قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد تحفظ پاکستان بل سینٹ
سے منظوری کا منتظر ہے۔ آئینی ،قانونی ماہرین کا ایک طبقہ اسکی مخالفت کر
رہا ہے۔جبکہ ایک طبقہ اسکی من و عن حمایت پر کاربند ہے۔ سیاست دان بھی اس
حوالے سے تقسیم ہیں۔حکومت کی اتحادی اسکی حامی اور اپوزیشن ہر حال اور ہر
قیمت پر اسکی مخالفت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ سیاست دانوں میں
چاہے اسکے ھامی ہوں یا مخالف شائد ہی کسی نے اسکا مطالعہ کیا ہو۔حکومتی
ارکان پارلیمنٹ نے میاں نواز شریف کے ایک اشارہ ابرو پر اسکی حمایت میں ووٹ
کاسٹ کر دیا اور اپوزیشن اراکین نے اپنی اپنی جماعت کے سربراہ کے موڈ دیکھا
اور بل کی کاپیاں پھاڑ یں ’’رولا ‘‘ ڈال کر جماعتی قیادت کو خوش کرلیا۔میرا
دعای ہے کہ اگر کسی رکن اسمبلی سے فرما ئش کی جائے کہ وہ تحفظ پاکستان بل
کی قابل اعتراض چیزوں کی نشاندہی کرے تو نہیں کرپائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ یہ تحفظ پاکستان بل میاں نواز شریف کی دوسری حکومت یعنی
1997 والی حکومت میں نافذ کیاجانے والاانسداد دہشت گردی ایکٹ کی نئی شکل و
صورت ہے۔ 1997 کے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق
کچھ ترمیم و اضافہ کرکے اسے 22 جنوری 2014 کو مسلم لیگ نواز حکومت نے تحفظ
پاکستان آرڈیننس کے نام سے نافذ کردیا۔ چونکہ آرڈیننس کی معیاد تین ماہ سے
زائد نہیں ہوتی اس لیے حکومت نے اسے باقاعدہ قانون بنانے کے لیے اسے بل کی
صورت میں پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ بل انسداد دہشتگردی
اور آرڈیننس سے بھی زیادہ طاقتور بنا دیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی نے اس بل کی منظوری دیدی ہے اور اب سینٹ میں پیش کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی اس بل کی چند شقوں پر اعتراضات ہیں۔انکا
کہنا ہے کہ اگر اس تحفظ پاکستان بل کو جوں کا توں منظور کرلیا گیا تو اس سے
آئین میں دئیے گے بنیادی انسانی حقوق کے متاثر ہونے کے خدشات موجود ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں،قانونی و آئینی ماہرین کو خدشات ہیں کہ
اس بل میں ایک شق کے تحت ہر وہ سرگرمی جس قانون نافذ کرنے والوں کی نطر میں
نقص امن کا خطرہ لاحق ہو اسے ملک دشم سرگرمی کا نام دیدیا گیا ہے۔ماہرین کی
رائے میں اس بل میں ملک دشمن کی جو ا صطلاح متعارف کرائی گئی ہے ،اسکے
مطابق ہر وہ شخص یا شہری ملک دشمن ہے جس نے بھی پاکستان ،پاکستان کے باسیوں
مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کے خلاف جنگ کے لیے
خوداسلحہ اٹھایا یا مسلح افراد کی معاونت کی ہو یا پھر ملک کی قومی سلامتی
اور استحکام کو تباہ کرنے کا مرتکب ہوا ہو یا ایسا کرنے کی دہمکی دینے
والوں میں شامل ہو ، ملک دشمن متصور ہوگا……اس بل میں حکومتی اقدامات کے
خلاف عوامی تحریک چلانے ،اس کے نتیجے میں حکومت پر اس متنازع اقدام کو واپس
لینے کے لیے دباو ڈالنے کو بھی سنگین جرم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور حکومت
کوغیر آئینی اقدامات واپس لینے کے لیے مجبور کرنے والوں کے خلاف بھی وہیں
قانون حرکت میں آئیگا جو دہشت گردوں، خود کش دہماکے کرنے اور خطرناک اور
زہریلے مواد کے ذریعے شہریوں کو ہلاک کرنے والوں کے لیے استعمال میں لایا
جائیگا۔
اس تحفظ پاکستان بل میں گرڈ اسٹیشنوں ،تیل اورسوئی گیس کی پائمپ لائینوں
،بجلی کی ٹرانسمشن لائینوں ، تیلی فون کی لائینوں ، مائع گیس اور قدرتی گیس
کی لائینوں ، ٹرانسپورٹ، دفاعی اداروں کی تنصیبات ، کے ساتھ ساتھ جیلوں اور
سرکاری اداروں کی املاک کو نقصان پہنچانے والے ملک دشمن قرار پائیں گے۔
