دلہن وہی جو ۔۔

آدم زاد برادری کا ہر فرد روح اور جسم کا مجموعہ ہے جسم نظر آتا ہے کیونکہ اس کا تعلق مادے سے ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس روح نظر نہیں آتی کیونکہ اس کا تعلق مادے سے نہیں ہوتا جسم کی غذا مادی ہے (اگر جسم کو مناسب اور متوازن غذا نہ ملے تو وہ کمزور ناتواں اور لاغر ہوجاتا ہے)۔

جس طرح جسم کو دن میں 3سے 4مرتبہ طاقت و توانائی حاصل کرنے کے لئے غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کو بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے آپ سوچ رہے ہوں گے روح کو کس طرح غذا دی جاسکتی ہے وہ تو مادے یعنی جسم کا مکین ہے اگر جسم سے روح نکال دی جائے تو وہ جسد ِ خاکی بن جاتا ہے اور جسد ِخاکی کا مقدر تو پیوند ِ خاک ہونا ہی ہوتا ہے۔

روح آزاد ہو تو (ارواحِ عالم) کو پرواز کرجاتی ہے اور جسم روح کی قید سے آزاد ہو تو اس کا (ٹھکانہ ۔مقام) منوں مٹی کے نیچے ہوتا ہے۔

بیشتر آدم زاد جسد ِ خاکی یعنی جسم کو تو خوب سے خوب تر خوراک مہیا کرتے ہیں جدیدو خوصورت پوشاک پہناتے ہیں طرح طرح کے لوشنوں تیلوں کریموں اور صابنوں سے اس مادے (جسم) کی رگڑائی دھلائی اور صفائی کرتے ہیں جس طرح جسم کو صفائی کی رعنائی کی طلب ہوتی ہے اسی طرح روح کو بھی صفائی درکار ہوتی ہے یقینا اب آپ سوچ رہے ہوں گے روح کی صفائی کس طرح ہوتی ہے ہم انسان اپنا پورا دن پورا ہفتہ پورا مہینہ اور سالوں جسم کی خدمت کرتے ہیں غذاؤں میں تنوع اختیار کرتے ہیں جس کو سجاتے ہیں سنوارتے ہیں جبکہ روح جس کے بغیر جسم کی کوئی ویلیو نہیں اُسے کوئی نہیں سجاتا؟ اس کی خدمت کوئی نہیں کرتا۔ انسان کے مادی حصے سے متعلق تو سب جانتے ہیں اسے کیا کھلانا ہے کیا پلانا ہے کیسا بنانا ہے کب کب صفائی کرنی ہے اور باقی کے حصے روح کے متعلق بات کرتے ہوئے ہم ڈرتے ہیں اس کی خوراک کیا ہے اس کو توانائی کہاں سے حاصل ہوتی ہے اس کو سجایا سنورا اور بنایا کیسے جاتا ہے۔

جسم کو تو سب جانتے ہیں ہم آتے ہیں۔ روح کی طرف روح کی غذا نور اور روشنی ہے تجلی براہ راست اسے فیڈکرتی ہے روح کی توانائی روح کی حرکت روح کی زندگی روح کا حسن اﷲ کی محبت اور قربت ہے جس طرح جسم مادی غذا نہ ملنے پر کمزور ناتواں اور ناکارہ ہوجاتا ہے اسی طرح اگر روح کو قرب الٰہی حاصل نہ ہو تو وہ بھی ضعیف اور ناتواں ہو جاتی ہے اور روح بے چین و بے قرار رہتی ہے۔

آدم زاد نے جب روح سے اپنا رشتہ توڑ لیا سیم و زر کی فراوانی اور عیش و عشرت کو اپنا سب کچھ جان لیا تو روح کی بے چینی و بے قراری میں اضافہ ہوگیا مادہ پرستی کا عروج روح کی غذا کو زہریلا بنادیتا ہے جیسے ہی روح سے آدم زاد کا رشتہ کمزور ہوتا ہے وہ قربِ الٰہی اور خالق کی قربت و محبت سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔

