29فروری کو دوپہر ایک بجے دس
ہزار انتہا پسند ہندوؤں نے گلبرگ سوسائٹی کو گھیر لیا۔ تب تک وہاں شہر کے
دیگر مسلم خاندان بھی پناہ لے چکے تھے۔ سوسائٹی میں مشہور کانگریسی لیڈر
اور ذکیہ جعفری کے شوہر، احسان جعفری مقیم تھے۔ یہ علاقہ پولیس کے ہیڈ
کوارٹر سے صرف ڈیڑھ میل دور تھا۔ سو مسلمانوں کو یقین تھا کہ احسان جعفری
کے اثرورسوخ اور پولیس کی قربت کے باعث وہ گلبرگ سوسائٹی میں محفوظ رہیں
گے۔
لیکن ان بدنصیبوں کو علم نہ تھا کہ ریاست میں سیاہ و سفید کا مالک، وزیر
اعلیٰ نریندر مودی خود انتہا پسند ہندوؤں کو مسلمانوں کے خون سے ہولی
کھیلنے کی اِجازت دے چکا تھا۔ اس کا کہنا تھا: ”انھیں اپنا غصہ نکالنے دو۔“
سو فروری تا مارچ2002ء انتہا پسندوں نے گجراتی مسلمانوں پر ظلم و ستم کی
انتہا کر دی۔
ہزارہا مسلمانوں کے کاروبار تباہ کر دیے گئے۔ ان کی جمع پونجی لوٹ لی گئی۔
کم از کم دو ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ سب سے بڑھ کر گجراتی مسلمانوں کو جو
ذہنی صدمہ پہنچا، وہ اب تک اس سے نہیں نکل سکے۔ 2002ء کے مسلم کش فسادات نے
انھیں گجرات میں دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھ دیا…… ایسے شہری جو اب اتنی
ہمت بھی نہیں رکھتے کہ مظالم کے خلاف آواز اُٹھا سکیں اور یہی نریندر مودی
کی تمنا تھی۔
بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے استعارے، نریندر مودی کی داستان ِ حیات عیاں
کرتی ہے کہ اس نے ہزارہا مسلمانوں کا لہو بہا کر ہی اپنے سیاسی کیرئیر کی
بنیاد رکھی۔ پھر وہ نفرت کی سیاست کو پروان چڑھاتے خود بھی ترقی کرتا رہا،
یہاں تک کہ بھارت میں اُسے اگلا وزیر اعظم سمجھا جانے لگا۔ ممکن ہے کہ وہ
بقول بھارتیوں کے شاندار انتظامی صلاحیتوں کا مالک ہو، لیکن مودی کے ”جوہر“
اسی وقت کھلے جب وہ کٹر مسلم دشمن بن کے سامنے آیا۔
تیلی کے ہاں پیدائش
نریندر دامو درداس مودی 17اکتوبر 1950ء کو گجرات کے قدیم شہر، ودنگر میں
پیدا ہوا۔ اس کے ماں باپ گھانچی ذات سے تعلق رکھتے تھے جو شودر طبقے میں
شامل ہے۔ گجرات میں گھانچی تیل بیچنے کے پیشے سے منسلک ہیں۔ تاہم مودی کا
باپ، مول چند بڑا خاندان (چھے بچے) رکھتا تھا۔ سو گھریلو اخراجات پورے کرنے
کی خاطر اس نے ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ایک چائے خانہ بھی کھول رکھا تھا۔
مودی آٹھ سال کا تھا تو باپ کے چائے خانے میں اس کا ہاتھ بٹانے لگا۔ جب بھی
ریلوے اسٹیشن پر کوئی ریل رکتی، تو مودی چائے کی پیالیاں سنبھالتا اور ڈبوں
کی سِمت دوڑ جاتا۔
آٹھ سال کی عمر ہی میں مودی آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے مقامی
مرکز (سکھشا) میں جانے لگا۔ وہاں آر ایس ایس والے بچوں بڑوں کو ورزش کراتے
اور انتہا پسند ہندو نظریہ ”ہند توا“ ان کے اذہان میں ٹھوپختہ کرتے۔
مودی بے چین اور جذباتی لڑکا تھا۔ موصوف کی سب سے بڑی تمنا تھی کہ وہ ایسا
کچھ کرکے دکھائے کہ سبھی اس کی واہ وا کرنے لگیں۔ سو مودی تیرہ سال کا تھا
