’’ اجمل تمہیں کبھی میری
بات سمجھ بھی آیٔ ہے کہ نہیں ۔ راشدہ اب دس سال کی ہوچکی ہے اور ابھی تک اس
نے قرآن پاک پڑھنا شروع ہی نہیں کیا ۔ تمہیں کبھی اپنی اولاد کی فکر ہی
نہیں رہتی ۔ ـــ‘‘
عالیہ اپنے شوہر سے بہت دیر سے اس بات پر الجھ رہی تھی جسکے جواب میں اسکی
خاموش مسکراہٹ تھی جس سے عالیہ مزید چڑ گیٔ ۔
ـ’’ ٹھیک ہے میری ہر بات تو تمہیں ہمیشہ بکواس لگتی ہے ۔ جو بھی بات کرتی
رہوں تمہارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ بھاڑ میں جاؤ تم ۔ اور ہاں اپنے
دفتری کاموں کو دفتر تک رکھا کرو ۔ میں تمہاری ملازمہ نہیں ہوں جو تمہارے
کام کرنے کیلۓ ہر وقت تمہاری نظروں کے سامنے رہوں ۔ـ‘‘
عالیہ کا غصہ حسب معمول انتہا کو پہنچ چکا تھا اور غصے سے اسکا جسم کانپ
رہا تھا ۔ ہر ایک عضو کی کپکپاہٹ عیاں تھی۔ اجمل جو بہت دیر سے اسکی جلی
کٹی باتوں کو سن رہا تھا اسکے اچانک خاموش ہوجانے پر چونک اٹھا جیسے کویٔ
غیر معمولی واقعہ رونما ہوگیا ہو۔ اس نے عالیہ کی طرف دیکھا جسکے گال غصے
سے اس انا ر کے دانے کیطرح لال ہوگۓ تھے جسے اگر ذرا سا چھو لیا تو ہر طرف
رس بکھر جایٔگا۔ وہ اٹھ کر اسکے قریب پہنچا اور اسکے ہاتھ تھام لیٔے جو
اماوس راتوں میں بھی ہر سو اجالا کر سکتے تھے۔ اجمل کے چہرے سے رومانویت کی
وہ جھلک عیاں تھی جو سہاگ کی رات دلہے کے چہرے پر ہوتی ہے مگر اچانک ہی
رومانویت کی جگہ شرارت نے لے لی اور وہ بولا۔
’’ عالیہ تم ہمیشہ غصے میں ہی رہا کرو ۔ کتنی خوبصورت لگ رہی ہو ‘‘
’’ بس اب تم شروع ہوجاوٌ ۔ اب تمہارا کام ختم تو میں پیاری لگ رہی ہونگی نا۔
ـ‘‘
’’ او ہو تم اب بھی غصہ ہو ۔ اچھا کل سے راشدہ کو بھی مولوی صاحب کے پاس
چھوڑ آیٔنگے اور گھر پہ دفتر کا بھی کویٔ کام نہیں ہوگا۔ اور کچھ حکم؟؟؟‘‘
عالیہ اسکی بات سن کر خوشی سے کھلکھلا اٹھی اور فرط جذبات سے اسکی بانہوں
میں گر گیٔ اور دوبارہ بولنا شروع کیا مگر اب کی با ر اسکی آواز بادل کی
گڑگڑاہٹ نہیں بلکہ کسی جھرنے کی موسیقی تھی ۔
’’ لیکن تم وعدہ کرو کہ کل لازمی لے جاؤ گے اسیــ‘‘
’’ اچھا وعدہ رہا کل دفتر سے گھر آتے ہی پہلا کام یہی کرونگاـ‘‘
عالیہ اسکے جواب سے مطمٔن ہوگیٔ اور کچھ ساعتوں کیلۓ خاموشی انکے جذبات کی
کہانی سناتی رہی۔ اجمل کی آنکھوں میں پھر سے شرارت امڈ آیٔ اور وہ سنجیدہ
ہوکر اسے دیکھنے لگا۔ جس پر عالیہ بھی پریشان ہوگیٔ
’’ کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ ـ‘‘
’’ کچھ نہیں ! جب سے دفتر سے آیا ہوں ایک بات کہنا چاہ رہا ہوں پر کہہ نہیں
پا رہا ہوں ‘‘
’’ کیا بات ہے سب خیر تو ہے نا‘‘
’’ ہاں خیر ہی ہے پر تم وعدہ کرو کہ ناراض نہیں ہوگی اور ڈانٹو گی بھی نہیں
‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے وعدہ رہا اب بات بتا دو زیادہ پریشان تو نہ کرو‘‘
’’ وہ بات یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم آج غضب کی خوبصورت لگ رہی ہو‘‘
عالیہ یہ بات سن کر اس سے لڑ پڑی
’’ بہت ہی بدتمیز ہو پریشان ہی کردیا تھا ۔ رکو ذرا تمہیں بتاتی ہوں ابھی‘‘
اور پھر دونوں بہت دیر تک ایک دوسرے پر غضب ڈھاتے رہے۔
اگلی شام اجمل نے آتے ہی اپنے وعدے کے مطابق راشدہ کو ساتھ لیا اور پاس
والی گلی میں مولوی صاحب کے گھر پہنچا جہاں مولوی صاحب بیٹھک میں موجود
بچوں کو قرآن پاک پڑھا رہے تھے ۔
’’ آیٔے اجمل بابو کیا حال ہیں ؟ بہت دنوں بعد نظر آے ۔ کبھی ہمیں بھی درشن
کرادیا کریں ـ‘‘
’’ بس جی اوپر والے کے کرم اور آپکی دعاؤں سے خیریت سے ہیں‘‘
’’ بھیٔ اﷲ رحم کرے تم پر ۔ اوپر والا کیوں کہیں وہ تو ہر جگہ ہمارے ساتھ
ہے۔ اور سنایٔں کیسے آنا ہوا آج‘‘
ـ’’ جی یہ میری بیٹی راشدہ ہے آپ سے قرآن پاک پڑھنے آیا کریگی۔ ـ‘‘
’’ بابو کیسی باتیں کرتے ہو تمہاری بیٹی ہے تو مطلب ہماری بیٹی ہے ۔ ماشااﷲ
کتنی پیاری بچی ہے ۔ کل سے شام پانچ بجے بھیج دیا کرنا ۔ آگے رب کی منشاـ‘‘
اجمل مولوی صاحب کا شکریہ ادا کرکے چل دیا۔
راشدہ جسکی عمر دس سال تھی لیکن وہ اپنی عمر کی باقی بچوں کی نسبت کافی بڑی
لگتی تھی ۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے اسکی دیکھ بھال کچھ
اس طریقے سے ہویٔ تھی کہ اب اسکی جسمانی اور ذہنی عمر میں کافی فرق لگتا
تھا ۔ اسکے نین نقش اور رنگت بالکل اپنی ماں کی طرح تھی اور قد کاٹھ اپنے
باپ کیطرح بے لگام ہوتا دکھایٔ دے رہا تھا۔ سکول کے برعکس مولوی صاحب کا
گھر ساتھ گلی میں تھا جسکی وجہ سے راشدہ پیدل ہی چلی جاتی۔ ہر شام جانے سے
پہلے اسکی ماں ضرور تکرار ہوتی تھی ۔
’’ امی میں گھر میں دوپٹہ نہیں لیتی ہوں پھر باہر کیوں لوں ۔ عابدہ بھی تو
میری کلاس میں پڑھتی ہے وہ بھی نہیں لیتی ہے ‘‘
عالیہ جو کہ اپنی بیٹی کی پیشگی جوانی اور زمانے کی میلی نگاہوں سے واقف
تھی اسے پیار سے تاکید کرتی ۔
’’ میری پیاری بیٹی اب بڑی ہوگیٔ ہے اور قرآن پاک تو سر پر دوپٹہ لیکر
پڑھتے ہیں ایسے تو گناہ ہوتا ہے۔‘‘
راشدہ اس نئیٔ پابندی سے پریشاں ضرور تھی لیکن اپنی ماں کا حکم ماننے کیلۓ
لے لیتی تھی مگر گھر سے باہر نکلتے ہی وہ آزاد ہوجاتی تھی ۔ گلی سے جب وہ
بے فکری سے بھاگتی ہویٔ مولوی صاحب کے گھر کیطرف جاتی تو کیٔ جوانوں کے
دلوں کی دھڑکن بے ترتیب ہوجاتی تھی ۔ اور انکی نظریں راشدہ پر یوں رک جاتی
تھیں کہ جیسے کسی ایسی گھڑی کی بیٹری ختم ہوگیٔ ہو جسکی بیٹری کے بدلے جانے
کی کویٔ امید نہ ہو اور اسکی سویٔ کسی ایک ہندسے پر ہمیشہ کیلۓ رک گیٔ ہو۔
مولوی صاحب کے گھر سے ملحقہ مسجد میں عصر اور مغرب کے وقت نوجوان نمازیوں
