انتخابات سے قبل مسلمانوں کو متوجہ کرنے کیلئے کانگریس ہمیشہ کوئی نہ کوئی
حربہ اپناتی ہے، اکثر اس کی تدبیریں ناکام ہوگئیں ۔ رواں انتخابات میں اس
نے شاہی امام کو مہرے کے طور پر استعمال کیا ہے ،ابھی تک ان کی اپیل کا
کوئی اثر نظر نہیں آیا ہے ۔
سونیا گاندھی اور شاہی امام کی ملاقات کے بعد مسلمانوں سے کانگریس اور
ترنمول کانگریس کی حمایت کی اپیل پر صفحات کے صفحا ت سیاہ کئے جارہے ہیں۔
کوئی مولانابخاری کے اس اقدام کی حمایت کررہا ہے تو کوئی مخالفت لیکن راقم
الحروف کے مطالعہ کی حدتک اس موضوع سے متعلق اکثر مضامین میں مخالفت کی گئی
ہے ۔ اکا دکا نے حمایت کی بھی ہے تو بہت سنبھل سنبھل کر گول مول اندازمیں۔
اکثر تجزیہ نگاروں نے امام بخاری کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔حالانکہ قصور
وار کانگریس بھی ہے۔کیسے؟ آئندہ سطورمیں اسی سوال کا جواب جاننے کی کوشش
کی جائے گی ۔
کانگریس کے ذریعہ سچر کمیٹی کی تشکیل کا ایک بڑامقصد یہ تھا کہ اس کی
سفارشات کے نفاذ کا سبز باغ دکھا کر بھولے بھالے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرتے
رہیں گے لیکن دیر سے ہی سہی، ایک دومرتبہ فریب میں آنے کے بعد مسلمانوں کو
اپنی غلطی کا احساس ہوا اوروہ کانگریس سے دور ہونے لگے ۔ اس کا اندازہ
کانگریس کوبھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ یوپی اے کے دوسرے دور میں کانگریس کے
مسلم چہرے سلمان خورشید ،کے رحمان خان اور دیگر لیڈروں نے کئی مرتبہ سچر
کمیٹی کی سفارشات کے نافذ ہونے کا دعویٰ بھی کیاہے۔ انتخابی منشور میں بھی
بیشتر سفارشات پر عملدرآمد کا ذکرکیا گیا ہے۔مختصر الفاظ میں کانگریس نے
سچرکمیٹی کا جال مسلمانوں کیلئے تیار کیا تھا مگر معاملہ اس کے بر عکس
ہوگیا اور سچر کمیٹی کی سفارشات اس کے گلے کی ہڈی بن گئیں۔
کانگر یس کے حالیہ انتخابی منشور میں وہی گھسے پٹے وعدے ہیں جنہیں ایک
زمانے سے سنتے سنتے کان پک گئے ہیں اور طبیعت بے زار ہوگئی ہے۔اس کا بہرحال
امکان ہے کہ منشور کے اجراء کے بعد کانگریس نے مسلمانوں کو ٹٹولا ہوگا ، ان
کے نظر یات جاننے کی کوشش کی ہوگی ، مثبت نتائج سامنے نہ آنے کی صورت میں
اس نے روٹھے ہوئے مسلمانوںکو منانے کیلئے شاہی امام کومہرے کے طور پر
استعمال کیا ہو گا۔
شاہی امام نے جس انداز میں یوپی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی کے دربار
میںحاضری دی ، اس سے تو یہ بھی لگتا ہے کہ سماجوادی پارٹی سے ناراضگی کے
بعد وہ بے صبری سے منتظر تھے کہ کوئی ان کو منانے آئے لیکن جب انتظار کی
گھڑی طویل ہوگئی اورکسی نے ان کے دروازے پر دستک نہیں دی تو ان کو لگاکہ
وقت تیزی سے نکلتاجارہا ہے، انتخابات سرپر ہیں، بس اسی روا روی میں انہوں
نے سونیا گاندھی کاآ لۂ کار بننے کا فیصلہ کرلیا ۔ ویسے وہ جاتے بھی
توکہاں جاتے؟ کانگریس کے بعد دوسری بڑی جماعت بی جے پی نیز ایس پی اور بی
ایس پی کے دروازے تو ان کیلئے پہلے ہی بند تھے۔ اس زاویہ کو دیکھیں تو
کانگریس اور شاہی امام دونوں کو ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت تھی۔
احمد بخاری کوکانگریس کی حمایت راس آئے گی اور ان کے رشتہ داروں کا کوئی
فائدہ ہوگا یا نہیں لیکن اس سے ائمہ مساجد اور علمائے کرام کی مٹی ضرور
پلیدہوئی ہے ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ مبینہ طور پر اپنے کسی رشتہ دار
کے نظر انداز کئے جانے پرشاہی امام نے ایس پی سے علاحدگی اختیار کی تھی ۔
احمد بخار ی سے پہلے بھی کئی ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جن سے ائمہ اور
علماء سے مسلمانوں کااعتماد اٹھ گیا ۔ا ن کے دلوں میں ایسے مفاد پرست اور
