مفتی ذاکرھسن نعمانی
ارشادباری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:وہی ہے جس نے بھیجااپنارسول راہ کی سوجھ دے کراورسچادین،کہ اس
کواوپرکرے سب دینوں سے اورپڑے برامانے شرک کرنے والے۔(سورۃالصف)
سورہ توبہ اورسورہ صف دونوں میں یہ دونوں آیات بالکل ایک جیسی ہیں دونوں
کامطلب ومعنیٰ بھی ایک ہے۔مخالف کبھی بھی نہیں چاہتاکہ اس کامخالف دین ترقی
کرکے پوری دنیاپرچھاجائے۔ لیکن دوسری طرف اﷲ تعالی کی قدرت اورمشیت یہی ہے
کہ سچااورحق دین پوری دنیامیں پھیل کرتمام ادیان پرغالب آجائے۔اگرچہ مشرکین
،کفار،منافقین اوردیگرفساق وفجاریہ نہیں چاہتے۔مخالفین صرف دلی عداوت وبغض
نہیں رکھتے بلکہ ان کی پوری سرتوڑکوشش ہرزمانہ میں رہی ہے کہ اسلا م ہرلحاظ
سے پوری دنیاسے مٹ جائے اس کے لیے ہردورمیں مختلف قسم کی کوششیں کیں
ہیں۔اورآج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
ترجمہ:چاہتے ہیں کہ بجھادیں اﷲ کی روشنی اپنے منہ سے اوراﷲ کوپوری کرنی ہے
اپنی روشنی ا ورپڑے برامانیں منکر۔(سورۃالصف)
اسلام پوری دنیامیں آفتاب وماہتاب بن کرمیں چمک رہاہے،پوری دنیاکوروشنی دے
رہاہے اورکفار،مشرکین اورمخالفین اپنے منؤوں سے آفتاب اورماہتاب کی روشنی
کوپھونکیں مارکر بجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ان آیات سے معلوم ہواکہ مخالفین
اسلام کومٹانے کی کوشش کریں گے لیکن ناکام رہیں گے۔لیکن باز بھی نہیں آئیں
گے ۔اسلام کی مخالفت میں ان کے قتل وقتال کاسلسلہ بھی جاری ہے اورہردورمیں
تہہ تیغ ہوتے رہے ہیں لیکن اپنے مشن سے باز نہیں آتے کیونکہ نفسِ امارہ
اورشیطان ہردورمیں زندہ رہتاہے۔ان کی کارستانیاں رکتی نہیں۔دوسری طرف اسلام
کے حامی مبلغین، مجاہدین اورمصلحین اسلام کے جھنڈے کوسربلندکرتے رہتے ہیں
یہ سلسلہ بھی شروع سے آج تک جاری ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اﷲ کے فضل اوراس کی مدد
سے اسلام زندہ جاوید ہے۔اسلام کے بقاء اورپھیلانے کے لیے مسلمانوں کی مختلف
جماعتیں پوری دنیامیں کام کررہی ہیں اوردین کاکام کرنے والوں کے ساتھ اﷲ کی
مدد ہوتی ہے :’’ان تنصروااﷲ ینصرکم ‘‘ سب سے اول اسلام کی تبلیغ حضورﷺ نے
کی اورتبلیغ اوررسالت کاحق اداکرکے رکھ دیااوراس وقت کی پاکیزہ جماعت
(صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم)کواس پر گواہ کردیاکہ ہاں واقعی آپ نے تبلیغ
ورسالت کاحق اداکردیا۔آپ ﷺ کے بعد آپﷺ کے مشن کوآپ کی تربیت یافتہ پاکیزہ
جماعت نے زبردست جانی ،مالی اوروقتی قربانیوں کے ساتھ پوری دنیامیں روشناس