کہ کچھ بننے کی خاطر گھر سے نکل گیا۔ اگلے دو برس اس نے کہاں اور کس طرح
گزارے، یہ مودی کے سواکوئی نہیں جانتا۔ بہرحال وہ سنیاسیوں کی طرح آوارہ
گردی کرتا رہا۔
دو سال بعد مودی گھر واپس پلٹا۔ اب والدین چاہتے تھے کہ بچپن کی منگیتر،
جشودھا بہن سے اس کی شادی کر دی جائے۔ مگر مودی نے شادی کرنے سے انکار کر
دیا۔ جب والدین نے دباؤ ڈالا، تو وہ ان سے لڑ جھگڑ کے احمد آباد چلا گیا۔
احمد آبادمیں اس کا ماموں بس اسٹینڈ پر کینٹین چلاتا تھا۔ مودی نے چند ماہ
وہاں کام کیا۔ جب کچھ رقم جمع ہوئی، تو گیتا مندر کے نزدیک سائیکل پر اپنا
چائے خانہ چلانے لگا۔ وہاں پر ایک ہندو مرکز واقع تھا۔ مرکز کے کچھ پرچارک
(مبلغ) مودی کے اِسٹال سے چائے پینے لگے اور اس کے دوست بن گئے۔
ایک پرچارک مودی کو آر ایس ایس کے ریاستی ہیڈ کوارٹر، ہیڈ گوار بھون میں
بطور ملازم لے گیا۔ یوں تیز و طرار مودی کی زندگی کا نیا باب شروع ہوا۔
چرب زبانی کام آئی
ہیڈ گوار بھون میں 20سالہ مودی صبح سویرے اُٹھتا اور پندرہ سولہ آدمیوں کے
لیے چائے و ناشتا تیار کرتا۔ آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں چھوٹے بڑے
لیڈروں کا آنا جانا تھا۔ نوجوان مودی اپنی چرب زبانی کے باعث جلد ہی لیڈروں
کے قریب ہوگیا اور ان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
چناں چہ رفتہ رفتہ اُسے تنظیمی کام بھی دیے جانے لگے، مثلاً بسوں کی
ریزرویشن، خط کھولنا اور فائلیں مختلف دفاتر تک پہنچاتا۔ 1972ء میں مودی آر
ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر (ناگ پور) میں ایک ماہ زیرِ تربیت رہا۔ اس تربیت کے
بعد ہی مودی آر ایس ایس کا باقاعدہ پرچارک بن گیا۔
آر ایس ایس کی قیادت نے پھر اُسے ریاست گجرات میں اپنی طلبہ تنظیم، اخیل
بھارتیہ و دیارتھی پریشد کا مقامی سربراہ بنا دیا۔ اسی عہدے پر فائز ہونے
کے بعد مودی کی سرگرمیوں سے افشا ہوا کہ وہ حد درجے کا شوخی باز، انا پرست
اور جاہ طلب ہے۔
1947ء سے اب تک آر ایس ایس پر تین بار پابندی لگ چکی ہے۔ ہر بار حکومت نے
اُسے تشدد آمیز سرگرمیوں کا مرتکب قرار دیا۔ اسی باعث آر ایس ایس کے لیڈر
کھل کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے اور پسِ پردہ انتہا پسند ہندو
جماعتوں کی راہنمائی کرتے ہیں۔ مگر نریندر مودی نے اپنے آپ کو نمایاں کرنے
کے لیے یہ قاعدہ توڑ ڈالا۔
جارحانہ مزاج کا حامل
ایک بار 1975ء میں آر ایس ایس نے احمد آباد میں اندرا گاندھی کے خلاف
احتجاجی جلسہ منعقد کیا۔ حسبِ روایت جلسے میں آر ایس ایس کے راہنما منہوب و
ٹھنڈے لہجے میں حکومت پر تنقید کرنے لگے۔ اس دوران مودی وہاں آ پہنچا۔ اُسے
یہ دیکھ کر بڑا غصہ آیا کہ جلسے میں احتجاج کا نام و نشان نہیں۔ مودی نے
مائیک پکڑا اور حکومت کے خلاف شرانگیز تقریر کر ڈالی۔ عوام نے تو تقریر
پسند کی، مگر آر ایس ایس کے لیڈر بہت جزبز ہوئے۔ بعدازاں مودی کو جماعت کی
ڈسپلنری کمیٹی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
