حکومت طالبان مذاکرات اپنے فائنل راؤنڈ میں داخل ہوچکے
ہیں۔طالبان کی جانب سے پیش کردہ شرائط کی عدم منظوری پر طالبان جنگ بندی
میں توسیع سے انکار کرچکے ہیںجسکے بعد وزیراعظم کی صدارت میں ہونے والے
اعلیٰ سطحی اجلاس میں سیاسی و عسکری قیادت نے مذاکرات جاری رکھنے کے فیصلے
کے ساتھ دہشتگردانہ حملوں کا بھرپور جواب دینے کا اعلان بھی کردیا ہے جبکہ
طالبان نے مذاکرات جاری رکھنے کے حکومتی اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے
سرکاری تنصیبات پر حملوں کی دھمکی بھی دی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ
مذاکرات کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اور حکومت کے پاس طالبان کی شرائط مان
لینے یا مذاکرات ڈرامے کا ڈراپ سین کرنے کے سوا کوئی تیسرا آپشن نہیں ہے
کیونکہ طالبان اپنے نظریات و مطالبات سے مکمل طور پر مخلص اور ان پر پوری
طرح کاربند ہیں جبکہ مذاکرات کے نام پر طالبان کی برین واشنگ میں کامیابی
کے حصول کی خوش گمانی کا بھوت قوم کے دانشور رہنماؤں کے سر سے اتر چکا ہے ۔
دوسری جانب فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان مشرف کے معاملے پر موجود تناؤبھی
اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ تبصرہ نگاروںکو سول و عسکری قیادت کی ملاقاتوں
اور مسکراہٹوں میں مخلصی کی بجائے محض رواداری کی دکھائی دے رہی ہے اور
انہیں سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے ہیں ۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے مشرف کیخلاف غداری کیس کے ذریعے ایک
ایسا پنڈورا بکس کھول دیا ہے جسے بند کرنا اب حکمرانوں کے بس میں نہیں رہا
ہے کیونکہ میڈیا کی اس کیس میں دلچسپی اور چینلز کی اپنے اپنے انداز و
پالیسی کے تحت اس کیس پر تجزیوں و تبصروں نے اس کیس کا رخ تبدیل کردیا ہے
اوراب عوامی حلقے اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ صرف مشرف پر کیس چلانے کی
بجائے تمام جمہوریت دشمنوں اور ان کے تمام معاونین کو کٹہرے میں لایا جائے
اور غداری کیس کا دائرہ 3نومبر کی بجائے 12اکتوبر تک وسیع کرکے تمام
جمہوریت دشمنوں کے ساتھ یکساں سلوک اور ان کیخلاف یکساں آئینی و قانونی
کاروائی کرتے ہوئے نہ صرف مشرف کے تمام ساتھیوں کو بھی احتساب کے دائرے میں
لایاجائے بلکہ ان تمام شخضیات کو بھی مشرف کی صف میں کھڑا کیا جائے جنہوں
نے 12اکتوبر کے مشرف کے غیر آئینی اقدام کی توثیق کرکے بذات خود اس غیر
آئینی اقدام کو تحفظ دینے میں مکمل معاونت و شمولیت کا ثبوت دیا اور گاہے
بگاہے مشرف کے تمام غیر آئینی اقدامات کا اس وقت تک تحفظ کرتے رہے جب تک
بات ان کی اپنی ذات ' اختیار اور مراعات تک نہ جاپہنچی ۔
عوامی مطالبے کے تحت غداری کیس کا دائرہ 12 اکتوبر تک وسیع کیا گیاتو اس
وقت کے تمام کور کمانڈرز ' سابق آرمی چیف اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی
جنرل اشفاق پرویز کیانی ' سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت سپریم کورٹ کے
کئی دیگر ججز ' کئی نامور و سینئر سیاستدان اور مشرف کو پاکستانی عوام کا
نجات دہندہ قرار دینے والے کئی اخبارات کے مالکان ' صحافی حضرات ' تجزیہ و