کرایااس طرح اسلام کی بقااورپھیلاؤکاسلسلہ شروع ہوگیا۔
اسلام کی بقااورپھیلاؤکی شکلیں:
(۱)……تدریس:
سب سے پہلے اسلامی معلم خود حضورﷺ ہیں ۔آپ ﷺ نے قرآن وحدیث کاعلم اپنی
بلاواسطہ جماعت کودیا۔جن میں بڑے بڑے محدثین ،مفسرین اورفقہاء پیداہوئے۔ یہ
محدثین ،مفسرین اورفقہاء صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں موجود تھے۔ویسے علمی
لحاظ سے ہرایک صحابی کاعلم اپنی جگہ گہراعلم تھا۔یہی وجہ ہے کہ ہرصحابی
کاصحیح ثابت قول خلاف القیاس ہویاموافق القیاس ؛اس کولیناپڑتا ہے۔ان کے قول
کے مقابلہ میں کسی مجتہد کاقول نہیں چلتااس لیے کہ مجتہدتواجتہاد اورقیاس
سے بات کرے گااورصحابی کاقول اگرقیاس کے موافق ہے توٹھیک ہے اگرمخالف
القیاس ہے توسماع پر محمول ہوگا۔حضورﷺ کے بعد صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے
تدریسی سلسلہ جاری رکھاان کے شاگردوں میں بڑے بڑے محدثین ،مفسرین اورفقہاء
پیداہوئے اوربڑے بڑے مجتہدین بھی پیداہوئے جن کوتابعین کہتے ہیں۔پھرتابعین
نے اس سلسلہ تدریس کوآگے بڑھایاجوآج تک بڑے انہماک کے ساتھ جاری ہے۔ جن
حضرات نے تدریس کامزہ چکھاہے وہ ان سے پوچھناچاہیے۔کس والہانہ انداز سے بے
لوث تدریس کررہے ہیں ،دین کے دیوانے بن کردرس دیتے ہیں اورخودکوبے تاج
بادشاہ سمجھتے ہیں ۔امام شافعی رحمہ اﷲ تعالیٰ کی حلاوتِ علمی ملاحظہ
فرمائیں ،فرماتے ہیں :
سھری لتنقیح العلوم الذلی
من وصل غانیۃ وطیب عناق
علوم کی تحقیق وتنقیح کے لیے شب بیدار ی مجھے بہت لذیذ ہے فطری حسینہ کی
ملاقات اوراس کے ساتھ بغل گیری کی لذت سے
فرماتے ہیں:
وتمایلی طرباً لحل عویصۃ
فی الدرس اشمیٰ من مدامۃ ساق
درس میں مشکل مسئلہ کے حل کی خوشی سے جھومنامجھے ساقی کی شراب سے زیادہ
پسند ہے۔
دیگرمذاہب اورادیان میں اول توان کی مذہبی کتابیں موجود نہیں یاموجود ہیں
لیکن مستند نہیں۔ تحریف لفظی اورمعنوی سے بھری ہوئی ہیں۔اگربالفرض کتابیں
موجود ہیں بھی تومسلمانوں کی طرح مذہبی مدارس اور کوئی نصاب نہیں اورنہ
ایسی تعلیمات کی طرف خاطرخواہ توجہ ہے کہ اپنے مذہب والے بچوں کوداخل کرکے
ان کومذہبی تعلیم دیں یہ صرف اسلام اورمسلمانوں کاخاصہ ہے کہ مذہبی تعلیمات
کے ہردورمیں بے شمارمدارس اوربے شمارپڑھنے اورپڑھانے والے موجودہیں
اورہرسال ہزاروں کی تعداد میں علماء فارغ ہوتے ہیں ۔مذہبی تعلیم وتدریس
کایہ سلسلہ ہراسلامی ملک میں مسلسل جاری ہے اوران شاء اﷲ تاقیامت جاری رہے
گا۔
(۲)……تصنیف:
اسلام کے احیاء وبقا اورپھیلاؤکی دوسری شکل تصنیف وتالیف ہے ۔خود حضورﷺ سے
