کو اپنے پروگرام کیپیٹل ٹاک
میں بلایا ، انکی آواز نہ صرف عام شہریوں بلکہ ارباب اختیار تک پہنچائی اور
اپنے اختتامی کلمات میں بلوچوں کو لاپتہ کرنے والوں سے واضح الفاظ میں کہا
کہ جن لوگوں کو آپ دہشت گرد کہتے ہو وہ یہ معصوم بچے ، خواتین اور یہ بزرگ
ماما قدیر بلوچ ہیں!
حامد میر کا ایک ہی قصور ہے وہ یہ کہ وہ غلط کو غلط کہتے ہیں اور اس کے
خلاف آواز بلند کرنے سے نہیں گھبراتے ۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ سچ کی
خاطر جان بھی چلی جائے تو کوئی با ت نہیں۔ وہ موت سے بھی نہیں ڈرتے، کہتے
ہیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جن خطرات کا حامد میر کو
سامنارہا اگر کسی اور کواس قدر شدید خطرہ لاحق ہو وہ کب کا ملک چھوڑ کر راہ
فرار اختیار کر چکا ہوتا لیکن حامد میر نہ ملک سے بھاگے، نہ خاموش رہے اور
نہ ہی جھوٹ کو بے نقاب کرنے کی اپنی دلیرانہ پالیسی سے منہ موڑا۔وہ اپنی
ضمیر کی آواز دنیا تک پہنچاتے رہے۔
حامد میر نے آج پہلی مرتبہ موت کو قریب سے نہیں دیکھا، اس سے پہلے بھی
انہیں کار بم حملے میں قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہیں مختلف موقعوں پر
دھمکیاں بھی ملتی رہیں، آج کل بھی وہ دھمکیوں کی زد میں تھے۔ انہوں
نے2003میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر عراق پر امریکی حملے کی کوریج کی،
2003میں ہی پاکستانی قبائلی علاقوں پر فوجی کارروائیوں پر خصوصی پروگرام
کیا،اسرائیل کی جانب سے اردن پر حملے کی براہ راست کوریج کی اور کئی دیگر
محازوں پر صحافتی فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ گولیوں کی گن گرج میں لائیو
بیپر دیتے رہے اور گولیوں کی آوازسے زیادہ حامد میر کی آواز میں گونج سنائی
دیتی ہے۔ حامد میر لاپتہ افراد کی آواز ہیں، صحافیوں کے علمبردار ہیں،
جمہوریت کے علمبردار ہیں، بے زبانوں کی آواز ہیں، بے آسروں کا آسرا ہیں۔
حامدمیر کو دھکی انسانیت کی طرف سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ای میلز،
ٹویٹس اور خطوط ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر وہ کافی رنجیدہ ہوتے ہیں، کئی لوگوں
کی مختلف طریقوں سے مدد بھی کرتے ہیں،لیکن اس کا چرچا نہیں کرتے۔ اس ملک کو
جس کو کئی چیلنجز کا سامناہے حامد میر کی بہت ضرورت ہے، یہاں کے دکھی عوام،
لاپتہ افراد، مظلوم لوگوں کیلئے انکی زندگی بہت اہمیت کی حامل ہے۔حامد
میرجیت گئے، انکے دشمن شکست کھا چکے ہیں، حامدمیر پر حملہ اس بات کا واضح
ثبوت ہے کہ کہ دشمن کے پاس حامدمیر کے سچ کو دبانے کی کوئی دلیل نہیں، وہ
دلائل سے حامد میر کا سامنا کرنے میں ناکام رہے اس لئے انہوں نے یہ بزدلانہ
اقدام کیا۔ حامد میر تجھے سلام، اللہ آپ کو جلد صحت یاب کرے اور آپ کی آواز
پہلے سے زیادہ موثر انداز میں گرجتی رہے،آمین! |