ادارے، اداروں کے خلاف انتقامی
کارروائیوں سے اجتناب کریں ...کہوکہ سب محبِ وطن ہیں کوئی وہ....... نہیں
ہے۔؟؟
آج مُلک کے سب سے بڑے میڈیا جیونیوز کے اینکرپرسن و سینئرصحافی حامد میر پر
ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد جیونیوز نے مُلک کے انتہائی احساس ادارے ا ٓئی
ایس آئی اور اِس کے سربراہ کی تصویرلگاکر جس طرح احساس ادارے پر الزامات کی
پھونچاڑ کی اور ادارے کے سربراہ کو بغیر کسی ثبوت کے مجرم بناکر پیش کیا آج
جیونیوز کی اِس غیر ذمہ دارانہ صحافتی حرکت پر ہرپاکستانی جو دنیا کے کسی
بھی خطے میں بستہ ہے وہ جیونیوز کی اِس حرکت کی پُرزورمذمت کرتاہے اور ساتھ
ہی یہ اپیل بھی کرتاہے کہ جو ہواسو ہوامگر موجودہ حالات میں ضرورت صرف اِس
امر کی ہے کہ جیونیوز سمیت مُلک کے تمام اداروں کو جذبات کے بجائے
عفوودرگزرسے کام لیناہوگااور ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی ایسے تماشے،
ڈرامے اور سازش کا حصہ بننے سے بھی اجتناب کرناہوگاجس کی سازش اغیار نے
تیار کی ہے آج مُلک کے تمام اداروں کو وقت و حالات کے تناظر میں ٹھنڈ ے دل
سے اِس نقطے کو مدِنظررکھنا ہوگااور دُشمن کی ہر سازش کو ناکام بنانے کے
لئے افہام و تفہیم کا راستہ اختیارکرناہوگاکہ موجودہ حالات میں کسی ادارے
کی کسی ادارے کے خلاف کی جانے والی انتقامی کارروائی مُلک میں نئے بحرانوں
کو جنم دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے جس سے مُلک کو سوائے نقصان کے کسی
کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گااور ہم اغیارکی سازشوں کے بچھائے گئے جال میںخود ہی
پھنستے چلے جائیں گے اوربالآخرپھر آپس ہی میں لڑتے لڑتے کمزورسے
کمزورترہوکر دُشمن کے لئے ترنوالہ ثابت ہوجائیں گے اُمید ہے کہ جیونیوزسمیت
مُلک کے تمام ادارے اِس جانب سنجیدگی سے غوروخوص کے بعد اپنا کوئی مثبت
لائحہ عمل اختیارکریں گے اور مُلک میں اداروں کے درمیان تناؤکی سی پیداصورت
حال کو ختم کرنے میں اپنااپنا مثبت کردار اداکریں گے۔
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ وقت نکل جاتاہے مگر بات رہ جاتی ہے،پچھلے دِنوں
ایساہی کچھ ہمارے یہاں اُس وقت ہواہے،جب حامدمیر پر قاتلانہ حملہ ہوااور
پھر آ ج مجھ جیسے صحافت و سیاست کے طالب علموں اور بہت سوں کے دماغ میںیہ
بات اچھی طرح سے بیٹھ گئی ہے کہ واقعی ” وقت نکل جاتا ہے مگر بات رہ جاتی
ہے“ وہ وقت بھی بلکل ایساہی تھاجو نکل توضرور گیا مگروہ لمحہ نکلتے نکلتے
اپنے پیچھے بہت سے سوالات اورجیونیوز کی جانب سے کہی ہوئیں ایسی بہت سی
باتیں ضرورچھوڑگیا آج جو پاکستانی قوم اور اداروں کے لئے ایک چیلنج بن گئی
ہیں یہ وہ باتیں ہیں جو گزشتہ ہفتے 19مارچ کی شام سواپانچ بجے کے قریب
کراچی ائیرپورٹ سے براستہ سڑک جیونیوز کے آفس جاتے ہوئے مُلک کے معروف
سینئر صحافی تجزیہ نگار اور اینکرپرسن حامد میر کے ساتھ شاہراہِ فیصل پر
پیش آئے قاتلانہ حملے ( جس میں اِنہیں اطلاعات کے مطابق چھ گولیاں لگیں) کے
واقعہ کے بعد حامد میر کے بھائی عامر میر اور اہل خانہ کے حوالے سے حامدمیر
کی وصیت کے مطابق اِن پر کئے گئے قاتلانہ حملوں کا ذمہ دار آئی ایس آئی کے
سربراہ کو ٹھیرادیاگیااور پھر مُلک کے سب سے بڑے میڈیا چینل جیو نیو ز سے
مُلک کے سب سے بڑے اور قابلِ احترام ادارے آئی ایس آئی اور اِس کے سربراہ
کی تصوہرلگا کرمسلسل کردارکشی شروع کردی گئی آج یوں جیونیوز کے اِس غیر ذمہ