کی تعداد اچانک بڑھ گیٔ تھی اور انکی دعایٔں اتنی طوالت اختیار کر گیٔ تھیں
کہ پکی عمر کے نمازی رشک و حیرت سے انکو تکتے تھے۔ جبکہ کھلنڈرے جوانوں کی
دعاؤں سے لگتا تھا کہ یا تو وہ راشدہ کو دیکھ کر اس خدا کے خالق ہونے پر
ایمان لے آے ہیں یا پھر اس خدا سے راشدہ نامی مورتی کو پوجنے کی اجازت طلب
کر رہے ہیں۔ کچھ جوان اسکے حسن کو مات دینے کیلۓ روز شیو کرتے اور گھنٹوں
صابن سے چہرے کو رگڑ کر جب گلی میں آتے تو ایسا لگتا تھا کہ ابھی ابھی کسی
سے زور دار طمانچے پڑے ہوں جبکہ سستے اور سست مزاج عاشق اسکے عشق میں داڑھی
مونچھیں بڑھاے گلی کے کسی نکڑ پر کھڑے اس انداز سے کش لگاتے کہ اگر وہ نہ
مل پایٔ تو اگلے کش سے پہلے ہی دھواں دھواں ہوجایٔنگے۔ لیکن راشدہ جسکا ذہن
ابھی عشق و محبت کی ہر الجھن سے آزاد تھا کچھ اس بے فکری سے گرزتی تھی کہ
سب کی امیدوں پر پانی بڑی تیزی سے پھر جاتا تھا۔
راشدہ باقاعدگی سے قرآن پاک پڑھنے جانے لگی اور جب بھی وہ آتے جاتے مولوی
صاحب کو جھک کر سلام کرتی تو مولوی صاحب سر پر ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ساتھ
نظر بھی بہت جگہوں پر پھیر لیتے تھے اور بے اختیار پکار اٹھتے تھے ـ’’ ماشا
اﷲــ‘‘ ۔ مولوی صاحب بہت جلد جنت کی حوروں کو بھلا کر حور ارضی کو درس و
تدریس دینے میں مشغول ہوگۓ۔ وقت گزرتا گیا اور مولوی صاحب روز بہ روز جوان
ہوتے گۓ۔ انکی شرعی داڑھی راشدہ کے حسن کے جلوے نہ برداشت کرسکی اور بس
براے نام رہ گیٔ۔
پانچ ماہ میں ہی راشدہ نے نصف قرآن پاک ختم کرلیا۔ اس خوشی کے موقع پر اجمل
نے باقاعدہ ایک دعوت کا اہتمام کیا جسمیں محلے کے تمام افراد مدعو تھے۔
مولوی صاحب اس دن خوب سج سنور کے آے تھے۔ انکے عطر کی بو اس حد تک ناگوار
تھی کہ انسا ن چکرا کر گر پڑے مگر وہ اپنی مستی میں مگن تھے ۔ تمام افراد
کو جیسے ہی کھانے کی دعوت دی گیٔ تو وہ ایسے کھانے پر ٹوٹ پڑے جیسے کیٔ ماہ
کے بھوکے افراد کو آخری بار پیٹ بھر کر کھانا کھانے کیلۓ بلایا گیا ہو۔
کھانے کے بعد اجمل نے مولوی صاحب پر تحایٔف کی برسات کردی ۔ مولوی صاحب نے
اجازت لینے سے پہلے اجمل سے سوال کیا۔
’’ اجمل میاں تم نے راشدہ کو قرآن پاک پڑھانے میں اتنی دیر کیوں کی؟ ہمارے
ہاں تو بچے اکژ پانچ سال کی عمر میں ہی قرآن پاک کی تعلیم مکمل کرلیتے ہیں
۔ـ‘‘
’’ ارادہ تو میرا بھی پہلے یہی تھا مگر میں نے سوچا کہ چلو کچھ بڑی ہوجاے
تو سمجھ بھی سکے گیــ‘‘
’’ بھیٔ واہ ! کیا بات ہے آپکی بچی تو بہت ذہین ہے چند دنوں میں ہی خوب
سمجھ جایٔگی ۔‘‘
’’ شکریہ مولوی صاحب اﷲ آپکو اجر دیگاــ‘‘
مولوی صاحب جنکی عمر احادیث و روایات پڑھتے اور بیان کرتے چالیس کو پہنچ