دراصل جارحیت اور طاقت دکھانا مودی کا مزاج ہے اور نوجوانی میں تو وہ غنڈہ
گردی کی حدتک پہنچا ہوا تھا۔ مگر مودی اپنے کام اتنی مہارت سے انجام دیتا
تھا کہ آر ایس ایس قیادت نے اس کی جارحانہ فطرت کو
نظر انداز کر دیا۔ لیڈر اُسے جو بھی کام دیتے، انھیں یقین ہوتا کہ وہ بروقت
مکمل ہوجائے گا۔
جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگائی، تو مودی نے بھیس بدل بدل کر مختلف
جماعتی کام انجام دیے۔ اسی نے خفیہ طور پر حکومت مخالف پوسٹر احمد آباد میں
چھپوا کر پورے بھارت میں بھجوائے۔ جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام بھی اس کے
سپرد کر دیا گیا۔ وہ بخوبی تقریبات کا انتظام کرکے بڑوں سے داد پاتا۔
تعلقات بنانے کے فن، انتظامی صلاحیتوں اور جارحانہ طبیعت کی وجہ سے نریندر
مودی آر ایس ایس میں ترقی کی سیڑھیاں چڑھتارہا۔ 1987ء میں اُسے آر ایس ایس
کا ریاستی تنظیمی (آرگنائزیشن) سیکرٹری بنایا گیا۔ یوں پہلی بار مودی نے
سیاسی طاقت کا مزہ بھی چکھا۔ ہر بھارتی ریاست میں آر ایس ایس کا تنظیمی
سیکرٹری ہی اپنے سیاسی بازو، بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے معاملات
دیکھتا ہے۔
یاد رہے، بی جے پی کے ریاستی و مرکزی صدر عوامی راہنما ہوتے ہیں۔ مگر آر
ایس ایس اور بی جے پی، دونوں کا تنظیمی سیکرٹری ایک ہی ہوتا ہے جو عوام سے
زیادہ تعلق نہیں رکھتا۔ وہ پسِ پشت رہ کر بی جے پی کے معاملات چلاتا اور
غیر سیاسی اور سیاسی بازوؤں کے مابین پُل کی حیثیت رکھتا ہے۔
مودی 1987ء تا 1995ء گجرات میں آر ایس ایس کا تنظیمی سیکرٹری رہا۔ سوئے
اتفاق انہی برسوں کے دوران بی جے پی بھارت کی بڑی سیاسی جماعت بن کر
اُبھری۔ گجرات میں بھی اس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ ڈالے۔ 1985ء میں وہ
ریاستی، اسمبلی میں صرف ”11“ نشستیں رکھتی تھی، 1995ء میں یہ تعداد ”121“
تک جا پہنچی۔ تب کیشوبھائی پٹیل اور شنکرسہنہ بی جے پی کے سینئر ترین
راہنما تھے۔ مگر 1995ء تک ریاست میں مودی بھی بحیثیت تیسری طاقت ابھر آیا۔
ترقی جاری رہی
انہی نو برسوں کے دوران گجرات میں تین ہندومسلم فساد ہوئے اور ہر بار زیادہ
تر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ نفرت اور انتقام کی یہ سیاست بی جے پی کے
لیے سودمند ثابت ہوئی۔ اس کے لیڈروں نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اُبھارا
اور ان کے ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔
قومی سطح پر ہندو ووٹ قبضے میں لینے کی خاطر بی جے پی نے تمام انتہا پسند
جماعتوں کے تعاون سے یاتراؤں، جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کیا۔ 1990ء میں
ایودھیا رتھ یاترا کے دوران ہی بابری مسجد شہید کر دی گئی۔ مودی نے مقامی
سطح پر رہتے ہوئے تمام یاتراؤں کی تیاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
تاہم طاقت اور اثرورسوخ پا کر مودی متکبر و خود رائے ہوگیا۔ اب وہ چاہتا