کتابتِ حدیث کاحکم ثابت ہے۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اپنے لیے احادیث لکھی
ہیں ۔بعض صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے صحائف ملتے ہیں ۔بخاری شریف میں ہے کہ
عمربن عبدالعزیز نے ابوبکربن حزم کولکھا:مجھے خوف ہے کہ علم مٹ رہاہے علماء
رخصت ہورہے ہیں احادیث لکھو۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے بعدآج تک محدثین
حدیث کی کتابی شکل میں خدمت کررہے ہیں ۔آج کل حدیث کی جمع وتالیف کاکام بہت
کم ہے کیونکہ اب اس کی زیادہ ضرورت نہیں رہی البتہ حدیث کی تشریحات کاسلسلہ
مسلسل جاری ہے۔اسی طرح تفسیرا ورفقہ وغیرہ کی کتب پہلی صدی سے لکھی جارہی
ہیں ۔مسلمانوں کااصلی علمی ورثہ لاتعداد دینی کتب کی شکل میں موجودہے۔
حدیث،تفسیر ،فقہ ،اصولِ تفسیر،اصولِ حدیث ،تاریخ اورسیرت کے موضوعات پربے
شمارکتابیں موجود ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق اگردینی کتب کوچوڑائی کے لحاظ
سے زمین پر ایک لائن میں رکھاجائے تومشرق سے لے کرمغرب تک پوری زمین
بھرجائے گی۔اسلام کے مقابلے میں کسی مذہب کااتنامذہبی لٹریچر نہیں
ملتااورنہ دیگرادیان اورمذاہب والے مذہبی کتابیں لکھتے ہیں اورنہ اس کی
ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔الحمدﷲ ہمارااسلام اپنی صحیح شکل اورصحیح تعلیمات کے
ساتھ کتابوں میں موجودا ورزندہ ہے۔ جب بھی مسلمانوں کوکسی مسئلہ کی ضرورت
پڑتی ہے تودینی کتب میں کہیں نہ کہیں اس کاحل نکل آتاہے ۔ مختلف اسلامی
مکاتبِ فکرکی کتابوں میں اس کاحل مل جاتاہے۔اسلام میں مذہبی فروعی اختلاف
بھی اﷲ کی رحمت ہے ۔اختلاف الانظارکی وجہ سے اسلام میں بہت زیادہ وسعت آگئی
ہے جس کی وجہ سے پوری دنیاکے لوگوں کے لیے اسلام پر عمل آسان ہوگیا۔بڑے بڑے
اسلامی مصنفین نے بڑی قیمتی کتابیں بڑے شوق وذوق کے ساتھ لکھی ہیں۔عمرعزیز
کے قیمتی اوقات تصنیف وتالیف میں کھپادیے ہیں ۔ اسلامی لٹریچر مختلف زبانوں
میں ملتاہے۔امام شافعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :
وصریر اقلامی علی صفحاتہا
احلی من الدوکاء والعشاق
کاغذپر چلنے والے قلم کی آواز مجھے زیادہ پیاری ہے عاشقوں کے خوشبوپسنے کی
پتھر کے آواز سے
والذمیں نقرالفتاۃ لدقھا
نقری لدیقی الرمل عن اوراقی
کسی دوشیزہ کی دف بجانے والی انگلیوں سے مجھے میرے کاغذسے ریت دورکرنے والی
انگلیاں زیادہ محبوب ہیں۔
(۳)……دعوت وتبلیغ:
جب سے اسلام آیاہے اس کی تبلیغ شروع ہے ۔دعوت وتبلیغ کی وجہ سے اسلام پوری
دنیامیں پھیلاہے ۔جن علاقوں میں دعوت وتبلیغ کاسلسلہ رک گیاہے وہاں دین
