کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جب کسی
قوم کے ساتھ بہت عرصہ تک جھوٹ بولا جائے تو پھر اگر اس قوم میں کوئی سچ کی
آواز اٹھائے تو اسے غدار کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ پاکستان پر یہ مثال ہو بہو
صادق آتی ہے۔ پہلے تو ہم مذہبی ملاؤں کو کفر اور غداری کے سرٹیفیکٹ تقسیم
کرتے دیکھتے تھے لیکن اب پاکستان کے سوشل اور الیکڑانک میڈیا نے ملاؤں کو
بھی مات دے دی ہے۔
حامد میر پر ہونے والے بزدلانہ اور سفاکانہ حملے کے بعد ایک لامتناہی بحث
کا آغاز ہو گیا ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے مفاد کو لیے میدان میں کود پڑا
ہے۔ اس میں سب سے زیادہ نیگٹو کردار خود الیکڑانک میڈیا کا ہے۔ میری نظر
میں جیو ٹی وی پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں جدت لانے کا بانی ہے۔ اس کا
میعار، کوریچ، اور پاکستان کے لیے اس کی خدمات میری نظر میں شاندار ہیں۔
خاص طور پر میں جیو ٹی وی کی تعلیم کے فروغ کے لیے کی جانی والی کوششوں کا
فین ہوں۔ جس میں ا،ب پر یقین رکھنا، برقع ایونجر اور چل پڑھا جیسے پروگرام
قابل ذکر ہیں۔ لیکن حامد میر پر حملے کے بعد جیو ٹی وی کی طرف سے ہونے والی
بعض غلطیوں کو دیگر میڈیا ہاوسز اور چینلز نے اپنے مفادات کے لیے استعمال
کرنا شروع کردیا۔ وہ سب جیو ٹی وی کو اصل میدان میں تو کبھی مات نہیں دے
سکے چنانچہ وہ ہاتھ دھو کر جیو ٹی وی کو غدار قرار دینے اور عوام میں جیو
ٹی وی کے خلاف نفرت کو ہوا دینے پر تُل گئے کہ شاید اس طرح ان کی ریٹنگ بڑھ
جائے۔
جیو کے ایک فین ہونے کی حیثیت سے میں باقی کسی بھی چینل کی نسبت جیو سب سے
زیادہ دیکھتا ہوں اور مجھے تو آج تک اس میں غداری یا پاکستان کی مخالفت کی
کوئی بات نظر نہیں آئی۔ کوئی سوال اٹھانے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ غدار
ہو بلکہ میری نظر میں اصل محب وطن لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنے ملک کے مفاد کے
لیے سوال اٹھاتے ہیں۔ حامد میر کیا اس لیے غدار ہے کہ لاپتہ ہوجانے والے
افراد کے لیے آواز اٹھاتا ہے؟ اگر تھوڑی سی سمجھ استعمال کرتے ہوئے سوچا
جائے تو یہ ملک کی ایک بہت بڑی خدمت ہے۔ کیونکہ اگر کوئی کسی شخص کی
گرفتاری ظاہر کیے بغیر اسے اٹھا لیا جائے اور پھر اس کی لاش ملے تو اگر وہ
غدار نہیں بھی تھا تو کیا اس کا باقی سارا خاندان ملک سے متنفر نہیں ہو
جائے گا؟ انھیں غدرا ہونے سے کون بچائے گا؟ اور اگر آپ کے خیال میں یہ اس
مسئلے کا حل ہے تو آپ کتنے لوگوں کو اٹھاؤ گے؟
میرے خیال میں ہمارے ملک کی ترقی کا راز صرف اور صرف قانون کی حکمرانی میں
ہے۔ قانون سے بالاتر کوئی شخص یا ادارہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح میڈیا کو
بھی اپنی حدور مقرر کرنی چاہیے کہ کن حدود کو کراس نہیں کرنا۔ لیکن سچ کے
لیے ہمیشہ آواز اٹھاتے رہنا چاہیے۔ اور ہمیشہ سچ کا ہی ساتھ دینا چاہیے
چاہے وہ کتنا کڑوا ہی کیوں نہ ہو۔ سو میری آواز حامد میر کے ساتھ ہے اور
جیو کے ساتھ بھی اگر وہ کچھ معاملات میں اپنی حدور متعین کرلے۔ |