تھا کہ بی جے پی اس کی مرضی کے مطابق کام کرے، لیکن یہ استحقاق سینیئر
لیڈروں کا تھا۔ اسی باعث کیشو بھائی اور شنکر سہنہ، جاہ طلب مودی کو ناپسند
کرنے لگے۔
اسی دوران فروری 1995ء میں ریاستی انتخابات آ پہنچے۔ تب ووٹروں کا ریکارڈ
رکھنے، انتخابی مہم چلانے، ووٹرز کو لانے، لے جانے وغیرہ کے سلسلے میں بی
جے پی کم تجربہ رکھتی تھی۔ سو ریاستی انتخابات جیتنے کی خاطر تینوں لیڈروں
نے اپنے اختلافات پسِ پشت ڈالے اور مل کر کام کرنے لگے۔ انھوں نے ریاست میں
آر ایس ایس، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل وغیرہ کے ڈیڑھ لاکھ کارکن متحرک کر
دیے۔ ان کی سعی کامیاب رہی اور بی جے پی نے 121 نشستیں جیت لیں۔ کانگریس
صرف 45 حاصل کرسکی۔
سازشی ذہن کا مالک
یوں پہلی بار ریاست میں بی جے پی نے حکومت بنائی۔کیشوبھائی پٹیل وزیراعلیٰ
بنے۔ اب مودی وزیراعلیٰ کے آگے پیچھے پھرنے لگا۔ مودی شنکر سہنہ کے خلاف اس
کے کان بھرتا اور الزام لگاتا کہ وہ وزیراعلیٰ کے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔
مودی نے سازش کے تحت دونوں سینیئر لیڈروں کو باہم لڑا دیا۔
اواخر 1995ء میں شنکر سہنہ نے دھمکی دی کہ اگر اُسے وزیراعلیٰ نہ بنایا
گیا، تو وہ اپنے ساتھیوں (آدھے ارکان اسمبلی) کے ساتھ الگ ہوجائے گا۔
معاملہ اتنا بڑھا کہ اُسے سلجھانے کی خاطر اٹل بہاری واجپائی کو دہلی سے
احمد آباد آنا پڑا۔ تصفیہ یوں ہوا کہ تیسرا راہنما، سریش مہتہ وزیراعلیٰ بن
گیا۔ چونکہ اس لڑائی میں مودی کا بھی اہم کردار تھا، سو بطور سزا اُسے نئی
دہلی بھجوا دیا گیا۔
نئی دہلی میں مودی کو بی جے پی کا چھوٹا تنظیمی قومی سیکرٹری بنا کر اُسے
پنجاب، ہماچل پردیش، ہریانہ، چندی گڑھ اور جموں و کشمیر کی ریاستیں تفویض
کی گئیں۔ درحقیقت یہ سزا مودی کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوئی۔ کیونکہ بی جے
پی کے صدر دفتر میں اُسے قومی لیڈروں کا قرب نصیب ہوا اور وہ اپنا اثرورسوخ
بڑھانے میں کامیاب رہا۔ حتیٰ کہ 1998ء میں واجپائی وزیرِ اعظم منتخب ہوئے،
تو مودی کو بھی ترقی مل گئی۔ اس بار اُسے قومی سطح پر آر ایس ایس کا تنظیمی
سیکرٹری بنایا گیا۔ یوں اب وہ قومی سطح پر بی جے پی کے معاملات دیکھنے والا
اہم راہنما بھی بن بیٹھا۔
بھارتیہ جنتاپارٹی کی پچاس سالہ تاریخ میں اب تک صرف تین راہنما قومی
تنظیمی سیکرٹری بنے تھے۔ وہ تینوں میڈیا اور شہرت سے دور اور حسبِ روایت
پسِ پردہ رہ کر دونوں پارٹیوں کے معاملات سنبھالتے رہے تاہم شہرت کا رسیا
مودی بدعتی ثابت ہوا۔
گولی کا جواب بم سے
1998ء میں کارگل جنگ چھڑی، تو مودی نے پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز پریس
کانفرنسیں کیں اور اخبارات کو کئی انٹرویو دیے۔ ایک ٹی وی مباحثے میں مودی
نے اپنے مخصوص جنگجویانہ انداز میں کہا ”ہم پاکستانیوں کو چکن بریانی نہیں
کھلائیں گے، بلکہ گولی کا جواب بم سے دیں گے۔“
اس دوران گجرات میں حکومتیں ادلتی بدلتی رہیں۔ 1999ء میں کیشو بھائی پھر
