جمہوریت میں انتخاب ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے عوام اپنی
پسند وناپسند کا اظہار کر کے حکومت کی تشکیل کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارے نظام
جمہوریت میں معاملہ کا انحصار تعداد پر ہوتا ہے۔ لیکن پارٹیوں کی تعداد
زیادہ ہونے کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوجاتے ہیں اور بیشتر ایسے امیدوار میدان
مار لیتے ہیں اکثریت کی رائے جن کے خلاف ہوتی ہے۔اس لیے ہماری حکومت میں
ایسے لوگوں کی قابل لحاظ تعداد ہوتی ہے جو سماجی اور قانونی حیثیت سے غیر
مقبول ہیں۔ پھر ایسے افراد کی قیادت بدعنوانی پر منتج ہوتی ہے اور عوام کو
ان کا حق نہیں مل پاتا جس کی ایک جمہوری ملک میں توقع کی جاتی ہے۔ اس
صورتحال کو روکنے کے لیے لازمی ہے کہ رائے کو انتشار سے روکا جائے اور جب
عوام کی رائے متحد ہوگی تو ایسے افراد کو رد کیا جاسکے گا جو سماجی اور
قانونی اعتبار سے قابل اعتبار نہیں ہیں۔ اسی طرح جمہوریت کے استحکام کے لیے
ضروری ہے کہ ریاست کا ایک ایک فرد جو حق رائے دہی رکھتا ہے اپنے اس حق کے
استعمال کے لیے آمادہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا شعور اتنا بالیدہ ہو کہ اس کا
نمائندہ کس حد تک ملک ، قوم اور جمہوریت کے لیے مناسب ہے اور پھر اس لحاظ
سے ہر رائے دہندہ اپنی رائے بدلنے اور ملکی مفاد کے پیش نظر رائے کے
استعمال کرنے کی جرأت رکھتا ہو۔ آزادی کے بعد سے ہمارے ملک میں حق رائے ہی
کے استعمال کا لوگوں میں جذبہ بڑھتا گیا ہے اور لوگ اپنی پسند وناپسند کے
مطابق رفتہ رفتہ رائے دہی کرنے کی جرأت بھی کر پارہے ہیں۔ لیکن یہ بھی
ہندوستانی جمہوریت کا المیہ ہے کہ ہمارا رائے دہندہ آج بھی ملکی مفاد کو
ترجیح دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور مختلف طرح کی وقتی ترجیحات سے متاثر
ہوجاتا ہے۔
عام انتخاب ۲۰۱۴ دیگر انتخابات سے اس طرح مختلف ہے کہ پہلی مرتبہ اس انتخاب
میں پارٹیاں عوام کے مسائل کی بجائے صرف اور صرف سیکولرزم اور فرقہ پرستی
کو پورے انتخابی تشہیر کی بنیاد بنا رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہی ہے کہ
بی جے پی نے اس انتخاب کے ذریعہ بڑی حد تک ملک کے سیکولر کردار کو ہی چیلنج
کردیا ہے نتیجتاً دیگر پارٹیوں کو اس کے رد عمل کے طور پر سیکولرزم کا علم
بلند کر نا پڑ رہا ہے۔ ان کی علم برداری کس حد تک خلوص پر مبنی ہے اس کے
بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے تاہم بی جے پی کا جو ایجنڈا ہے اگر وہ ملک
میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ملک کے مفاد کو بہت زیادہ نقصان پہنچے
گا ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹیاں ہی نہیں ہر عقل مند آدمی اس بار کے الیکشن میں
خصوصی دلچسپی رکھتا ہے اور ووٹنگ کرنے اور کرانے کے لیے بہت پر عزم دکھائی
دیتا ہے تاکہ ایسی فرقہ پرست جماعت کو حاشیہ پر ہی رکھا جائے ۔ دوسری جانب
فرقہ پرستوں کے لیے بھی یہ آر پار کی لڑائی ہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ
گذشتہ دو مدتوں میں بی جے پی کا اقتدار سے بے دخل رہ جانا ہے ۔ اس لیے بی
جے پی حامیوں میں بھی ایک ایک ووٹ کاسٹ کرنے کا حوصلہ نظر آرہا ہے۔ شاید اس
کے پیچھے قاتل انسانیت نریندر مودی کو وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھاکر پورے
ملک کو گجرات بنانے کا کھیل کھیلے جانے کا خواب بھی پوشیدہ ہے۔ ایسے میں
امن پسند عوام کی ذمہ داری بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ وہ ملک میں امن
وامان باقی رکھنے کے لیے نہ صرف اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں بلکہ ملک
میں سیکولر فرنٹ کو آگے لانے اور فرقہ پرست ذہنیت کو اقتدار سے دور رکھنے
کے لیے ووٹنگ کریں۔ کیونکہ اگر بی جے پی موجودہ منشور کے تحت برسر اقتدار
آتی ہے تو اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ملک میں سیکولرزم کی بنیاد
کمزور ہوگی اور پھر اس کا اثر جمہوری تقاضوں پر بھی پڑے گا۔ ہندوستان میں
کثرت میں وحدت کی جو خصوصیت پائی جاتی ہے وہ بھی کمزور پڑجائے گی۔ ملک
تقسیم ہو نہ ہولیکن شدید خلفشار کا شکار ضرور ہوگا۔
ظاہر ہے کہ ملک کا بڑا طبقہ سیکولر ذہن ہے اور امن وامان کا خواہاں ہے۔
لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا کہ کثیر پارٹی نظام ہمارے ملک میں ووٹروں کو متحد
ہونے سے روکتا ہے۔ ملک کے ہر صوبے میں عوام کم از کم ۳؍ یا ۴؍ خانوں میں
بنٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بہار ایسی ریاست ہے جس سے چالیس ممبران منتخب ہوکر
پارلیامنٹ پہنچتے ہیں ۔ اگر منتخب نمائندوں کی بڑی تعداد کسی ایک پارٹی یا
محاذ کی ہو تو مرکزکی سرکار طے کرنے میں اس کا اہم رول ہوگا۔ لیکن یہ
انتخابی نتائی کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ بہار کے منتخب نمائندگان کوئی اہم
کردار ادا کرسکیں گے یا نہیں۔ کیونکہ اس انتخاب میں پورے بہار میں سہ رخی
مقابلہ ہے ۔ ایک طرف این ڈی اے ہے جس میں بی جے پی ، لوجپا اور راشٹریہ لوک
سمتا پارٹی شامل ہیں تو دوسری جانب راجد، کانگریس اور این سی پی کا اتحاد
ہے جبکہ جد یو کا اتحاد سی پی آئی سے ہے۔ اس وقت یہاں جد یو کی حکومت ہے جو
۱۷؍ سالوں تک بی جے پی کی حلیف رہی ہے اور ابھی چند ماہ قبل تک یہاں کی
حکومت میں وہ شامل تھی۔ ظاہر ہے کہ گذشتہ انتخاب بھی دونوں پارٹیوں نے مل
کر لڑا تھا اور بڑی کامیابی درج کی تھی جبکہ کانگریس ، راجد، لوجپا کو الگ
الگ انتخاب لڑنے کی وجہ سے سخت ہزیمت اٹھانی پڑی تھی۔ اس وقت صورتحال مختلف
ہے، جد یو تنہا پڑی ہے، جبکہ بی جے پی لوجپا سے اتحاد اور ہر ہر مودی کے
سہارے میدان میں ہے۔ نتیش کمار بہار میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی بنیاد
پر ووٹ مانگ رہے ہیں جبکہ راجد، کانگریس فرقہ پرستی کے خاتمہ اور سیکولرزم
کے استحکام کا نعرہ دے رہی ہیں۔ مذکورہ تینوں محاذوں میں سے اگر کوئی ایک
محاذ بیشتر سیٹیں حاصل کرلیتا ہے تو مرکز میں اس کا دبدبہ رہے گا۔ مرکز میں
