تدّبر اور تفکرِ معلیٰ کے مقام تک پہنچنے
کے لیے تعمیر کے تلخ اور تیکھے راستے سے گزرنا پڑتا ہے جو تخریب خواہش
اورتحقیرنفس کی طویل مشق سے تعبیر پا تا ہے ۔ تفخر تکبر کا زینہ ہے اور
تکبر دوزخ کی سیڑھی ہے کیونکہ بلاشبہ کو ئی بھی متکبر خلد کے باغوں کی
بہاروں سے محضوظ نہ ہو پا ئے گا ۔ غرور احمقوں اور توحید کے منافقوں اور
منکروں کی روش ہے اور منکر تکبر کے جس راستے پر چلتا ہے اُس راہ کی کوئی
بھی منزل تدبر اور شعور کی متانت اور عمدگی تک نہیں جاتی ۔
تجربہ ایک تلخ اور بہترین اُستاد ہے جو ہمیشہ عملی تربیت اور بے مثال تعلیم
سے اُن انسانوں میں ایسا نکھار پیدا کردیتا ہے جیسا تپانے کے بعد سونارا
سونے میں ،جو عُجز اور ہوش سے دانش کے زانوے تلمذ ہو جا تے ہیں ۔ زندہ قوم
میں تدبر اور تفکر کی بہتات اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ زمانے میں ہر میدان ِ
علم وعمل میں آگے ہوتے ہیں بلکہ تدبر اور تفکر اُن کے یہاں اس لیے پایا
جاتا ہے کیونکہ وہ مساوات اور انصاف کے ساتھ ساتھ عُجز کو اپنا شعار سمجھتے
ہیں ۔ وہ آزادی سے مراد بے کراں ہونا نہیں بلکہ اپنی حدود کا خود تعین
کرلینا لیتے ہیں۔
تدبر کی معشوق تقویٰ بھی ہے اور تقویٰ صرف تدبر کو ہی پسند نہیں بلکہ ہر
صاحب حکمت اور ہر صاحب عمل نہ صر ف یہ احباب بلکہ خود خدا اسے پسند کرتا ہے
۔ تعمیر کے عمل میں تخریب کے بار بار عمل سے پیدا ہونے والے شگاف اور خلا
کوتقوی ٰ اور رجعت سے پُر کرتے ہیں ۔ تخریب ِ نفس و چاہت ِ قلبِ بے قرار کی
مسماری اور دل آزاری سے جو تلخیاں دامن گیر ہوتی ہیں وہ اُمید اور آس کے
باعث ہی رفع ہوتی ہیں ۔
زندگی کے اختصار سے لاریب کو ئی بھی نہ واقف و بے خبر نہیں ۔ حیات تو کٹ ہی
جانی ہے، رو کے ،دھوکے ،جاگ کے ،سو کے ، بے خبری میں یا با خبری میں عیش
ونشاط میں یا یاس و پیاس میں مگر علم و حکمت اور تدبر کی چاہ زندگی کو
جاوداں بھی کرجاتی ہے اور ناکامی سے سہارے لیتے ہوئے کامیابی کی آس کو
سینے سے لگائے منزل کی طرف گامزن بھی رکھتی ہے ۔
وقت کی تیزی اور تلخی تعلیم ، برداشت اور تفکر وتدبر کا تقاضا آج کادور
میں جس قدر کررہا ہے شاید ہی اس سے قبل کسی اور دور میں اس کی ضرورت اتنی
شدت سے رہی ہو ۔ وسائل کی فروانی اور مسائل سے واگزاری نہ تو فرشتے کی
مرہون نصیب ہوتی ہے ، نہ کو ئی مسیحا اچانک سے کبھی ٹپکا ہے،نہ ہی چلتے
چلتے خضر سے کسی کا پالا پڑا ہے ۔ جب بھی کٹھن وقت اور مصائب نے انفراد یا
قوم کو گھیرا ہے تب ہی تدبر اور تفکر نے فرد و اجتماع کے مصائب کے بحر ِبے
کراں کو کامرانی کی طرف موڑا ہے ۔
ٍٍآیا ہے یہ اکثر خیا ل
کہ چھوڑ دوں فکر کا وبال
روک دیا ہے عقل نے کہ کریہ
پاگل کیوں کرتا ہے زوال کاسوال
(از تصور منیر ؔ) |