تبصرہ نگار اور بعد میں مشرف سے نجی چینل کے لائسنس لیکر ان چینلز کو ایک
مخصوص مدت تک مشرف کی توصیف کیلئے استعمال کرنے والے میڈیا گروپ مالکان اور
اینکر پرسن بھی اس کیس کی زد میںآکر غدار قرار پائیں گے جبکہ کیس کو اگر
3نومبر کے اقدام تک ہی محدود رکھا گیا لیکن انصاف و مساوات کے اصولوں اور
آئین کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تو بھی دیگر کئی معروف و معتبر شخصیات مشرف کے
ہمراہ غدار قرار پائیں گی اور آرمی یہ نہیں چاہتی کہ پاکستان میں سابق آرمی
چیف سمیت ' فوج کی کئی جرنیلوں ' سیاستدانوں ' ججوں اور صحافیوں کو غدار
قرار دیکر دنیا بھر میں پاکستان کے وقار کو ان حالات میں مجروح کیا جائے جب
پاکستان اپنی بقا وسلامتی کی جنگ لڑرہا ہے ۔
لیکن حکمرانوں اور جمہوریت کے متوالوں کو پاکستان کے مستقبل کیلئے ناقابل
تلافی نقصان کا باعث بننے والا یہ پہلو دکھائی نہیں دے رہا ہے اور مشرف و
فوج کی برائی وفوج پر الزام تراشیوں کی روایت کو سیاست و صحافت چمکانے
کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان
ایک ایسی ناقابل عبور خلیج حائل ہوتی جارہی ہے جس کا بروقت سدباب نہیں کیا
گیا تو تبصرہ نگاروںکے خدشات کے بموجب فوج جلد ہی 12 اکتوبر جیسے مزید کسی
اقدام پر مجبور ہوجائے گی یا پھر فوج کا منظم ادارہ بھی سیاست کی چیرہ
دستیوں کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا اور دونوں ہی صورتوں میں ملک و
قوم کی آزادی ' سلامتی ' ترقی اور خوشحالی کو ضرب پہنچنے کا خطرہ ہے ۔
دوسری جانب سیاست و صحافت کے کھلاڑی ملکی و قومی بقا کی بجائے اپنے اختیار
و مفاد کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں ایک جانب تحفظ پاکستان بل کے نام پر
پولیس کو بے تحاشہ اختیارات دیکر اس کے ذریعے صوبوں پر بھی درپردہ اپنی
حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے گوکہ قومی اسمبلی سے پاس ہونے والا
یہ بل سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی مخالفت کی وجہ سے فی الوقت پاس نہیں ہوسکا
ہے مگر دو جمہوری سیاسی جماعتوں کے باہمی لین دین کے تحت تحفظ پاکستان بل
کبھی بھی قانون بن کر پاکستانی عوام کے تمام انسانی حقوق کی پامالی اور
حکمرانوں کی مطلق العنانی کا باعث بن سکتا ہے جبکہ اٹھارھویں ترمیم کے
خاتمے کے حوالے سے بھی حکومتی ایماء منظر پر آچکی ہے جس کا مطلب ہے کہ
صوبوں کو ایکبار پھر مکمل طور سے مرکز کا باجگزار بناکر قومی حکومتی پارٹی
کو ملک کے تمام صوبوں کے معاملات میں براہ راست مداخلت کا اختیار اور
صوبائی حکومتوں کو مرکزی حکومت کا ماتحت بنانے کی کوشش ہوسکتی ہے جس کا
مطلب یہ ہوگا کہ آئندہ انتخابات میں وہی جماعت تمام صوبوں سے بھی انتخاب
جیتے گی جس کے پاس آج مرکز کی حکمرانی ہوگی جو ملک کو یک جماعتی ''سول
مارشل لائ'' کی جانب لے جانے کا باعث بنے گا جو فوجی آمریت سے زیادہ خطرناک
ہوتی ہے جبکہ اس حوالے سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکمران جماعت نے آصف
زرداری کو ایوان وزیراعظم میں ضیافت دیکر ترپ کا وہ پتہ کھیل دیا ہے جس کے
تحت وہ آئین میں ترمیم کے ذریعے کورکمانڈرز کی تقرری کا اختیار آرمی چیف سے