ضمیر فروش ائمہ اور علماء کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔مظفر نگر فساد سے متعلق
کئی بیانات اس کی واضح مثالیں ہیں ۔
یاد کیجئے! ۱۷؍ستمبر۲۰۱۱ء کو مودی کے نام نہاداپواس کے موقع پرمودی کو گول
ٹوپی پہنانے کی کوشش کرنے والے احمد آباد کے سید امام شاہ تھے،تاہم مودی
کے ٹوپی پہننے سے انکارپریہ امام اپنا سامنہ لے کر رہ گئے ۔ بقول شخصے؎
قوم کیاچیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دورکعت کے امام
مذکورہ شعر میں شاہی امام اور ان جیسے دیگر ائمہ اور علماء کی ذہنیت کی سچی
ترجمانی کی گئی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیااحمد بخاری کی اپیل پر کانگریس اور ترنمول کانگریس
مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوںگی؟ ابھی تک تو ایساکچھ نظر نہیں
آرہاہے، مختلف مذہبی اورسماجی تنظیموں نے اس کی مخالفت کی ہے ۔ویسے بھی
کانگریس کی ماضی قریب کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ الیکشن سے ذرا پہلے مسلم
دہندگان کا اعتماد بحال کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے ۔اس کی ایک مثال
تو اترپردیش کے اسمبلی انتخابات سے پہلے مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا وعدہ
ہے جس کیلئے ا س وقت کے مرکزی قانون اور اقلیتی امور کے وزیر سلمان
خورشیدکو استعمال کیا گیا ۔ ان سے خوشنما بیانات دلوائےگئے۔اس دوران سلمان
خورشید نے کئی مرتبہ یقین دلایاکہ ان کی سرکار نے۲۷؍ فیصد دیگر پسماندہ
طبقات کے کوٹے میں سے مسلمانوں کو۸ء۴؍ فیصد ریزرویشن دینے کی تجویز پیش کی
ہے ۔ اس کے بعد کیا ہوا ، کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس وعدہ سے یوپی کے
مسلم رائے دہندگان پرکوئی فرق نہیں پڑا اور کانگریس کے ساتھ وہی ہوا ،
جوہونا تھا ،منہ کی کھانی پڑی۔ کانگریس کو اس بات کابھی اندازہ ہوگیاکہ
سلمان خورشید مسلمانوں میں کتنے مقبول ہیں ؟ غالباً اسی وجہ سے انہیں
وزیرقانون اور اقلیتی امورکے بجائے وزیر خارجہ بنادیا گیا۔
یوپی کے اسمبلی انتخابات سے پہلے دسمبر ۲۰۱۱ء میں راہل گاندھی نے ندوۃ
العلماء( لکھنؤ) اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدرمعتبر عالم دین
مولانا سید رابع حسنی ندوی سے بھی ملاقات کی تھی ۔ ان کے درمیان تقریباً
ایک گھنٹے تک گفتگو ہوئی تھی ،تاہم اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئی
تھیں۔بہرحال راہل گاندھی اور مولانا سید رابع حسنی نے کسی بھی موضوع پر
تبادلۂ خیال ہولیکن انتخابات سے قبل اس ملاقات کا مقصد مسلمانوں کا ووٹ
حاصل کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتا تھا ؟اس ملاقات کا بھی انتخابی نتائج پر
کوئی اثر نظر نہیں آیا ۔
گجرات کے اسمبلی انتخابات سے پہلے بھی ایسا ہی کچھ ہوا ، مسلم ووٹ حاصل
کرنے کیلئے سیدآصف ابراہیم کو آئی بی کاپہلا مسلم سربراہ بناکرمختلف
زاویوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ سید آصف ابراہیم کی تقرری
سچرکمیٹی کی سفارشات کےتحت کی گئی ہے۔ یعنی سید آصف ابراہیم اپنی محنت اور
تجربےکی بنیاد پر نہیں بلکہ کانگریس کے رحم و کرم سے آئی بی کے پہلے مسلم
صدر بنے ۔کانگریس کایہ اقدام بھی گجرات میں اس کی ڈوبتی نیا پار نہیں لگا
سکا۔
یہاں تو صرف ۳؍ مثالیں پیش کی گئی ہیں، الیکشن سے ذرا پہلے کانگریس نے
مسلمانوں کو لبھانے کی بارہا کوششیںکی ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا موقع
نہیں ہے ، تاہم ان میں سے اکثر تدبیریں ناکام ہوگئی ہیں ۔شاید یہی حشر شاہی
امام کی اپیل کا بھی ہوگا ۔ |