آدم زاد زر و جواہر کو اہمیت دیتا ہے لیکن جس نے زر و جواہر کے ذخائر آدم تک منتقل کئے اس سے تعلق کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اُن گھرانوں میں جہاں دولت کی فراوانی ہے آرام و آسائش کی اتنی سہولتیں ہیں کہ لوگ سوچتے ہیں کہ اب ہم کس زاویے سے آسائش حاصل کریں اُن گھرانوں میں بڑی تعداد دماغی امراض میں مبتلا ہے خود کشی کا تناب بھی ان گھرانوں میں زیادہ ہے کڑور پتی تاجر سب کچھ خرید سکتا ہے لیکن اُسے سکون اور روح کا اطمینان نصیب نہیں ہوتا وہ قیمتی قالینوں پر عالی شان فانوسوں کے نیچے ٹہلتا رہتا ہے اور سوچتا ہے میرے پاس سب کچھ ہے مگر میں بے قرار و بے سکون کیوں ہوں۔

اُن دولت کے پجاریوں کو کون بتائے کہ وہ اِس لئے بے کل و پریشان ہے کہ اس کے اندر ایک ہستی ہے جس نے اس کے وجود کو سہارا دیا ہوا ہے جس نے اسے زندہ رکھا ہوا ہے وہ اس سے غا فل ھے وہ ہستی کون ہے وہ ہستی روح ہے اور روح کی غذا اﷲ کی محبت ہے روح کی سجاوٹ اﷲ کی قربت میں پوشیدہ ہے جب تک روح کو غذا میسر نہیں آئے گی آدم زاد سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بے چین رہیں گے۔

روح اور جسم کے حوالے سے تمہید کافی طولانی ہوگئی مگر آگے جو کہانی روحانیت سے متعلق اب تک پہنچنے والی ہے اُس کو سمجھنے کے لئے روح اور جسم کے حوالے سے یہ معلومات ضروری تھیں۔

یہ سچی داستانِ روحانیت میری امی کے نانا سے متعلق ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچی ہے۔

قیامِ پاکستان سے قبل یوپی پرتاب گڑھ سے تعلق رکھنے والے ہمارے پَرنانا کا خاندان بڑے امراء و زمینداروں میں شمار ہوتا تھا وہ ہزاروں مربع زمینوں کے مالک تھے اناج کا شمار نہیں تھا پھلوں کے وسیع باغات ایسی فراوانی اور افراطِ زر میں تو لوگ رعونت اور جاہ و جلال کے شیدائی ہوجاتے ہیں کے تاتاری بھی اُن کو دیکھ کر شرمندہ ہو جائیں گردن اس طرح اگڑ جاتی ہے کہ اپنے سامنے بھی کوئی دیکھائی نہیں دیتا سرجھکا کر نیچے کسی کو دیکھنا تو درکنا رہی ہوتا تھا لیکن ایسے ہی پیسوں کی ریل پیل میں پل کرجوان ہوئے میر عبدالرحمن اس قدر منکرالمزاج، غریبوں کے ہمدرد، اﷲ والے پنج وقتہ نمازی تہجد گزار ہر سال کا اعتکاف کرنے اور روزہ رکھنے کے اس قدر پابند تھے کہ اﷲ کا بندہ ہونے کا پورا حق ادا کردیتے تھے۔

جب میر ی پَرنانی کی اُن سے شادی ہوئی تو اُن کی عمر محض چوبیس سال تھی اور ان کی نصف بہترصرف 15سال کی جیسا کہ اُس زمانے کا دستور تھا کہ شادی انتہائی کم عمری میں ہی کردی جاتی تھی اور پھر اولاد کا سلسلہ اس جوڑے کو بھی اﷲ تعالیٰ نے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کئیں کہتے ہیں اﷲ تعالیٰ انسان کو دو طرح سے آزماتا ہے مال دے کر آزمائش میں ڈالتا ہے اور اولاد کی نعمت عطا کرکے آزمائش سے گزارتا ہے۔