وزیراعلیٰ بن گیا۔ تاہم اس کی قیادت میں بی جے پی دو ضمنی انتخابات ہار
گئی۔ اب مودی نئی دہلی میں شدومد سے یہ مہم چلانے لگا کہ اُسے ریاستی وزیر
اعلیٰ بنا دیا جائے۔ وہ جانتا تھا کہ گجرات میں اس کے ساتھیوں کی تعداد بہت
کم ہے…… بیشتر مقامی بی جے پی راہنما اُسے خود غرض، سازشی اور متکبر سمجھتے
تھے۔ لیکن مرکز اُسے وزیرِ اعلیٰ بنا کر بھیجتا، تو انھیں مجبوراً مودی کو
قبول کرنا پڑتا۔
سو نریندر مودی نے وزیرِ اعلیٰ بننے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
اُسے خصوصاً آر ایس ایس کے راہنماؤں سے بھرپور حمایت ملی…… وہ اس خیال سے
بہت خوش تھے کہ تنظیم کا ایک پرچارک پہلی بار وزیرِ اعلیٰ بننے جا رہا ہے۔
مودی کی کوششیں رنگ لائیں اور وزیرِاعظم واجپائی نے اُسے وزیرِاعلیٰ گجرات
مقرر کر دیا۔
وزیرِ اعلیٰ بننے کی تگ ودو
تاہم گجرات میں مودی بطور سازشی و فریبی لیڈر مشہور تھا۔ بی جے پی کے بیشتر
ارکان اسمبلی اُسے ناپسند کرتے تھے۔ انھیں رام کرنے کی خاطر ہی مودی کے
ساتھ بی جے پی کے دو اہم راہنما بھی گجرات پہنچے۔ کشو بھاہو ٹھاکرے بی جے
پی کا سابق صدر جبکہ مدن لال کھرانہ سینیئر لیڈر تھا۔ ان کی موجودگی کے
باعث ریاستی ارکان اسمبلی نے کڑوا گھونٹ بھرتے ہوئے مودی کو بحیثیت غیر
منتخب وزیرِ اعلیٰ تسلیم کر لیا۔
اب مودی کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ وہ کس حلقے سے انتخاب لڑے۔ سونے پر سہاگا
کوئی رکن اسمبلی اس کی خاطر اپنی نشست چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ مودی جس سے
بات کرتا، اُسے ٹکا سا جواب مل جاتا۔ آخر بڑی منت سماجت کے بعد وجو بھائی
والا، راج کوٹ سے اپنی سیٹ چھوڑنے پر تیار ہوا۔
مودی نے وہ نشست سخت مقابلے کے بعد جیتی۔ تاہم اس جیت نے 7اکتوبر2001ء کو
اُسے وزیرِاعلیٰ گجرات بنوا دیا۔ مگر اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔
بیشتر وزیر اُسے منہ نہ لگاتے اور خفیہ منصوبے بناتے کہ کسی طرح اُسے واپس
دہلی پہنچا دیں۔ انھیں یہ گھمنڈی اور آمر وزیرِ اعلیٰ ایک آنکھ نہ بھاتا۔
اس سمے یہی نظر آتا تھا کہ ریاست میں مودی کی دال نہیں گلنے والی…… چناں چہ
سیاسی پنڈتوں کا یہی خیال تھا کہ یہ موقع پرست رہنما بھی سیکڑوں ”حادثاتی“
وزرائے اعلیٰ کے مانند چند ماہ گزار کر منظرِ عام سے غائب ہو جائے گا۔
حالات اسی سِمت جا رہے تھے کہ 27 فروری 2002ء کو سبرمتی ایکسپریس کا حادثہ
پیش آگیا۔ بعدازاں جو خوفناک مسلم کش فسادات ہوئے، انھوں نے مودی کی تقدیر
بھی بدل ڈالی۔
نئی زندگی کا آغاز
بھارت کے دانش ور و صحافی، نیلنجان مکھوپا دائے (Nilanjan
Mukhopadhyay)ہندو انتہا پسندی پہ اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے پچھلے
سال نریندر مودی کی سوانح حیات ”Narendra Modi The man, the Times“ قلم بند
کی تھی۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ مودی کی زندگی دو حصوں پر مشتمل ہے……
فسادات2002ئسے قبل کی اور اس کے بعد والی!