رہی تھی لیکن اجمل کے گھر سے آتے ہوے انکی چال میں ایسا بانکپن تھا کہ وہ
کالج سے واپس آتے ہوے کسی ایسے شوخ لڑکے کی طرح لگتے تھے جس نے کسی منت کو
پانے تک داڑھی رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور اسکی منت پوری ہوچکی ہو اور
داڑھی بھی اپنی طبعی عمر مکمل کرچکی ہو۔ مولوی صاحب کی شوخ اداؤں کو دیکھ
کر محلے کے بوڑھے بزرگوں کو انکی دماغی حالت پہ شک ہونے لگا تھا۔ مولوی
صاحب کی بیوی سلمہ جسکی عمر ابھی تیس سال تھی لیکن مولوی صاحب کیلۓ چھ
اولادیں جننے کے بعد کسی طور پر یہ نہ کہا جا سکتا تھا کہ اسکی عمر تیس سال
ہے۔
مولوی صاحب جنہیں ہر رات امت مسلمہ کی کم آبادی کی فکر رہتی تھی ہر رات امت
کے مفاد میں سلمہ کو نشانہ بناتے اور سلمہ چپ چاپ امتی پیدا کرتی رہی لیکن
پچھلے چند ماہ سے مولوی صاحب نے امت کی فکر بھی چھوڑ دی تھی ۔ سلمہ جو کہ
پہلے پہل مولوی صاحب کی اس مہربانی پر خوش تھی اب قدرے فکرمند نظر آنے لگی۔
ایک رات مولوی صاحب جب عشا کی نماز کے بعد اپنے کمرے میں واپس آے تو سلمہ
نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا
ـ’’ آپ آج کل مجھ سے خفا نظر آتے ہیں ۔ خیر تو ہے میرے سے کچھ گستاخی ہویٔ
ہے‘‘
ــ’’ نہیں بختاں والی اے ! ایسا کچھ نہیں ہے۔ بس بہت دنوں سے ایک چلہ کاٹ
رہا ہوں ۔ وہ مکمل ہوجاے گا بہت جلد‘‘
سلمہ جو اسکے جواب سے مطمٔن ہوچکی تھی دوبارہ بات شروع کی۔
ــ’’ میرے بھایٔ کی شادی میں باقی ایک ہفتہ رہ گیا ہے ۔ اگر آپکی اجازت ہو
تو میں کل گاؤں چلی جاؤں ۔ اماں کا بھی کیٔ بار فون آچکا ہیــ‘‘
’’ہاں چلی تو جاؤ لیکن بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گاـ‘‘
ــ’’ بچوں کو بھی ساتھ لیتی جاؤنگی ۔ انکو بھی گاؤں گۓ ہوے بہت عرصہ ہوگیا
ہے‘‘
سلمہ کی یہ بات سن کر مولوی صاحب نے ایسی آہ بھری جیسے ان کے سر کا سارا
بوجھ ٹل گیا ہو۔ اگلی صبح ہی مولوی صاحب کا پورا خاندان گاؤں روانہ ہوگیا۔
ظہر کی نماز کے بعد ہی مولوی صاحب نے سر اور پاوٌں کے تلووں پر مہندی لگایٔ
اور اپنے خاص مرید کو مسجد سے بلوایا۔
’’ ارے اظہر میاں مجھے آج پیٹ میں درد کی شکایت ہے تم ذرا آج عصر کی نماز
میں امامت کرا دینا ۔ میں مغرب کے وقت آؤنگا‘‘
اظہر اتنی بڑی خوش نصیبی کے ملنے پر مولوی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوے چل
دیا لیکن مولوی صاحب نے جو پیٹ کے درد کی شکایت کا ذکر کیا تھا وہ عصر کا
وقت قریب آتے ہی پیٹ سے نیچے سرک گیٔ تھی۔ عصر کی نماز کے بعد مولوی صاحب
بیٹھک میں بھوکے شیر کی طرح براجمان ہوگۓ ۔ اور آنے والے تمام بچوں کو
اپنی طبیعت کی ناسازی کا کہہ کر چھٹی کردی۔ راشدہ جو ہمیشہ ہی دیر سے آتی
تھی جیسے ہی اس نے بیٹھک میں قدم رکھا تو مولوی صاحب کا چہرہ یوں تمتما