میر عبدالرحمن مال کی آزمائش سے تو گزر گئے کہ پورا سال ہی ان کے در سے حاجتی اپنی حاجتیں پوری کرتے اور اپنی مرادیں سمٹتے دُعائیں دیتے نہ تھکتے لیکن اولاد نے انہیں آزمائش میں ڈال دیا تھا ۔

میر عبدالرحمن کا معمول تھا کہ ہر مہینے کچھ دن کے لئے عبادت کے لئے وقف تھے اس دوران وہ اپنے عبادت کے لئے مخصوص کئے گئے کمرے میں چلے جاتے اور کسی کو اِس دوران کے اس کمرے میں آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی تقریباً 2سے 3دن بعد وہ خود ہی کمرے سے باہر آجاتے اور دیگر امورِ زندگی نمٹاتے۔

ہر بار اس عمل سے گزرنے کے بعد جب وہ باہر آتے تو چہرہ معمول سے زیادہ پُرنور اور روحانیت سے معمور نظر آتا۔

گھروالوں میں سے کسی کو اتنی ہمت نہ ہوتی کہ یا حضرت آپ نے یہ تین دن بغیر کھائے پیئے کس طرح کمرے میں بسر کئے۔

جیسے جیسے میر عبدالرحمن کی عمر بڑھتی جارہی تھی ان کے تخلیوں میں اضافے ہونے لگا تھا پَرنانی جان ویسے تو شروع ہی سے نماز روزے اور صدقہ خیرات کی عادی تھیں مگر مجا زی خدا کے مزاج سے واقفیت کے بعد اس زہد و تقویٰ میں گزرتے وقت کے ساتھ مزید اضافہ ہوگیا تھا ہماری پَرنانی بتاتی تھیں ویسے تو نانا جان اپنے تمام ہی بچوں کے ساتھ بہت شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آتے اور تعلیم و تربیت میں کوئی تواہی نہ آنے دیتے مگر اپنے سب سے چھوٹے بیٹے زین العابدین کے لئے ان کی چاہت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ لاڈلا ہونے کا ثبوت دیتے اور اُن سے کچھ ایسی باتیں منوالیتے جو اِن کے دیگر بہن بھائی ہرگز نہ منوا سکتے ایسی ہی ایک باتوں میں اُن کا اعلیٰ تعلیم کے لئے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا مطالبہ بھی تھا (یاد رہے کہ یہ داستان قیامِ پاکستان سے قبل کی ہے) اور مسلمان اعلیٰ تعلیم لکھنؤ دہلی اور امرتسر کی یونیورسٹیوں سے حاصل کرتے تھے۔

کافی عرصہ ٹال مٹول سے کام لینے کے بعد بالآخر وہ اپنے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے کی ضد کے آگے مجبور ہوگئے اور ان کو تعلیم کے حصول کی خاطر لکھنؤ بھیجنے پر رضامند ہوگئے لیکن اِن کو باور کرادیا گیا کہ تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ دیگر غیر نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے ان پر کس قسم کی پابندیاں عائد ہیں گھر کے ایک نمک خوار ملازم دینوبابا کو بھی ان کے ہمراہ بھیجا گیا کہ وہاں یہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکیں۔