گویا مسلمانوں کا قتلِ عام مودی کی زندگی میں انقلاب لے آیا۔ اس سے پہلے
مودی کوئی شناخت نہیں رکھتا تھا۔ وہ ان برہمن لیڈروں میں شامل نہیں تھا
جنھوں نے بابری مسجد شہید کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ نیز اس کا شمار
متوسط و نچلے طبقوں کے اہم لیڈروں مثلاً سوسُشما سوراج، کلیان سنگھ اور
اوما بھارتی میں بھی نہیں ہوتا تھا۔
لیکن فسادات 2002ء نے نریندر مودی کو ایسی اچھوتی شناخت دے ڈالی جو کسی بی
جے پی راہنما کو حاصل نہ تھی۔ سیکڑوں مسلمانوں کو شہید کرکے اور انھیں
”سبق“ سکھا کر وہ ہندو عوام کا لیڈر بن گیا۔ مکھو پادائے لکھتے ہیں ”مودی
کی زندگی سے یہ فسادات 2002ء نکال دیں، تو وہ عام سا سیاست داں بن جاتا
ہے۔“
گجراتی مسلمانوں کی بدقسمتی کہ اسی زمانے میں بین الاقوامی سطح پر اسلام
مخالف ماحول بن چکا تھا۔
واقعہ
گیارہ ستمبر کے بعد امریکا نے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ چھیڑ دی جو دراصل
مسلم مجاہدین کے خلاف تھی۔ اس جنگ سے ہندو انتہا پسندوں نے بھرپور فائدہ
اُٹھایا جو پہلے ہی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سرگرمِ عمل تھے۔ انہی میں
آر ایس ایس کا پرچارک نریندر مودی بھی شامل تھا۔
پولیس غنڈوں کو نہ روکے
ایک حادثے کو دہشت گردی کا روپ دے کر مودی نے گجراتی مسلمانوں پر قیامت ڈھا
دی۔ وہ ہندو غنڈوں کا سرغنہ بن بیٹھا اور انھیں کھلی چھوٹ دی کہ وہ
مسلمانوں کے ساتھ جیسا مرضی بھیانک سلوک کرڈالیں۔ اس وقت کا ڈپٹی کمشنر
(انٹیلی جنس) سنجیوبھٹ راوی ہے: ”28فروری کو وزیرِ اعلیٰ مودی نے سیکیورٹی
افسروں کی میٹنگ بلائی۔ اسی میں وزیرِ اعلیٰ نے حکم دیا کہ پولیس ہندو
بلوائیوں کی راہ نہ روکے، تاکہ وہ اپنا غصہ نکال سکیں۔“
ہندو غنڈوں نے جس خوفناک طریقے سے مسلمانوں پر اپنا غصہ نکالا، اس کی ایک
مثال پیش ہے۔ دوپہر دو بجے تک ہندو بلوائی احسان جعفری کے گھر داخل ہوگئے۔
انھوں نے جعفری کو پکڑا، برہنہ کیا اور کچھ عرصہ سڑک پہ انھیں پریڈ کراتے
رہے۔ اس کے بعد ہندوانہ نعروں کی گونج میں پہلے جعفری صاحب کی انگلیاں کاٹی
گئیں۔ پھر بازو اور پھر سر کاٹ کے شہید کر دیا۔ اور پھر ان کی لاش الاؤ میں
پھینکی گئی۔
گلبرگ سوسائٹی میں موجود کئی مرد و زن بھی آگ میں جل کر خاکستر ہوگئے۔
مسلمانوں کے ساتھ یہی بہیمانہ سلوک ریاست کے دیگر مقامات پر بھی ہوا۔
گجرات کے مسلم کش فسادات پہلی مرتبہ ٹی وی نیٹ ورکس کے ذریعے پورے بھارت
میں دیکھے گئے۔ سبھی اعتدال پسند ہندوؤں نے قتل و غارت اور جلاؤ گھیراؤ کے
بھیانک واقعات کی مذمت کی۔ انھوں نے بی جے پی میں بھی پھوٹ ڈلوا دی۔ جماعت
کے اعتدال پسند لیڈروں کو یقین تھاکہ یہ سانحہ لبرل ہندوؤں کو بی جے پی سے