برائے نام رہ گیاہے اورمسلمان بھی نام کاہے لیکن فطری قانون ہے کہ جوبات
عمل میں نہیں ہوتی وہ آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ایک وقت آتاہے کہ اس
کاتصورہی ختم ہوجاتاہے ۔آج سے تقریباً نصف صدی قبل خداجانے کون کون سی
رسمیں تھیں جولوگوں کے رواج سے نکل گئیں اس طرح تبلیغ نہ ہونے کی وجہ سے
اسلامی رسم ورواج بھی ختم ہوجاتے ہیں جواسلامی اعمال عمل اوررواج میں موجود
ہیں وہ آج تک زندہ ہیں۔مثلا:نماز،روزہ ،حج، زکوٰۃ،ذکر،تلاوت وغیرہ دنیاکے
مختلف خطوں میں موجود ہیں۔آج تک یہ اعمال زندہ ہیں یہ توممکن ہے کہ نمازی
کم ہوں یعنی نماز ،روزہ کم ہوں یاکبھی پڑھتے ہوں،کبھی نہ پڑھتے ہوں،روزہ
کوئی رکھتاہے کوئی نہیں،حج کوئی اداکرتاہے کوئی نہیں لیکن پھربھی دنیامیں
ایسے لوگ ہیں جواسلامی اعمال کی ادائیگی پابندی کے ساتھ کرتے ہیں۔الحمداﷲ
ہم دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام زندہ ہے اوراسلام زندہ باد کانعرہ
لگاسکتے ہیں یہ بھی کہہ سکتے ہیں اسلام پائندہ باد۔دیگرمذاہب اورادیان مردہ
بادہیں ۔ویسے اگرکوئی ان مردہ مذاہب کوزندہ باد کہے توصرف دل کوخوش رکھنے
کاایک بہانہ ہے ورنہ دیگر باطل مذاہب اورادیان والے بھی جانتے ہیں کہ ان کے
مذاہب مردہ باد ہوچکے ہیں ۔اسلام کااحیاء اورزندہ بادہوناتبلیغ کی برکت
ہے۔حضورﷺ کے زمانہ سے اسلام کی تبلیغ شروع ہے ۔بیچ میں بعض بعض علاقوں میں
انقطاع بھی آیا لیکن کلی انقطاع نہیں آیا۔گزشتہ تقریباً اسّی سال سے
توتبلیغی جماعت کی شکل میں اس کی خوب تبلیغی خدمت ہورہی ہے۔دنیاکے ہر خطہ
میں مساجد بن گئیں،لوگ مسلمان ہورہے ہیں،اسلامی تعلیمی مراکز بن گئے ،دین
کی اصلی صورت اورسیرت والے دنیامیں پھیل گئے ۔لوگ اسلامی صورت اورسیرت
کودیکھ کراسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں اوردھڑاڈھڑ مسلمان ہوررہے ہیں ۔پوری
دنیاوالوں پرآہستہ آہستہ حجت قائم کررہے ہیں ۔میڈیااورانتہائی تیز ذرائع
آمدورفت اورنقل وحمل کے آسان اورتیز ذرائع کی وجہ سے مکان اورزمان کے فاصلے
ختم ہوگئے ہیں۔ایک دوسرے تک اپنااظہارمافی الضمیر بہت آسان اورممکن
ہوگیاہے۔دنیاکی ہرزبان مین اسلامی مبلغین ضرورکہیں نہ کہیں ملتے ہیں۔اس
دعوت وتبلیغ کے ذریعے اسلام کاپیغام آج تقریباًدنیاکے گوشے گوشے تک پہنچ
گیاہے۔
(۴)……جہاد:
جہاد کااصل مقصد توکسی کومسلمان بنانانہیں اس لیے کہ اسلام میں جزیہ کاحکم
موجودہے۔اگر کوئی کافراسلام قبول نہ کرے اورجزیہ پرآمادہ ہوتواس سے جزیہ
قبول کرناجائزہے۔یہ بھی اس کواسلام کی عملی زندگی دیکھنے کاایک موقع