اسی دوران میر عبدالرحمن مزید گوشہ نشین ہوگئے ایک بار جب کہ وہ اپنے مخصوص عبادت والے کمرے میں مقید تھے کہ نانی محترمہ کو کسی ضروری چیز کے لینے اُس کمرے میں جانا پڑا تو جو منظر اُنہوں نے وہاں پر دیکھا وہ منظر بتاتے ہوئے بھی اُن کے رگ و پے کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے انہوں نے دیکھا ناناجان چت لیٹے قرآنِ پاک کی تلاوت کررہے تھے(وہ حافظ ِ قرآن بھی تھے) اور ان کے سینے کے اندر دھڑکتا دل ایسے نظر آرہا تھا جیسے شفاف شیشے کے پار کوئی چیز نظر آتی ہے یعنی اُن کا سینہ شفاف شیشے کی مانند تھا اور تلاوت کی ہر اﷲ اﷲ ہر دل دھڑک دھڑک کر اﷲ کے ایک ہونے کی گواہی دے رہا تھا نانی محترمہ ڈر کر بناء وہ چیز لئے ہی باہر آگئی اور دروازہ برابر کردیا اپنے محرم زاد کے اس راز سے وہ کب واقف تھیں اور نانا جان کی زندگی تک انہوں نے یہ راز اپنے سینے میں ہی مدفون رکھا بعد میں کئی بار نانا جان دو دو تین ہفتوں کے لئے گھر سے غائب ہو جاتے یعنی کہیں چلے جاتے اور پھر خود ہی وآپس آجاتے اِسی دوران کئی ایسے واقعات ہوئے جو ناقابل یقین تھے اور اُن کے روحانیت کے اعلیٰ عہدے پر قائم ہونے کی دلیل تھے۔

ایک مرتبہ اُن کے منجھلے بیٹے کی شادی تھی اور اُن کا بلاوا آگیا جاتے جاتے انہوں نے اپنے ایک پُرانے وفادار ملازم بوڑھے دینو بابا کو بلایا اور کہا کہ میرے بیٹے کے شادی جو اگلے ہفتے ہے وہ لڑکی اس کی قسمت میں نہیں لکھی تم یہ خط اپنے پاس رکھ لو جب رخصتی ملتوی ہو جائے تو تم یہ خط بی بی جی کو دے دینا پھر وہ گھر سے چلے گئے یہ کہہ کر کہ یہ بات کسی اور کو بتانا نہیں دینو بابا حیران پریشان ہکا بکا رہ گیا پورا گھر بقعہ نور بنا ہوا تھا شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں اور میرعبدالرحمن کہہ رہے تھے کہ یہ لڑکی میرے بیٹے کی قسمت میں نہیں لکھی۔

بحرحال ہوا کچھ یوں کہ اُن کا کہا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہوگیا بارات اپنی پوری شان و شوکت اور سج دھج کے ساتھ تیار ہوئی دلہن کا گھر کئی میل کے فاصلے پر ایک دوسرے گاؤں میں تھا جہاں بارات لے کر جانا تھی جیسا کہ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکی ہوں وہ پُرانا دور تھا سیل فون اور وائبر وغیرہ تو دور کی بات لینڈ لائن بھی کوسوں دور کہیں کہیں پائی جاتی تھی ملاقات کا واحد ذریعہ طویل سفر کے بعد ہی میسر ہوتا تھا بحرحال سجھی دھجی بارات کافی طویل سفر کرکے جب دلہن کے گاؤں پہنچی تو معلوم ہوا کہ وہاں تو ماتم برپا ہے گزری رات دلہن کے والد کو سانپ نے ڈس لیا تھا اور وہ صبح ہونے تک دم توڑ گیا تھا۔

لڑکی والوں نے جہالت، توہم پرستی اور ضعیف العقیدگی کی انتہا کرتے ہوئے دلہا کو منحوس اور اپنے گھرانے کے لئے بدقسمت اور بدشگن قرار دیتے ہوئے اس شادی سے انکار کر دیا۔ دلہے کی والدہ نے خود جا کر دلہن کی ماں سے تعزیت کرتے ہوئے کہا وہ اُن کے غم میں برابر کی شریک ہیں اور اس شادی کو ابھی ملتوی کر دیتے ہیں۔ جب آپ کہیں دوبارہ تاریخ دے دیں مگر انہوں نے نہ ماننا تھا نہ مانیں کہ دلہا بدشگن نہیں اس کام کے لئے قدرت نے یہی وقت مقرر کر رکھا ہے اور یہی مشیت ایزدی تھی۔

