ہفتہ 19اپریل کی سہ پہرنجی ٹی وی
چینل جیو کے ممتاز صحافی واینکر پرسن حامد میر پر ائیر پورٹ سے ٹی وی چینل
کے دفتر جاتے ہوئے شاہرائے فیصل پر ناتھا خان پُل کے قریب قاتلانہ حملہ کیا
گیا جس کے نتیجہ میں تین گولیاں حامدمیر کو لگیں۔ حملہ آور اپنی دانست میں
کامیاب کاروائی کر کے روایتی انداز میں فرار ہو گئے ۔ حامد میر کو آغا خان
ہسپتال پہنچایا گیا جہاں فوری طور پر آپریشن کر کے گولیوں کو ان کے جسم سے
نکالا گیا۔ تادم تحریر حامد میر اس وقت انتہائی نگہداشت کے شعبے میں زیر
علاج ہیں۔ اور ا نہیں سخت حفاظتی حصار میں رکھا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ اس سے
قبل بھی اسلام آباد میں انکی گاڑی کے نیچے سے بم برآمد ہواتھا۔اس با ر انکے
دشمنوں نے انہیں جان سے مارنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کر لی ۔لیکن شاید
مارنے والے یہ نہیں جانتے کہ ایک ذات ایسی بھی ہے جو بچانے والی ہے۔
بحر حال شہر قائد میں اب بھی آپریشن جاری ہے۔ رینجرز اور پولیس کے آپریشن
میں اب بڑی کاروائیاں ہوئی ہیں۔متعدد جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جا
چکا ہے۔اس آپریشن کے دوران یہ واقعہ پہلا نہیں ۔اس سے قبل بھی اس نوعیت کے
کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔اسی شاہراہ فیصل پر درجنوں دہشت گردی کے
واقعات ہوئے جن میں معصوم انسانوں کے ساتھ بڑی بڑی شخصیات جابحق ہو چکی
ہیں۔ماضی میں شہید بے نظیر بھٹو کے قافلے پر اس وقت حملہ ہو ا جب وہ طویل
جلاوطنی کے بعد وطن واپس پہنچی تھیں ۔ اس حملے میں بھی درجنوں انسان جاں
بحق ہوئے تھے اس کے بعد کچھ عرصہ قبل نرسری کے مقام پر تین علمائے دین کو
ٹارگیٹ کیا گیا تھا ۔ عاشورہ کے ایام میں بھی جلوسوں پر حملے ہوتے رہے ہیں
۔ شاہرائے فیصل پر ہونے والے حادثوں کی تفصیل میں اگر جایا جائے تو یقینا
اس کے لیے وقت اور صفحات کم پڑ جائیں گے۔ کوئی بھی حادثہ رونما ہونے کے بعد
کچھ دنوں تک سخت سیکورٹی رکھی جاتی ہے تاہم پھر سب کچھ معمول کے مطابق ہونا
شروع ہوجاتا ہے۔ اس وقت حامد میر حملہ زیر بحث ہے ۔ حامد میر ایک ممتاز
سینئر صحافی اور جیو ٹی وی کے سینئر ترین اینکر پرسن ہیں ۔ جیو ٹی وی کو اس
مقام تک پہنچانے میں ان کا کردار نمایاں ہے ۔ ان کا برسوں سے جاری ٹاک شو
کیپٹل ٹاک کو بے پناہ شہرت حاصل ہے ۔ ہر خاص و عام ان کے اس پروگرام کو شوق
سے دیکھتے ہیں ۔ حامد میر ایک بے باق نڈر صحافی ہیں۔ انہوں نے ملکی مسائل
کو اجاگر کرنے اور انہیں حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی بارہا کوشش
کی ہے۔ برسوں سے امریکی قیدمیں مظالم کاشکار ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے
انہوں نے ہمیشہ آواز اُٹھائی ہے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے لاپتہ افراد کی
بازیابی کے لیے جاری آمنہ مسعود جنجوعہ کی تحریک کی بھی بھرپور معاونت کی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چاہنے والوں کی تعداد ان کے مخالفین سے کہیں زیادہ