دیاجاتاہے۔جہاد کااصل مقصدکفارکازوروشور،شان وشوکت اوربدمعاشی ختم
کرناہے۔اسلام کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کوختم کرنے کے لیے
جہاد کاراستہ ہے۔جہاد کے اپنے فضائل اورشرائط ہیں۔جہاد کی وجہ سے
گندااورفاسد مادہ ختم ہوجاتاہے جس طرح مریض کے آپریشن سے اس کے بدن سے
گندااور فاسد مادہ ختم کردیاجاتاہے اسی طرح جہاد کے ذریعہ دنیا سے شروفساد
ختم ہوجاتاہے۔دنیامیں دیگرمذاہب والے اپنے ملک اورقوم کی بقامیں جنگ زیادہ
لڑتے ہیں اورمذہب کے بقاکی جنگ کم لڑتے ہیں ۔مجموعی لحاظ سے اپنے مذہب
کادفاع کرتے ہیں وہ اس صورت میں کہ اپنے مذہب والوں کادفاع کریں ۔یہی وجہ
ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں سب ایک ہوجاتے ہیں ’’الکفرملۃ واحدۃ‘‘ویسے
توآپس میں بھی دلی اورفکری لحاظ سے ایک دوسرے سے جداہیں لیکن مسلمانوں سے
جنگ وجدل کاموقع آتاہے توایک دوسرے کاساتھ دیتے ہیں:
’’تحسبہم جمیعاًوقلوبھم شتّی‘‘۔
ترجمہ:توسمجھے وہ اکھٹے ہیں اور ان کے دل جداجداہورہے ہیں ۔
آج کفار کی تعداد زیادہ ہے ۔اسلحہ بھی ان کازیادہ پائیدار اورمضبوط ہے لیکن
پھربھی جہادسے گھبراتے ہیں اس لیے کہ کافرموت سے ڈرتاہے اورمسلمان موت
کوگلے لگاتاہے۔مسلمان سامنے آکرلڑتاہے اورکافرچھپ کرحملہ کرتاہے۔ارشادباری
ہے:
’’لایقاتلونکم جمیعاًالافی قری محصنۃاومن ورآء جدر‘‘۔
ترجمہ:لڑنہ سکیں گے تم سے سب مل کرمگربستیوں کے کوٹ میں یادیوار کے پیچھے
سے۔
دورسے میزائل پھینکنا،انتہائی بلندی سے بم پھینکنا،دورسے فائر کرناایساہی
ہے کہ گویاخودکو مضبوط قلعہ میں بندکرکے وارکرنا ۔جب آمنے سامنے کی لڑائی
سے گھبراتے اورڈرتے ہیں تو مسلمانوں کودوسرے طریقوں سے کمزورکرتے
ہیں۔مثلا:اقتصادی پابندی لگاتے ہیں،اپنے سیاسی نظاموں کومثلاجمہوریت
کوہراسلامی ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔مسلمانوں کے لیے سائنس
اورٹیکنالوجی پر اوراس کی تعلیم پر پابندی عائد کرتے ہیں۔کبھی ایٹمی پابندی
لگاتے ہیں کہ تم ایٹم بم نہ بناؤاس لیے کہ تم اس کی حفاظت نہیں کرسکتے ،غلط
ہاتھوں میں پہنچ جائے گا۔کبھی این،جی ،اوز کے ذریعے غریب مسلمانوں کومذہب
سے بیزارکرتے ہیں ،کبھی بنیاد پرستی کاالزام عائدکرتے ہیں،کبھی انتہاپسندی
کاطعنہ دیتے ہیں۔کبھی کہتے ہیں کہ مسلمان شدت پسند ہے اوراب تو دہشت گردی
کالیبل چسپاں کردیا۔زیادہ کوشش ان کی مذہب اورمذہبی لوگوں کوبدنام کرنے کی
ہے تاکہ اپنے مذہب کی طرف سے مسلمانوں کادل پھیکاپڑجائے ۔