جو بھی سرکار ہو وہ بہار کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی لیکن
اگر تینوں کے درمیان سیٹیں تقسیم ہوگئیں تو یہ میں مرکز میں اہم کردار ادا
نہیں کرسکیں گی اور اس کا خمیازہ ریاست کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ اس وقت
صورتحال یہ ہے کہ جد یو اور بی جے پی الائنس ختم ہونے کی وجہ سے دونوں کی
پوزیشن کمزور ہوئی ہے تو دوسری جانب لالو یادو کی سزایابی نے ان کی ذات
والوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو ان کے حق میں تقریبا پولرائز کردیا ہے جو
یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں جان بوجھ کر بڑی طاقتوں نے پھنسایا ہے جبکہ فرقہ
پرستی کے خلاف ان کے بے لچک رویہ کی وجہ سے مسلمان بھی ایک بار ان کی جانب
مائل نظر آرہے ہیں۔ ایسی حالت میں بہار میں اگر راجد کانگریس اتحاد زیادہ
سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو مرکز میں خواہ حکومت کسی کی ہو
فرقہ پرستوں کو کھیل کھیلنے کی راہ آسان نہیں ہوگی اور مجموعی طور پر سیاست
کے رخ میں تبدیلی آئے گی۔ بہار کی برسر اقتدار جماعت جد یو کی حالت یہ ہے
کہ اس کو اپنی ۸؍ سالہ مدت کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے عوام کی کچھ نہ کچھ
ہمدردی ضرور حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود دیکھا گیا ہے کہ اسے انتخاب میں
اچھے امیدوار بھی نہیں مل سکے ہیں۔بیشتر جگہوں پر جدیو کے امیدوار جیتنے کی
بجائے راجد امیدواروں کو شکست دینے کے لیے کھڑے کیے گئے ہیں۔ بہت کم حلقوں
میں اس کے امیدوار مضبوط حالت میں دکھائی دیتے ہیں اور اگر کہیں ایسا ہے تو
یہ امیدوار کی اپنی شخصیت کی وجہ سے ہے۔ عام طور پر جد یو کو جہاں کہیں
حمایت حاصل ہورہی ہے اس میں مسلم ووٹروں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہندو بڑی ذاتوں
کی حمایت بی جے پی کو زیادہ حاصل ہے تو چھوٹی ذاتوں میں زبردست انتشار ہے۔
کچھ جد یو کے ساتھ ہیں تو کچھ یوپی اے اتحاد اور کچھ بی جے پی کے کھاتہ میں
بھی ہیں۔ الغرض زیادہ تر پارلیمانی حلقوں میں سیکولر امیدوار کو کسی نہ کسی
سیکولر امیدوار کی وجہ سے ہی شکست کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہو اتو بی
جے پی کو اس کا فائدہ حاصل ہوگا ۔ حالانکہ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ
ریاست میں یوپی اے اتحاد ہی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی جبکہ بی جے پی
دوسرے نمبر پر اور جد یو تیسرے نمبر پر ہوگی۔
اگر بہار میں یوپی اے اتحا دکامیاب ہوتا ہے اور مرکز میں یوپی اتحاد کی
حکومت بنتی ہے تو ایسی صورت میں موجودہ ریاستی سرکار کے لیے مشکلیں کھڑی
ہوجائیں گی۔ کیونکہ بی جے پی سے اتحاد ٹوٹنے کے بعد موجودہ ریاستی سرکار
بیساکھی کے سہارے چل رہی ہے اور انتہائی کمزور حالت میں ہے۔ کہاجارہا ہے کہ
موجودہ ریاستی سرکار کی ترقی میں خود یوپی اے دوم کا تعاون رہا ہے اور
باوجودیکہ مرکز نے بہار کوخصوصی ریاست کا درجہ دینے کے مطالبہ کو تسلیم
نہیں کیا لیکن بہار کی ترقی کے لیے اپنی مالیات کا منہ کھولے رکھا ۔اگر