دلہا کی ماں ابھی بیٹے کے پاس آکر بیٹھی تھیں کہ دینو بابا اُن کے پاس آئے اور کہا کہ میر صاحب نے آپ کے لئے یہ خط دیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا عارفین (دلہے کا نام) کی شادی پر میں موجود نہیں ہوں گا مگر مجھے معلوم ہے یہ لڑکی میرے گھر نہیں آ ئے گی مجھے معلوم ہے یہ لڑکی میرے بیٹے کے ہاتھوں پر نہیں لکھی لہٰذہ جب یہ شادی کینسل ہو جائے تو تم یہ خط بی بی جی کو دے دینا۔ وہ اپنے مجازی خدا کے مزاج اور روحانیت کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہونے کی چشم دید گواہ بھی تھیں مگر اس بار وہ حیران رہ گئیں کہ یہ شادی جس میں دونوں گھروں کی رضا مندی شامل تھی اور بارات دھوم دھام سے آئی تھی لیکن ایک ضعیف العتقادی کی نظر ہو گئی تھی اور اب انہوں نے بارات کی واپسی کا فیصلہ کر لیا تھا تو ان کے مجازی خدا کا یہ خط اور انکشاف کہ ان کو معلوم تھا یہ شادی نہ ہوپائے گی اور یہ بھی معلوم تھا کہ اسی گاؤں کے ایک غریب اور مفلس خاندان کی بیٹی ہاتھوں میں مہندی لگائے ڈولی میں بٹھائے جانے کی منتظر تھی کہ اچانک دلہا کے گھر والوں کی طرف سے جہیز کے مطالبے کے بعد بارات واپس جا چکی ہے۔اور دلہن کے گھر میں ماتم کا سماں تھا۔ایسے میں عارفین کی والدہ اپنے شوہر کے خط ملنے کے بعد اُن کے گھر گئیں اور کچھ ہی دیر میں تمام معاملات طے پاگئے اور ان کے لاڈلے بیٹے کا نکاح اُس مفلس مگر شریف خاندان کی انتہائی خوبصورت بیٹی کے ساتھ پڑھا دیاگیا قدرت کس وقت کس کو کس طر ح نوازتی ہے پل میں بڑے سے بڑے فیصلے کس طرح سے مشیت الٰہی کے آگے تبدیل ہو جاتے ہیں اس راز سے کوئی آشنا نہیں ہوسکتا ہاں اﷲ کے کچھ برگزیدہ انسان ہیں جو روحانیت کے اس عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔ جہاں ایک عام انسان کی فہم و فراست دنگ رہ جاتی ہے اور اُسے یہ تمام واقعات ماورائے عقل لگتے ہیں

بحرحال دُلہن جس کی قسمت میں ایک آرام دہ اور عالیشان گھر محبت کرنے والا شوہر بے حد نرم دل اور شفیق ساس اور ایک روحانی باپ لکھا تھا اس گھر میں آچکی تھی اور دوسری جانب ایک خاندان اپنی ضعیف العقیدہ ہونے کے باعث اپنے سروں پر کلہاڑی مارچکا تھا۔

سسر کی روحانی سفر سے واپسی کے کچھ عرصے بعد کا واقعہ ہے کہ ایک شام وہ اپنے مہمان خانے میں بیٹھے سائلین کی دار رسی کررہے تھے کہ اچانک اپنی جگہ پر سے اُٹھ کر کھڑے ہوگئے دینوبابا کو کہا کہ جاؤ بازار سے ایک نئی چارپائی خرید کرلاؤ دینو بابا چارپائی لائے تو میر صاحب نے خود اپنے ہاتھوں سے اس چارپائی کے اوپر آب زم زم کا چھڑکاؤ کیا اور عرقِ گلاب چھڑک کر دالان میں دیوار سے لگا کر کھڑا کردیا اور کہا کہ کل تک اس کو کوئی ہاتھ نہ لگائے جب اس کی ضرورت پڑے گی تو خود پتہ چل جائے گا یہ واقعہ اُن دنوں کا ہے جب اپنے پیاروں کی میتوں کو ایدھی کے مردہ خانوں میں غسل دینے کا رواج نہ تھا بلکہ اپنے گھر میں لوگ خود یہ کارِ ثواب سرانجام دیا کرتے تھے کس کومعلوم تھا عرقِ گلاب اور آپِ زم زم سے تریہ چارپائی کس کام آنے والی ہے۔