وزیراعظم کو منتقل کرکے فوجی مارشل لاء کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند کرکے اپنی
مطلق العنانی کیلئے راہ ہموار کرسکتی ہے ۔
سیاسی و عسکری تجزیہ نگار وں کی رائے میں مشرف ایشو کے ساتھ کورکمانڈرز
تقرری کے اختیار کے حوالے سے اختلاف بھی فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان سرد
مہری کی وجہ ہے چونکہ پاکستان و نظام کو لاحق خطرات پر نگاہ رکھنا '
سیاستدانوں کی اختیارات کی ہوس سے ملکی مفاد کو محفوظ بنانا اور خفیہ
اطلاعات تک رسائی حاصل کرکے قومی مفاد میں پیش بندی کرنا فوج کے ذیلی ادارے
آئی ایس آئی کا کام ہے اسلئے معلومات کی منتقلی اور خفیہ معلومات کے حوالے
سے الزام ہمیشہ آئی ایس آئی پر ہی آتا ہے اور سیاستدان ہمیشہ آئی ایس آئی
سے خوفزدہ رہنے کے ساتھ اس کی سربراہی کی کرسی پر اپنے وفادار فرد کو
دیکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔ اسی لئے جس طرح پیپلز پارٹی کے دور حکومت
میںحسین حقانی کو چارہ بناکر آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ کوکامیابی سے
شکار کرکے آئی ایس آئی چیف کی تبدیلی کو یقینی بنایا گیا تھا اسی طرح شاید
اس بار موجودہ آئی ایس آئی چیف بھی مقتدر حلقوں کے اعتماد سے محرو م ہوچکے
ہیں یا پھر بیرونی وسامراجی قوتیں آئی ایس آئی چیف کی تبدیلی چاہتی ہیںجس
کیلئے حامد میر کو قربانی کا بکرہ بنایا اور ایک مخصوص میڈیا گروپ کو بندوق
رکھنے کیلئے کندھا بناکراستعمال کیا گیا۔
حامد میر پر حملہ کس نے کیا ؟
اس حملے کا ذمہ دار کون ہے ؟
اور اس حملے کی پیچھے وہ کون سی گیم ہے جو اس حملے کی وجہ بنی ؟
ان سوالات سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ حامد میر پر لمحہ انتہائی
افسوسناک اور بزدلانہ اقدام ہے جس کی مذمت پوری قوم کررہی ہے کیونکہ حامد
میر جمہوریت پسند مگر بیباک صحافی ہیں اسلئے قوم کے دل میں ان کا مقام بہت
معتبر ہے یہی وجہ ہے کہ ان پر حملے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔
پاکستان کے عوام اس حملے کیخلاف سراپا احتجاج بن گئے ۔ سیاسی و عسکری قیادت
سے لیکر سماجی و صحافتی تنظیموں ' مزدوروں ' طلبہ ' خواتین اور سول سوسائٹی
سمیت تمام طبقات نے حامد میر پر حملے کی مذمت کی ' اسے آزادی صحافت پر حملہ
اور سچ کی آواز دبانے کی سازش قرار دیا اور ان کی جلد صحتیابی کیلئے دعائیں
مانگی گئیں مگر مخصوص میڈیا گروپ کی جانب سے حامد میر پر حملے کیلئے آئی
ایس آئی کو ذمہ دار ٹہرانے اور قومی سلامتی کے ضامن ادارے کے چیف کی کردار
کشی مہم پر سخت ناگواری وناپسندیدگی اظہار کیا گیا اور عالمی سطح پر
پاکستان ' فوج اور آئی ایس آئی وقار کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کا
ذمہ دار اس میڈیا گروپ کو ٹہراکر اس میڈیا گروپ کے مالکان کیخلاف مشرف جیسی
کاروائی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے ۔
فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے نہ صرف حامد میر پر حملے میں آئی ایس آئی
کے ملوث ہونے کے الزام کی سختی سے تردیداور بلا ثبوت الزامات پر اظہار
افسوس کیاگیا ہے بلکہ پاک فوج کے ترجمان نے آئی ایس آئی چیف پر الزامات
لگانے والے میڈیا گروپ کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا بھی اعلان کردیا ہے جبکہ
