ہم مسلمان ہیں اور اس نبی رحمتﷺ کے ماننے والے جنہوں نے
ایک بار کعبہ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ تو بہت محترم ہے لیکن ایک
مسلمان کی جان تجھ سے زیادہ محترم ہے۔اسلام امن کا دین ہے اور اختلاف رائے
پہ کسی کو کسی کی جان لینے کا اختیار نہیں دیتا۔کسی ناحق خون کی جتنی مذمت
اسلام کرتا ہے دنیا کا کوئی مذہب اور معاشرہ نہیں کرتا۔ یہ الگ بات کہ عدم
برداشت نے اسلام کے اس حسین پہلو کو طاقِ نسیاں بنا دیا ہے اور اب شہر کا
شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے اور ایک دوسرے کی جان لینے کے درپئے۔تعصب حقیقت کو
چھپا دیتا ہے اورہمارا معاشرہ مذہبی مسلکی لسانی علاقائی تعصبات میں بٹ چکا
ہے اور اتنا کہ اپنے مؤقف کے حق میں دلیل لانے کے لئے سارے اصولوں کو پامال
کر دیا جاتا ہے۔اس کی تازہ مثال جیو نیوز کے اینکر اور معروف صحافی حامد
میر پہ کراچی کی شاہراہ فیصل پہ ہونے والا حملہ ہے۔ولی بابر بھی اسی نیوز
نیٹ ورک کا حصہ تھا جسے ایم کیو ایم کے پیشہ ور قاتلوں نے دن دہاڑے قتل
کیا۔ ملزم پکڑے گئے اور انہوں نے قتل کا اعتراف بھی کر لیا۔ ساری دنیا ان
کی ایم کیو ایم سے وابستگی سے واقف تھی لیکن جونہی ایم کیو ایم نے ان
قاتلوں سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔ جیو اس پہ فوراََ ایمان لے آیا۔کسی
پہلوان نے ایک نحیف و نزار مولوی کو مکا دکھایا اور پوچھا اب بتا اﷲ نزدیک
ہے یا گہسن۔مولوی فوراََ بولا ابھی تو ھہسن یعنی مکا ہی نزدیک دکھائی دیتا
ہے۔ جیو کا ایم کیو ایم کے بیان کو ماننا بھی اسی گہسن کا دیدار تھا۔
کل جب حامد میر پہ حملہ ہوا تو ایم کیو ایم کے ایک صاحب جیو کو تائثرات
ریکارڈ کرواتے ہوئے فرما رہے تھے کہ جہاں حامد میر پر حملہ ہوا اس کے دونوں
اطراف حساس اداروں کی انسٹالیشنز ہیں۔سچ ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا
ہے۔حامد میر پہ حملہ قابلِ مذمت ہے ۔حامد میر ہی کیا کسی کتے کو بھی ناحق
مارنا قابل مذمت اور قبیح فعل ہے لیکن اس حملے کے چند ہی منٹوں بعد جس طرح
پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور چند
لمحوں میں جس طرح امریکہ سے لے کر بھارت تک سب پاکستان دشمن ایک ہی راگ
الاپنے لگے اس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ پہلے سے تیار کردہ کوئی سازش تھی
جس کے لئے سب تیار بیٹھے تھے اور شاید جس کے لئے حامد میر کو قربانی کا
بکرا بنایا گیا۔پاک فوج ،آئی ایس آئی اور دوسری پاکستانی ایجنسیوں کی
مخالفت حامد میر کے خون میں شامل ہے کہ وہ وارث میر کے صاحبزادے ہیں جنہیں
پاکستان مخالفت کے لئے بنگلہ دیش کی حسینہ واجد حکومت نے بعد از مرگ اعزاز
سے نوازا ہے اور جسے ان کے فرزند حامد میر نے بنگلہ دیش جا کے وصول کیا
ہے۔اسی طرح پیسے کی محبت جیو نیوز کے مالکان کے خون میں شامل ہے۔پیسے کے
حصول کے لئے وہ کوئی بھی سٹوری چلا سکتے ہیں اور کوئی بھی خبر لگا سکتے
ہیں۔مرغ باد نما کی طرح یہ اپنا رخ بدلتے ہیں۔ بزرگ حکومت کی چاپلوسی میں
حدیں پار کیا کرتے تھے اور اب ان کی اولادیں اپنے آپ کو اتنا طاقتور سمجھنے
لگی ہیں کہ نہ ٹیکس دیتی ہیں اور نہ ہی کسی اصول اور قانون کی پرواہ کرتی
ہیں۔ میڈیا کو پاکستان میں مافیا کا روپ دینے والوں میں ان کا نام سر فہرست
ہے۔بد قسمتی یہ ہے کہ یہ حکومت مخالف نہیں ریاست مخالف ہیں اور ہمہ وقت