اٹھا جیسے کسی نے انہیں جنت کی بشارت دے دی ہو۔ راشدہ نے مولوی صاحب سے
سوال کیا
’’ مولوی صاحب آج باقی بچے نہیں آے؟ـ‘‘
مولوی صاحب نے کراہتے ہوے کہا
’’ آج میری طبیعت بہت خراب تھی تو سب کو چھٹی کردی تم بھی آج چھٹی کرلو‘‘
راشدہ چھٹی کا سنتے ہی خوش ہوگیٔ۔ وہ اٹھ کر جانے ہی لگی تھی کہ اچانک رک
گیٔ اور ایک تھیلہ مولوی صاحب کی طرف بڑھا دیا۔
ـ’’ امی نے خالہ سلمہ کیلۓ کچھ کپڑے بھجواے تھے آپ انہیں دے دیجیۓ گا۔ـ‘
‘
مولوی صاحب نے فوراً جواب دیا۔
ــ’’ ارے راشدہ تم خود جا کر دے آؤ ۔ تمہاری خالہ بھی تمہیں بہت یاد کرتی
ہیں۔‘‘
راشدہ بیٹھک سے مولوی صاحب کے گھر داخل ہوگیٔ ۔ اسکے جاتے ہی مولوی صاحب نے
بیٹھک کا دروازہ بند کردیا اور کنڈی لگا کر پیچھے چل دیۓ۔
’’ مولوی صاحب خالہ تو کہیں نظر ہی نہیں آرہیں۔ ‘‘
’’ وہ ادھر آخری کمرے میں ہونگی ۔ چلو میں تمیں لے چلتا ہوں‘‘
راشدہ مولوی صاحب کے ساتھ چلتے ہوے آخری کمرے تک پہنچی جو مولوی صاحب کی
عبادت کیلۓ مخصوص تھا۔ کچی اینٹوں سے بنا ہوا چھوٹا سا کمرہ اس انداز سے
سجایا گیا تھا جیسے کسی نیٔ نویلی دلہن کیلۓ۔ راشدہ کے اندر داخل ہوتے ہی
مولوی صاحب نے کمرے کو کنڈی لگا دی اور اس سے پہلے کہ راشدہ کی چیخ بلند
ہوتی مولوی صاحب کے مبارک ہاتھ نے اسے خاموش کردیا ۔ کچھ دیر تک وہ اپنے آپ
کو چھڑوانے کی کوشش کرتی رہی لیکن ناکام رہی ۔ آخر کار مولوی صاحب کے بھاری
بھرکم جسم کے نیچے دم توڑ دیا ۔
مغرب کی نماز جیسے ہی ختم ہویٔ تو اجمل محلے کے چند افراد اور عزیز و اقارب
کے ہمراہ بھاگتا ہوا مولوی صاحب کے قدموں میں گر پڑا اور روتے ہوے التجا
کی۔
’’ مولوی صاحب میری بیٹی آج قرآن پاک پڑھ کر گھر نہیں آیٔ۔ اس وقت تو وہ
روزانہ آجاتی ہے ۔ دعا کیجیۓ‘‘
’’ اﷲ رحمت کرے ۔ آج تو میں نے بھی سب کو چھٹی کردی تھی ۔ پریشان نہ ہوں
کسی دوست کے گھر چلی گیٔ ہوگی‘‘
مولوی صاحب کی یہ بات سن کر اجمل مزید پریشان ہوگیا۔ یہ بات سنتے ہی محلے
کے تمام نوجوان نمازیوں نے بیک وقت آسمان کی طرف ایک پر شکوہ نگاہ ڈالی اور
اجمل کے ساتھ ہولیۓ۔ دو دن بعد سارے محلے میں کہرام برپا ہوگیا جب کوڑے کے
ڈھیر سے راشدہ کی لاش بر آمد ہویٔ۔ اسکے جسم پر زخموں کے نشان سے اندازہ
کیا جا سکتا تھا کہ کسی درندے نے اسکے جسم کو نوچ ڈالا ہے لیکن بدنامی کے
ڈر سے ماں باپ نے اپنی اکلوتی اولاد کو مٹی کی نذر کر دیا۔ اگلے دن مولوی
صاحب شادی میں شرکت کرنے کیلۓ خوش و خرم گاؤں پہنچ گۓ۔ انکی بیوی جو انکے
ایک دن پہلے آ جانے پر بہت خوش تھی۔ فوراً بولی۔
’’ آپ تو ایک دن بعد آنے والے تھے۔ جلدی کیسے آگۓ‘‘
مولوی صاحب نے اسکے جسم پر نظریں گاڑتے ہوے جواب دیا۔
’’ چلہ مکمل ہوگیا تھا‘‘
انکی بات سنتے ہی سلمہ کا چہرہ شرم سے لال ہوگیا۔ |