پچھلے سال حج کے دوران انہوں نے اپنا کفن لے کر مکہ مدینہ کی مٹی سے لگا کر اور زم زم میں ڈبو کر خشک کرکے محفوظ کرلیا تھا۔

رات زین العابدین کے بارے میں اطلاع آئی کہ وہاں انہوں نے لکھنؤ یونورسٹی کے ہوسٹل میں کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی کی ہے اور اپنے تعلقات اور دولت کا استعمال کرتے ہوئے ہر قسم کے الزام سے بری الذمہ ہوچکے ہیں میر صاحب نے واقعہ کی تحقیقات کیں معلوم ہوا کہ واقعی ان کا بیٹا قصور وار ہے سخت افسردہ اور ملول ہوئے۔ اس قدر سنجیدہ ہوئے کہ رات بھر سجدے میں پڑے خدا سے معافی کے طلبگار رہے کہ یا خدا کہاں غلطی ہوگئی اولاد کی تربیت میں کہاں اور کیسے کمی رہ گئی وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو عطا کی گئی نعمت کی صحیح تربیت کیوں نہ کرپائے اتنا بڑا واقعہ کس طرح رونما ہوگیا واقعی
آگ ہے درودِ ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے

یہ امتحان ہی تو تھا۔ اپنی نصف بہتر کو بلایا اور کہا زین العابدین کو کہنا اُس لڑکی کو اپنی شریک ِ حیات بنا کر ہماری عزت بنا کر اس گھر میں لے آئے یہ ہماری وصیت بھی ہے اور ہمارا حکم بھی میرے اُس کے ناجائز مطالبات مان لینے اور بے جاؤ لاڈ پیار کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب ہورہا ہے واقعی اولاد آزمائش ہے امتحان ہے اﷲ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اسے صراطِ مستقیم پر چلنے کی ہدایت دے ہمارا بلاوا آچکا ہے۔

بیگم میر سمجھیں کہ ہمیشہ کی طرح وہ اپنے روحانی دورے پر نکل جائیں گے اور کچھ عرصے بعد وآپس آجائیں گے مگر اس بار ان کے روحانی وجود سے جسمانی وجود علیٰحدہ ہوچکا تھا روح پرواز کرچکی تھی اور جسد ِ خاکی کو پیوند ِ خاک ہونا تھا۔

وہی چارپائی جسے گذشتہ شام انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے تیار کیا تھا ان کا جسد ِ خاکی رکھا ہوا تھا باپ کے سفید کفن ڈھکے وجود کے سامنے ماں نے زین العابدین سے وعدہ لیا کہ وہ اِسی لڑکی سے نکاح کریں گے جس کی عزت ان کے ہاتھوں پامال ہوئی ہے سوئم کے بعد زین العابدین کا نکاح وہیں کردیا گیا اور چالیسوں کے بعد وہ اُسے رخصیت کرا کے اپنے گھر لے آئے۔

دنیا میں ایسے واقعات کم ہی ہوتے ہیں کہ جہاں ایک انسان ہر قسم کے الزامات سے بری ہونے کے بعد اپنے کئے کا اعتراف کرتے اور اس کا مداوا کرئے۔

اور ایسے والدین بھی کم ہی ہوتے ہیں جو اپنے لخت جگر کی غلط مان کراُسے صراطِ مستقیم کی طرف راغب کریں اور اپنی غلطی کا مداوا کرنے کی تلقین کریں آفرین ہے ایسے ماں باپ پر ۔

میری نانی یہ واقعہ دہراتے ہوئے آج بھی آب دیدہ ہو جاتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ آج کے والدین کو بھی اپنی اولاد کی بے جاء طرف داری اور جابنداری کے رویئے سے محفوظ فرمائے آجکل کی اولادوں کو بے جاء آزادی ، طرف داری اور نمود و نمائش کے اظہار کی اجازت دینے کی وجہ ہی سے شاہ رُخ کے قتل جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 48364 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.