اپنے پروگرامز اور دوسرے ذرائع سے یہ نیٹ ورک ملک کی اساس پہ حملہ آور رہتا
ہے۔جیو نیوز کو میڈیا کا ایم کیو ایم کہنا شاید زیادہ مناسب ہو کہ وہ بھی
گولی کی زبان میں بات کرتے ہیں اوریہ زبان کی گولی سے ملک میں عدم استحکام
کی ہر ممکنہ کوشش کرتے ہیں۔
اس معاملے کو پروپیگنڈہ کی دھول میں چھپانا کسی صورت مناسب نہیں۔ اس کی
آزادانہ تفتیش ہونی چاہئیے۔ آئی ایس کو بھی چاہئیے کہ وہ ملک دشمنوں کی
سرکوبی پہ فی القوت لعنت بھیجے اور ان قاتلوں کو تلاش کرے۔جب وہ پکڑے جائیں
تو انہیں کسی بھی مصلحت کے بغیر قوم کے سامنے لایا جائے تا کہ جھوٹے کو اس
کے گھر تک پہنچانے میں آسانی ہو۔
صحافی معاشرے کی آنکھیں اور کان ہوتا ہے اور ملک کا فوج اور آئی ایس آئی کی
طرح محافظ بھی۔ یہ الگ بات کہ عین حالت جنگ میں بھی ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں
جو دوسرے ملک کے لئے جاسوسی کر رہے ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی تاریخ کا یہ
باب تو واقعتاََ سیاہ ہے۔ برصغیر میں میر جعفر اور میر صادق کے کردار کو
بھلا کون بھلا سکتا ہے۔اس معاملے میں آئی ایس آئی مجرم ظابت ہو تو اس کے
ذمہ داروں کے خلاف بھی سخت کاروائی کیا جائے لیکن اس سے قبل ہمیں اپنے نظام
عدل کو آواز دینی چاہئیے کہ وہ مداخلت کرے اور ان بد زبانوں کو لگام دے جو
اس حملے کی آڑ میں ملکی اداروں کی بیخ کنی کر رہے ہیں۔پاکستان کی ساری
صحافت تنظیموں اور سارے صحافیوں نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور افواج
پاکستان کے ترجمان نے بھی اسے ایک قبیح فعل سے تعبیر کیا ہے لیکن سارے محب
وطن جیو کی دیدہ دلیری پہ حیران ہیں کہ کیسے بغیر ثبوت اور تفتیش کے وہ ایک
ملکی ادارے پہ اتنا بڑا الزام لگا رہا ہے۔اس سے جہاں آئی ایس آئی کے ایک
وحشی اور طاقتور ادارہ ہونے کا پول کھلتا ہے وہیں ایک اور حقیقت سے بھی
پردہ اٹھتا ہے کہ یہاں کسی کی بھی پگڑی اچھالی جا سکتی ہے وہ بھلے دنیا کی
نمبر ون خفیہ ایجنسی ہی کیوں نہ ہو۔
خفیہ ایجنسی کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دینے والے بڑی خوبصورتی سے اصل
قاتلوں کو بچا لے جانا چاہتے ہیں اور اگر غور کیا جائے تو ایک بات سورج کی
طرح روشن ہوتی نظر آتی ہے کہ اس معاملے میں جیو کی آواز میں آواز ملانے
والوں میں جہاں ایم کیو ایم سب سے آگے ہے وہاں عاصمہ جہانگیر اور نجم سیٹھی
جیسے کردار بھی پیش پیش ہیں۔ ان کے ملک کے بار ے ہرزہ سرائیوں اور ان کی
ہمدردیوں سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔حامد میر پر حملے کے لئے آئی ایس آئی
کو براہ راست نام لے کے اور اس کے سربراہ کو اس میں ملوث کر کے جنگ گروپ کا
اپنا پاوں اپنی ہی زلف دراز میں پھنس گیا ہے۔سوشل میڈیا پہ یہ بحث بھی ہو
رہی ہے کہ آئین کی پیروی کرتے ہوئے کیا ٓئی ایس آئی جیو کو افواج پاکستان
اور اس کے اداروں کو بدنام کرنے کے جرم میں عدالت لے جائے گی۔ حامد میر پہ
حملہ کس نے کیا وہ تو تفتیش کے بعد ہی پتہ چلے گا لیکن جیو نے جس طرح ان
اداروں کو بد نام کر کے آئین کے مطابق غداری کا ارتکاب کیا کیا اس پہ ہماری
آزاد عدلیہ از خود نوٹس لے گی کئیا اس ملک کے وزیر دفاع جو اس ادارے کے بھی
سربراہ ہیں اس کے دفاع میں اپنے بل سے باہر نکلیں گے۔ آخر میں جیو نیٹ ورک
کی نذر ایک شعر
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
خود آپ اپنے دام میں۔۔ صیاد آ گیا |