دور کر دے گا۔ مگر انتہا پسند لیڈروں نے مودی کی مکمل حمایت کرنے کا فیصلہ
کیا۔
انتہا پسند ہندوؤں کی جیت
اعتدال پسند راہنما وزیراعظم واجپائی کی سرکردگی میں اکٹھے ہوئے۔ تب تک
مودی اور واجپائی میں اختلافات جنم لے چکے تھے۔ مودی کو واجپائی کا مہذب
انداز، شاعری سے رغبت اور امن پسندی نہ بھاتی۔ جبکہ واجپائی کے نزدیک مودی
جہالت و اکھڑپن کے زیادہ قریب تھا۔
اُدھر بی جے پی کے اہم راہنما…… کرشن لال ایڈوانی، بال ٹھاکرے اور موہن
جیٹلی مودی کی حمایت کرنے لگے۔ اعتدال پسندوں کو سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ
اتحادی جماعتیں بطور احتجاج بی جے پی کی مخلوط حکومت سے علیحدہ ہوجائیں گی۔
مگر جنتا دل، ڈی ایم کے، تلیگو دیشم پارٹی اور ترینمول کانگریس سمیت کسی
پارٹی کو بھارتی مسلمانوں سے ہمدردی نہ تھی۔ اسی باعث اعتدال پسند ہندو
راہنما بھی ٹھنڈے پڑ گئے۔ حتیٰ کہ واجپائی بھی انتہا پسندوں کی زبان بولنے
لگے۔ 12اپریل 2002ء کو انھوں نے بی جے پی کی ایگزیکٹو کونسل سے خطاب کرتے
ہوئے کہا:
”انڈونیشا، ملائیشیا، جہاں کہیں بھی مسلمان مقیم ہیں، وہ افہام و تفہیم سے
نہیں رہنا چاہتے۔ وہ دوسرے سے نہیں ملتے جلتے اور نہ امن پسند ہیں۔ سو ہمیں
سیکولر پسندی کے سبق پڑھانے کی ضرورت نہیں، ہندوستان مسلمانوں اور عیسائیوں
کی آمد سے قبل بھی سیکولر تھا۔“
اس دن کے بعد سے واجپائی بھی مودی کے زیرِاثر آگئے۔ حتیٰ کہ دسمبر 2002ء
میں بہ موقع انتخابات مودی نے انھیں گجرات بلوایا، تو وزیرِ اعظم تمام
مصروفیت چھوڑ کر وہاں گئے۔ انھوں نے دورانِ راہ جہاز میں سوار ساتھیوں کو
بتایا: ”یہ سوچ کر میرا دل تیزی سے دھڑک رہا ہے کہ جلسوں میں مودی نجانے
کیسی احمقانہ باتیں کہہ ڈالے گا۔“
مخالف راہ سے ہٹائے گئے
مسلم کشی نے مودی کو گجرات میں اتنا طاقت ور بنا دیا کہ وہ جماعت میں موجود
اپنے مخالفوں سے ٹکر لے سکے۔ ان میں سنجے جوشی، ہرین پانڈے اور گردھان
زادفیا نمایاں تھے۔ مودی کی حکومت میں بطور وزیرِ خزانہ کام کرنے والا ہرین
پانڈے 2003ء میں پُراسرار حالات میں قتل ہوا۔ سنجے جوشی بی جے پی کا جنرل
سیکرٹری تھا۔ جب اس کی برہنہ عورتوں کے ساتھ تصاویر سامنے آئیں (جو بعدازاں
جعلی نکلیں) تو اُسے استعفیٰ دینا پڑا۔
گردھان زادفیا مودی حکومت میں وزیر مملکت تھے۔ انھیں بھی اواخر 2002ء میں
دھتا بتا دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں: ”مودی صرف ایک حرف تہجی سے واقف ہے اور وہ
ہے: 1(میں)۔ مودی نے مجھے بھی دھمکی دی کہ اگر میں اس کے خلاف بولتا رہا،
تو…… ”گردھن بھائی، ختم ہو جاؤ گے۔“
بی جے پی میں مخالفین کو مٹانے کے بعد مودی وقتاً فوقتاً گجرات کی پولیس سے
مسلمانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کراتا رہا۔ یہ مسلمان بعدازاں دہشت گرد
اور آئی ایس آئی یا لشکر طیبہ کے ایجنٹ قرار پاتے۔
اسی دوران مودی کوبہترین منتظم اور کاروبار دوست وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے
نمایاں کیا گیا۔ حالانکہ یہ کارنامہ منصوبہ بند تشہیر کا نتیجہ تھا۔ (اسی
بابت منسلک باکس:”گجرات…… کیا واقعی وہاں ترقی ہوئی؟“ میں مزید پڑھیے)۔
اورہندو نواز میڈیا نے مودی کی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔
آر کے رگھوان ہندو قوم پرستی کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا۔ اسی باعث 1999ء
میں بی جے پی برسر اقتدار آئی، تو اُسے سی بی آئی کا چیف بنا دیا گیا۔ حیرت
ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے تفتیشی ٹیم کا سربراہ ایسے
سرکاری افسر کو بنایا جو قاتلوں سے قربت رکھتا تھا۔
یہ شناسائی رنگ لائی۔ ایس آئی ٹی نے ذکیہ جعفری کیس کے سلسلے میں اپریل
2010ء اور فروری 2012ء میں دو رپورٹیں پیش کیں اور دونوں رپورٹوں میں مودی
کو بے گناہ قرار دیا گیا۔
مئی2011ء میں سپریم کورٹ نے ایک نیک نام وکیل، راجو رام چندرن کی خدمات
حاصل کیں۔ انھیں ایس آئی ٹی کی پہلی رپورٹ پڑھنے کو دی اور کہا کہ وہ گجرات
جا کر اپنے طور پر تحقیق کریں۔ راجو رام ایک ماہ تک گجرات میں مقیم رہے۔
انھوں نے کئی ملزموں، سرکاری افسروں اور گواہوں سے ملاقاتیں کیں اور جولائی
میں اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کر دی۔ انھوں نے قرار دیا:
”اس امر کے ثبوت موجود ہیں کہ نریندر مودی نے مسلمانوں کے قتلِ عام میں حصہ
لیا۔ چناں چہ ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔“
مگربھارتی سپریم کورٹ نے دوبارہ انصاف کا خون کرتے ہوئے اِس رپورٹ پر دھیان
نہ دیا۔ بلکہ ایس آئی ٹی کی رپورٹوں کو سچ جانا،حالانکہ وہ واضح طور پر
مودی کے حق میں تھیں۔ سو فروری 2012ء میں کورٹ نے مودی کو بے گناہ قرار دے
ڈالا۔مودی کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو اس کا حاکمانہ و آمرانہ مزاج ہے۔
اس کے ساتھیوں اور دوستوں، سبھی کا کہنا ہے کہ وہ کسی کی نہیں سنتا۔ چناں
چہ نریندر مودی وزیرِ اعظم بننے میں کامیاب رہا، تو عین ممکن ہے کہ وہ تمام
جمہوری روایات کو روندتے ہوئے من مانی کرتا رچلا جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ہندو باشندے خصوصاً صنعت کار
و تاجر ایسا ہی مطلق العنان حکمران چاہتے ہیں؟…… ایسا حاکم جو جائز و
ناجائز ہر طریق اختیار کرتے ہوئے بھارت کو بام عروج پر لے جائے۔ یہ دور
جدید کی عجب ستم ظریفی ہے!
ہر گدھے کی پکار
مودی سرکار مودی سرکار |