اس بل میں سائبر کرائم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جرائم بھی اسی زمرے میں
شمار کیے جائیں گے اور ان تمام ملک دشمنوں کے خلاف عسکری اور سول سکیورٹی
کے اداروں کے اہلکار وں کو طاقت کا استعمال کرنے کا اختیار بھی دیا جا رہا
ہے۔ اس اختیار کے تحت قومی سلامتی کے ادارے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے
ادارے کے اہلکاران ملک دشمنوں کو دیکھتے ہی گولی مار سکیں گے۔قانونی اور
آئینی ماہرین کے مطابق اس بل کی رو سے خواتین اور بچوں کو بھی زیر حراست
رکھا جا سکے گا،……ماہرین قانون کو اس بل کی اور بھی شقوں پر تحفظات اور
خدشات ہیں۔ یعنی آئین کہتا ہے کہ کسی آزاد شہری کو وجہ بتائے بغیر گرفتار
نہیں کیا جا سکتا ،گرفتار کیے جانے والے شخص کو اپنی پسند کے قانون دان سے
مشورہ کرنے کی آزادی اور حق حاصل ہے۔ لیکن اس بل کے تحت قانون نافذ کرنے
والے اور قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے کسی بھی شخص کو بنا وجوہات بتائے 90
روز کے لیے حراست میں رکھنے کے مجاز ہوں گے۔
آئین سازی کرنے والے اور اس آئین کی تشریح کرنے کے منصب پر فائز افراد یعنی
قانون دان یہ سوال اٹھاتے ہیں کہاس ملک میں آئین مقدم ہے یا تحفظ پاکستان
بل؟ کیونکہ اقوام متحدہ کا منشور انسانی حقوق اور ہمارا ملکی آئین جس پر
ہماری حکومتیں فخر کرتی نہیں تھکتیں کہ یہ سیاستدانوں کا کمال ہے اور اسے
متفقہ طور پر منظور کریا گیا ہے۔ یہ بھی سول حکومتیں دعوی کرتی ہیں کہ
ہمارا آئین اس ملک کو متحدہ رکھنے کی آخری دستاویز ہے۔اسی لیے 1977 سے 12
اکتوبر 1999 تک اس ملک مین لگائے جانے والے مار شل لاوں نے اسے منسوخ کرنے
کی ہمت و جرات نہیں کر پائی۔ اس میں 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی پلس کو بھی
شمار کیا جا سکتا ہے۔
لیکن سینٹ سے منظوری کے منتظر تحفظ پاکستان بل کے ذریعے عوام کی منتخب
حکومت آئین میں دئیے گے بنیادی حقوق عوام سے چھیننے کے درپے کیوں ہے۔ کیا
برطانیہ،امریکہ،سویڈن،ناروے سمیت دیگر ممالک کی حکومتیں اپنی قومی سلامتی
کے خلاف سرگرم افراد کے خلاف اسی تحفظ پاکستان بل کی نوعیت جیست قوانین سے
ہی نمٹتے ہیں؟ ہمیں (ہم پاکستانیوں ) کو انسانی حقوق کے چارٹر کی پاسداری
کرتے رہنا چاہئیے۔ اور مہذب قوانین پر مشتمل آئین سازی کرکے ملک کو درپیش
مسائل (جن میں دہشت گردی سر فہرست ہے ) پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے نہ
کہ ایسے قوانین بنائیں جن سے ہماری جگ ہنسائی کا سامان پیدا ہو……بقول بلاول
بھٹو زرادری تحفظ پاکستان قوانین کے پس پردہ مقاصد کے تحت وزیر اعظم کی
گرفتاری بھی عمل میں لائی جا سکے گی۔
ہمیں اپنی قابل فخر فورسز کی ہر ممکن مدد اور تعان کرنا ہوگا۔اس میں کوئی
دا رائے نہیں کہ ہماری فورسز اس وقت انتہائی مشکلات کے دور سے گذر رہی ہے۔
ہمیں اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے والے قوانین بنانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
کیونکہ اگر گھر کا چوکیدار ہی کمزور ہوگا تو وہ کیسے ہماری جان و مال عزت و
آبرو کی حفاظت کرنے کی ذمہ داریاں نبھا پائے گا؟ اپوزیش اور حکومت کو باہمی
اتحاد و اتفاق سے قانون سازی کرنی چاہیے ۔ تاکہ دنیا کو یہ احساس نہ ہو اور
نہ ہی ایسا پیغام جانا چاہیے کہ ہم نفاق کا شکار ہیں۔ اس لیے حکومت کو سینٹ
سے چال بازی یا چالاکی سے اس بل کو منظور کروانے کی بجائے اپوزیشن جس میں
تحریک انساف، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں شامل ہیں ان سے مشاورت کی جائے
اور انہیں اعتماد میں لیکر متفقہ قانون سازی کرنے کو ترجیح دی جائے۔ جیسا
کہ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت کی قانون سازی کی ہے - |