سب سے خطرناک ہتھیارسیکولرازم کاہے۔خود کوبھی سیکولرکہتے ہیں ۔سیکولرازم
کامعنی ہے دنیاویت یعنی انسان کااصل کام دنیاتوآبادکرناہے رہی بات مذہب کی
تومذہب کی اول ضرورت نہیں اگرہے تواجتماعی نہیں بلکہ انفرادی ہے۔جس کوجس
طریقہ میں روحانی تسکین ملتی ہواس کونہ چھیڑو۔اپنا مذہب چھوڑو نہیں دوسرے
کوچھیڑونہیں ۔سیکولرازم کی یہ گندی ہواہرمسلمان کوکسی نہ کسی درجہ میں لگی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرآدمی دنیاوی دوڑمیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش
کررہاہے۔جتنی دنیاچاہیے تھی اس حد سے اکثر لوگ آگے نکل گئے قناعت ختم
ہوگئی۔اس کی چگہ حرص اوراسراف نے لے لی۔نتیجہ یہ نکلاکہ دنیاوی برتری کے
حصول کے لیے منفی اورغیراسلامی وسائل اورذرائع اپناناشروع کردیے:رشوت ،چوری
،ڈاکہ ،دھوکہ،اغوابرائے تاوان وغیرہ عام ہیں۔حلال حرام کی تمیز ختم ہوگئی
ہے۔الحاصل جہاد کااصل مقصد اسلام کادفاع ہے اور اس کے اثرات بڑے اچھے
،دیرپاا وربابرکت ہیں۔اختصاراً اسلام کی بقا،احیااورپھیلاؤ کے یہ چارطریقے
ذکرکردیے گئے۔کسی اورمذہب اوردین میں ایسے مؤثر اورمفیدطریقے نہیں ۔یہی وجہ
ہے کہ اسلام دن بدن غلبہ کی طرف جارہاہے ۔کفرکازور وشور مغلوبیت کی طرف
جارہاہے۔حجت اوردلیل کے لحاظ سے اسلام ہردورمیں غالب رہاہے۔اعمال کے لحاظ
سے مکمل دین زندہ ہے۔سلطنت اورحکومت کے لحاظ سے بھی بہت سی حکومتیں قائم
ہیں لیکن سرکاری اورحکومتی سطح پردین کوپوراغلبہ حاصل نہیں لیکن وجود
بہرحال ہے۔اصل سلطنت اورحکومت والا اسلامی غلبہ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول
کے بعد ہوگا۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جواس وقت اسلام کے غلبہ کی کسی نہ کسی مذکورہ یاسب
میدانوں میں کوشش کررہے ہیں۔تقریباہراسلامی ملک میں دینی جماعتیں حکومتی
سطح پر اسلام کے غلبہ کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن ان کی جدوجہد اپنے ہی
ملک تک محدود ہے ۔یہ بھی غنیمت ہے ۔ان تمام دینی سیاسی جماعتوں کوپوری
دنیامیں غلبہ اسلام کے بارے میں بھی سوچناچاہیے کیونکہ اسلامی سیاسی
جہدوجدکاسفر خلافت پرختم ہوتاہے لیکن مقصود خلافت وحکومت نہیں بلکہ موعود
ہے اوراس موعودتک رسائی کے بنیادی ذرائع ایمان اورعملِ صالح کااجرا،احیاء
اوربقا ہے ۔حکومت اورخلافت کے مل جانے کے بعد اس حکومت کواسلام کے احیاء
اوربقاکے مؤثر،قوی اورمفید آلہ کے طورپراستعمال کرناہوگا کیونکہ حکومت
بالذات مقصودنہیں بلکہ اصل مقصود ایمان اورعملِ صالح کااحیاء اورابقاء ہے
جس کوقیامت تک جاری رکھناہوگا۔ |