ہے ۔ حالیہ حملے کے بعد ملک کے صدر ، وزیر اعظم سے لے کر تمام سیاسی ،مذہبی
، لسانی تنظیموں سمیت ملکی اور غیر ملکی صحافی برادری نے اس حملے کی بھرپور
مذمت کی ہے ۔ عوام حامد میر کی صحت یابی کے لیے دعا گوہیں۔
حق اور سچ کی ترویج میں حامد میر پر حملہ کسی صحافی پر پہلا حملہ نہیں بلکہ
یہ سلسلہ جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔ جیو ٹی وی کے ولی خان بابر بھی
اسی راہ کے راہی تھے جنہیں شہید کیا گیا ۔ تاہم نہ تو آج تک کسی صحافی پر
ہونے والے حملے کے ملزمان اور جرم ثابت ہونے کے بعد مجرمان کو سزا دی گئی
اور نہ ہی اس حوالے سے مقدمات جلد اختتام پزیر ہوتے ہیں۔ جن معاشروں میں
عدالتی نظام کا یہ معمول ہو کی معمولی مقدمے بھی برسوں میں نمٹائے جاتے ہوں
جہاں انصاف فوری فراہم نہ کیا جاتا ہو وہاں صحافیوں سمیت عام افراد اور
خواص پر اس قسم کے حملے منظم انداز میں جاری رہتے ہیں ۔ مظلوم کو جب تک
انصاف فراہم نہیں کیا جاتا۔ یہ سب ڈرامہ جاری رہے گا اس واقعے کے بعد بھی
اینکر حضرات کمر بستہ ہو کر نئے ایجنڈے پر کام کریں گے۔ ایک جانب ہم خیال
اور دوسی جانب ہم نواں کو اکٹھا کرکے بھرپور اور منفرد ٹاک شو کیے جائیں
گے۔ مظاہرے بھی ہوں گے۔اور احتجاج کے دیگر ذرائع بھی استعمال ہوں گے تاہم
سوال یہ ہے کہ اس کا حاصل کیا ہوگا ؟
ہمارے وطن عزیز میں آخر یہ سب کچھ کیوں کر ہو رہا ہے ؟ کیوں مظلوم کو انصاف
اور حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا ؟ کہتے تو ہیں کہ عدلیہ آزاد ہے اور میڈیا
بھی آزادی کے راگ آلاپتی رہی ہے لیکن میڈیا کی آزادی سراسر مغرنہ ثقافت کو
اور اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ
سینکڑوں افراد کے قاتلوں کو بھی جرم ثابت ہونے کے باوجود عیش و آرام کے
ساتھ جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ کتنے ہی سزائے موت کے قیدی قال کوٹھڑیوں میں
اپنی سزا پر عمل درآمد کے منتظر ہیں لیکن یہ کیسا نظام ہے کہ ان کی سزاؤں
پر نہ عمل ہوتا ہے اور نہ ہی درآمد ۔عوام، صدر، وزیر اعظم ،آرمی چیف، چیف
جسٹس ، گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ اس شہر قائد کی نمائندہ اور غیر نمائندہ
سیاسی قوتیں ایک بات ذہن نشین کرانا چاہتی ہیں اوروہ یہ ہے کہ جب تک ایک
عام فرد کی بھی وہی حیثیت اور اہمیت نہیں ہوگی جو اس وقت حامد میر کی ہو
چکی ہے ۔ جب تک مظلوم کو انصاف مہیا نہیں کیا جائے گا جب تک حقدار کو اس کا
حق ادا نہیں کیا جائے گا تب تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ لہٰذا کسی
واقعے کے بعد چند دن کی شعبدہ بازی کو شور کر حقیقی انداز میں اس شہر اور
اس ملک کے باسیوں کے لیے کچی کریں۔ ورنہ یہ یاد رکھیں کی آج حامد میر پر
حملہ ہوا ہے کل کسی اور میر پر اور پرسوں کوئی اور حملے سے متاثر ہوتا رہے
گا ۔ |