دارانہ صحافتی انداز نے مُلک کے اہم و احساس ترین اداروں سمیت مُلکی
ایوانوں اور عوام میں بھی ہلچل پیداکردی ہے جیونیوز کی اِس غیرذمہ دارانہ
حرکت کی ساری پاکستانی قوم پُرزورمذمت کرتی ہے۔
آج مُلک کے سب سے بڑے میڈیاجیونیوزاور جنگ گروپ نے جو مُلک کے سب سے اہم و
احساس ادارے اور اِس کے سربراہ کی کردارکشی کرکے جو غیرذمہ دارانہ صحافتی
رویہ اپنایاہے یہ یقینا ہماری مُلکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کھلم کھلا ہواہے،
یقینایہ عمل بھی ہماری قوم اور سول و ملٹری اداروں کی تربیت اور برداشت کے
حوالے سے اہمیت کا بھی حامل ہے مگر ایک ایسے وقت میں کہ جب ہر قسم کے
اداروں سمیت ساری قوم تجرباتی اور تربیتی جمہوری عمل سے گزررہی ہے، ایسے
میں کسی کو نہ بڑااور نہ کسی کو جھوٹاتصورکرناچاہئے کہیں ایسانہ ہو کہ ہم
اِس چکرمیں پڑکر ہی اپنی اصلاح اور تربیت کا عمل ہی بھولابیٹھیں اور اپنے
اپنے جذبات کے ہاتھوں مجبور ہوکراُس ڈگرپر جانکلیں جہاں ہمارے دُشمن ہمیں
کب سے ہانکناچاہ رہے ہیں ،آج ہمیں دست وگریبان ہونے سے قبل یہ
ضرورسوچناچاہئے کہ ہم ایساکیوں کہہ رہے ہیں کہ میں تو محب وطن ہوں مگر وہ....ہے؟؟ایسے
میں ہمیں چاہیئے کہ ہم موجودہ حالات میں کسی سے متعلق کوئی منفی رائے قائم
کرنے سے پہلے اپنااحتساب ضرورکرلیں کہ ہم خود کتنے پانی میں ہیں ...؟اوراَب
تک ہم نے اپنے مُلک اور اپنی قوم کے لئے کیا اچھاکیا ہے کہ جس پہ ہم یہ کہہ
سکیں کہ ایک ہم ہی محب وطن ہیں اور فلاں....ہے.
تو بس...!۱ یا رسب اپنی اپنی حدوں میں رہیں صحافی حضرات یہ نہ سمجھیں کہ وہ
جو کچھ کہہ رہے ہیں یا دکھارہے ہیںو ہ سب کا سب سچ ہے،یوں اِن سے زیادہ
کوئی نہ تو سچ بولتاہے ، نہ دکھاتاہے، اور نہ ہی سچ پڑھتاہے ،اور نہ ہی سچ
سمجھتاہے صرف صحافی اور صحافتی ادارے ہی دراصل حق و سچ کے اصل علمبردارہیں،
سچ و حق کے حوالے سے مُلک کے باقی اداروں اوراِن کی کارکردگی پر سوالیہ
نشان ہے،اَب ایسابھی نہیں ہے کہ باقی ادارے سچے اور کھرے نہیں ہیں اور حق و
سچ کے علمبردار نہیں ہے اگرایسانہیں ہوتاتو شاید مُلک میں نظام پوری طرح سے
تباہ ہوچکاہوتااور بُری طرح معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوگیاہوتا...مُلک
میں صحافیوں سمیت کسی کو بھی جائے پناہ نہیں ملتی ...سوچواگرواقعی
ایساہوگیاہوتاتوکیا صحافی حق و سچ کے علمبرداررہتے ...؟قطعاََ نہیں ...توپھر
ہمارے صحافتی ادارے ایسی کسی بھی خوش فہمی میں مبتلانہ رہیں کہ مُلک اِن کے
ہی سچ اور دکھائے ہوئے حق کے بدولت چل رہاہے،بلکہ اِنہیں یہ بات کھلے دل دے
مان لینی چاہئے کہ اللہ اور اِس کے رسول ﷺ کے بعد سرزمین پاکستان پر کوئی
اور بھی ہے جو مثبت راہ پریکدم ٹھیک طریقے سے مُلک کو چلارہاہے اور
حکمرانوں کے کارخانے اُمورمملکت کوچلانے میں معاونت کررہاہے اوریہ کام
ہمارے سیکورٹی احساس ترین ادارے اور انجام دے رہے ہیں ورنہ کوئی اپنے
کارخانے حکومت کو چلاکرتو دکھائے یوں میرے مُلک میں صحافتی اداروں اور
مُلکی سیکورٹی پر معمورفورسزاور احساس ترین اداروں کے تعاون سے مُلک قائم
ہے اور ترقی کی جانب گامزن ہے تو پھر بھائی آپس میں دست وگریبان ہونے اور
ایک دوسرے کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی کرنے سے بہتر ہے کہ
عفوودرگزر سے ہی کام لیاجائے اور اپنے اندرموجوداُن کالی بھیڑوںکا پتہ
لگاکر جلدقلع قمع کیاجائے جو اداروں کوبدنام کرنے اور اِنہیں کمزورکرنے کا
کام کررہے ہیں۔ |