حکومت اس حملے کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کرچکی ہے ۔
دوسری جانب کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کی اسلام آباد سے کراچی
منتقلی والے دن حامد میر پر حملے اور اس کا الزام آئی ایس آئی پر لگانے کا
مقصد میڈیا نمائندگان میں فوج کیخلاف نفرت پیدا کرنا تھا تاکہ سابق فوجی
ڈکٹیٹر کو میڈیا میں جگہ نہ مل پائے اور وہ کسی قسم کی میڈیا مہم نہ چلا
پائیں کیونکہ سابق فوجی سربراہ کی حیثیت سے پرویز مشرف بھارت اور اس کی
انٹیلی جنس ایجنسی ''را '' کیلئے قابل نفرت ہیں اور بھارت ہر حال میں مشرف
کو غدار ثابت ہوا دیکھنا چاہتاہے تاکہ مشرف سے کارگل ہزیمت کا بدلہ بھی لیا
جاسکے اور افواج پاکستان کو بدنام کرکے اس کا مورال بھی تباہ کیا جاسکے
کیونکہ بھارت کو خطرہ ہے کہ عوام میں بڑھتی ہوئی مشرف کی مقبولیت اور صرف
مشرف کے احتساب کیخلاف عوام کا بڑھتا ہوا اشتعال حکمرانوں کو مشرف کا نام
ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے پر مجبور کررہا ہے جو یقینا بھارت کے ارمانوں
پر اوس کے مترادف ہوگا ۔
کچھ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیںکہ متحدہ کے قائد کی وطن واپسی کا اعلان اور اس
کیلئے کی جانے والی کوششیں سیاست میں ڈرامائی تبدیلی کے آثار پیدا کرنے لگی
ہیں اور چونکہ ہمیشہ ہر تبدیلی کا الزام آئی ایس آئی پر لگانا روایت ہے اس
لئے متوقع تبدیلی کے مخالفین نے اسے روکنے کیلئے حامد میر پر حملہ کیا اور
سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک میڈیا گروپ کو استعمال کرکے آئی ایس آئی چیف
پر الزام تراشی کرائی گئی تاکہ آئی ایس آئی چیف کی کردار کشی کرکے انہیں ان
کے عہدے سے معزول کرایا اور متوقع تبدیلی کو روکا جاسکے ۔اگر ایسا ہے توجس
طرح سانحہ 12مئی کا الزام متحدہ پر تھونپا گیا تھا اسی طرح جلدیا بدیر حامد
میر پر حملے میں بھی متحد ہ کا ہاتھ تلاش کرلیا جائے گا تاکہ ایکبار پھر اس
کیخلاف میڈیا مہم کے ذریعے اس کے قومی سفر کو کراچی تک محدود کیا جاسکے
کیونکہ مشرف ڈیل کی ذریعے بیرون ملک فرار نہیں ہوئے ' اور جمہوریت پسند
انہیں عدالت سے غدار ثابت کرانے میں بھی ناکام رہے تو مشرف کی عوامی
مقبولیت کا گراف دیگر تمام سیاستدانوں سے زیادہ بند ہوجائے گا جس کے بعد
مشرف ' متحدہ قومی موومنٹ ' طاہرالقادری ' سندھ کے قوم پرست اورمسلم لیگ ق
مل کر بنیاد پرستوں اور موجودہ حکمران جماعتوں کیخلاف ایک مضبوط اتحاد
بنائیں گے جس میں شیخ رشید کی قیادت میں تحریک انصاف سے ٹوٹنے اور ہوا کا
رخ دیکھ کر رخ بدلنے والے مسلم لیگ (ن) کے کئی عہدیداروں اور مقبول شخصیات
کی شمولیت اس اتحاد کو اقتدار کے ایوانوں میں داخل کرانے کا باعث بن جائے
گی ۔
بہت سے حلقے اور قوتیں ہوا کے اس رخ سے واقف ہیں اسی لئے حامد میر بے جرم و
خطا نشانہ بنادیئے گئے اور ایک میڈیا گروپ وقتی مفادات کی چاہ میں دائمی
نقصان سے دوچار ہوگیا جبکہ ہوا کا رخ بدلنے کی کوشش جمہوریت کے مستقبل
کیلئے بھی بد ترین خطرات پیدا کرگئی ہے اور قرائن بتارہے ہیں کہ جمہوریت
پسندوں اور وطن پرستوں کے درمیان جنگ کا آخری معرکہ کراچی میں لڑا جائے گا
جس کا آغاز شاید ہوچکا ہے ! |