مرکز میں یو پی اے بر سر اقتدار آتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس کا یہ سلوک
برقرار نہ رہے۔ پھر اس کا اثر آئندہ ریاستی انتخاب پر بھی ہوگا ۔لوگوں کا
ماننا ہے کہ اگر آئندہ انتخاب میں بہارمیں جد یو کی حکومت نہیں بنتی ہے تو
یہ شاید بہار کی بدقسمتی ہوگی۔ کیونکہ جد یو نے ۸؍ سالوں میں بہار میں ترقی
کے راستے ہموار کئے ہیں ۔ حالانکہ مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دوران اگر
جدیو کے علاوہ بھی کوئی دوسری حکومت ہوتی تو بھی بہار میں ترقیاتی کام ضرور
دیکھے جاتے ۔
دوسری جانب اگر جد یو ریاست میں بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہے اور اگر یوپی اے
کی حکومت بنتی ہے تو جد یو شایدخصوصی ریاست کے درجہ کی شرط پر کانگریس کو
حمایت پیش کرسکتی ہے۔ لیکن اس کا امکان راجد کے رہتے ہوئے ناممکن ہے۔ پھر
یہ کہ ریاست میں اس وقت جو سیاسی فضاہے اس سے یہ نہیں لگتا کہ اس مرتبہ
راجد کانگریس کی حالت وہ رہے گی جو گذشتہ پارلیمانی انتخاب میں اس کی رہی
ہے۔دوسری جانب لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ اگر مرکز میں این ڈی اے یا یو پی اے
میں سے کسی ایک کو حمایت دینے کی ضرورت ہوگی تو جد یو کی ترجیح این ڈی اے
ہوگا اور وہ مودی کو ہٹاکر اور این ڈی اے کے متنازعہ شقوں سے اختلاف کر کے
خصوصی ریاست کے درجہ کی شرط پر این ڈی اے کی ہی حمایت کرے گی۔ اگر ان شرطوں
کو مان کر باہر سے بھی اس کی حمایت کے لیے جد یو تیار ہوتی تب بھی اسے
ریاست میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ریاست میں بی جے پی کی
ناز برداری اس کی بڑی مجبوری رہے گی۔ ایسی حالت میں اس کے لیے بی جے پی کی
شاطرانہ چالوں کا جواب دینا مشکل ہوگا۔ قابل توجہ امر یہ بھی ہے کہ جد یو
نے این ڈی اے اتحاد کے ساتھ حکومت بنانے کے باوجود ریاست میں فرقہ وارانہ
ہم آہنگی بنانے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی تھی لیکن بی جے پی سے الگ
ہوکر اسے اس معاملہ میں بھی سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور شایداس میں
وہ ناکام بھی ہوجائے۔
بہار میں ۹۔۸ سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن سمجھے جاتے ہیں
وہیں مجموعی طور پر جو حالات ہیں اس میں بیشتر سیٹوں پر مسلمان متحد ہوکر
جس کے حق میں ووٹنگ کریں گے اس کا پلڑا بھاری ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ عجیب
بات ہے کہ مسلمانوں کا کوئی واضح رخ نہیں بن پایا ۔جن حلقوں میں انتخاب
ہوئے ہیں وہاں بھی ان کا ووٹ بری طرح منتشر رہا ہے اور آئندہ انتخاب میں
بھی صورتحال کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے۔ حالانکہ اس بار بھی ہمیشہ کی طرح مسلم
تنظیموں اور دانشوروں کا انہیں یہ مشورہ رہا ہے کہ فرقہ پرستوں سے بچتے
ہوئے جماعتی سیاست سے اوپر اٹھ وہ اپنے حلقہ کے مضبوط امیدوار کی حمایت میں
آگے آئیں جو صدا بہ صحرا ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ |