گلگت بلتستان میں آٹے پر دی جانیوالی سبسڈی کے خاتمے کے
خلاف شروع ہونیوالی احتجاجی تحریک مہنگائی، بیروزگاری، ظلم ، جبر، استحصال
اور سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے مطالبات لئے سول نافرمانی کی تحریک کی
جانب بڑھ رہی ہے، ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان تا
حال متنازعہ خطہ تصور کیا جاتا ہے اور اٹھائیس اپریل 1949ء کو حکومت
پاکستان اور کشمیری قیادت کے مابین ہونیوالے ایک معاہدے کے تحت(جسے معاہدہ
کراچی کے نام سے جانا جاتا ہے) گلگت بلتستان کا انتظام و انصرام حکومت
پاکستان کے سپر د کیا گیا تھا۔ حکمران طبقات نے گلگت بلتستان کے عوام کے
مسائل حل کرنے کی بجائے وہاں موجود بیش بہا معدنی ذخائر کی لوٹ مار اور چین
کے سامراجی عزائم کو تحفظ دینے کیلئے گلگت بلتستان کو مسلسل عدم استحکام
میں رکھنے کے اقدامات کو جاری رکھا۔ حکمران طبقات محنت کش طبقے کے استحصال
کو جاری رکھنے کیلئے انہیں مختلف تعصبات میں تقسیم کرنے کے عمل پر کاربند
رہتے ہیں اور یہی فارمولہ گلگت بلتستان میں بھی استعمال کیا جاتا رہا جہاں
ایک وقت تک مختلف فرقوں کے لوگ اکٹھے زندگیاں گزار رہے تھے وہیں ایک وقت
میں وہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھی ہو گئے اور فرقہ واریت کے نام پر
بھیانک قتل عام کروایا گیا اور اسی آڑ میں گلگت بلتستان کے عوام کی آئینی،
سیاسی اور معاشی آزادی کو صلب کرتے ہوئے انہیں ایک اذیت ناک زندگی گزارنے
پر بھی مجبور کیا جاتا ررہا ہے، اکتوبر2012ء میں گلگت بلتستان کو آئینی
حقوق دینے کے نام پر صوبائی طرز کا حکومتی سیٹ اپ فراہم کیا گیا تھا جس کے
پس پردہ حقائق تو کچھ اور تھے لیکن حکمران طبقات کی جانب سے واویلا کیا جا
رہا تھا کہ اب گلگت بلتستان کے عوام کو درپیش تمام مسائل ختم ہو جائیں گے
اور عوام خوشحال ہو جائیں گے لیکن اس نام نہاد آئینی پیکیج کے ساتھ ساتھ
بدترین معاشی حملے کئے گئے، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اور استحصال میں
مزید اضافہ کیا گیا جبکہ علاقائی وسائل کو لوٹنے کے عمل کو بھی تیز تر کر
دیا گیا ۔ گلگت بلتستان میں چین کے سامراجی مقاصد کو بھی نظر انداز نہیں
کیا جا سکتا جو اس خطے میں پائے جانیوالے بیش بہا معدنی ذخائر سے لیکر
اقتصادی راہداری کے قیام تک کیلئے موجودہ وقت چین کیلئے ایک سونے کی چڑیا
کی حیثیت رکھتا ہے، حکمران طبقات نے انہی مقاصد کے حصول کیلئے گلگت بلتستان
کے حکمرانوں کو آئینی حقوق فراہم کرنے کا ڈھونگ رچایا گیا، عوام لوڈشیڈنگ
کا عذاب جھیلیں گے لیکن حکمرانوں کے ایوانوں کیلئے لگائی جانیوالی بجلی کی
لائنیں الگ ہونگی جن لائنوں پر کبھی بجلی بند نہیں ہو گی، حکمرانوں کی
تنخواہوں اور مراعات میں بیش بہا اضافہ کیا گیا لیکن دوسری جانب پچاسی فیصد
آبای کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لئے
دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، کنٹریکٹ ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا جا
رہا ہے،ستر فیصد آبادی پچیس سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کا ساٹھ
فیصد بیروزگاری کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔
ہر سال کی طرح پانچ فروری 2014ء کو بھی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے نام پر
پاکستان، کشمیر اور گلگت کے عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کی گئی رقوم میں سے
بھاری رقوم صرف کی گئیں اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا لیکن
اسی کشمیر کے ایک حصہ گلگت بلتستان کے عوام کو آٹے سمیت اشیائے خوردونوش
اور ہوائی سفر پر دی گئی سبسڈی کو ختم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔جس کے بعد
فی من آٹے کی قیمتوں میں تقریباً ایک سو روپے تک کا اضافہ ہو گیا، آٹے کی
قیمتوں میں اس اضافے کو گلگت بلتستان کے عوام نے مسترد کرتے ہوئے احتجاجی
مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جو آہستہ آہستہ مزید منظم اشکال اختیار کرتا ہوا
ستائیس فروری 2014ء کے ایک بڑے احتجاجی دھرنے کی شکل اختیار کر گیا، گلگت
سمیت دیگر علاقوں دیامر، غذر، سکردو، استور، ہنزہ نگر میں پہیہ جام اور شٹر
ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور حکومت کو دس مارچ تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ، اس
احتجاجی دھرنے کے شرکاء نے آٹے کی قیمتوں، اشیائے خوردونوش اور ہوائی سفر
پرسے سبسڈی کے خاتمے کو مسترد کرتے ہوئے سبسڈی کو بحال کرنے ، روزگار کی
فراہمی، بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے،علاج کی مفت فراہمی،گلگت بلتستان اور
خیبر پختونخواہ کے سرحدی تنازعات کو ختم کرنے، دریائے سندھ اور دیگر ڈیمز
کی رائلٹی، حکمران طبقات کیلئے بجلی کی فراہمی کیلئے قائم کی گئی خصوصی
برقی لائن کے خاتمے، گلگت بلتستان کی معدنیات اور ذخائر کی لوٹ مار کے
خاتمے کے مطالبات حکومت کے سامنے رکھتے ہوئے دس مارچ تک کی ڈیڈ لائن دی
لیکن حکمران طبقات نے مطالبات کو منظور کرنے کی بجائے دفعہ 144کو نافذ کرتے
ہوئے دو سے زائد لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی عائد کر دی۔ لیکن دس مارچ کو
حکمرانوں کی جانب سے لگائے گئے دفعہ144عوامی غیض و غضب نے اپنے پاؤں تلے
روندتے ہوئے حکمرانوں کو یہ باور کروایا کہ وہ اب اس طرح کے ہتھکنڈوں سے
گھبرانے والے نہیں ہیں، حکمران طبقات نے اس احتجاج کو روکنے کیلئے تمام
ہتھکنڈے استعمال کئے، تمام ریاستی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ایکشن کمیٹی
کے اراکین کو ڈرانے دھمکانے سے لیکر احتجاج میں شریک عوام تک کو روکنے اور
ڈرانے کی کوششیں کی گئیں لیکن مطالبات کی منظوری کے حوالہ سے حکومت کی جانب
سے کوئی سنجیدگی دیکھنے میں نہیں آئی ، گلگت بلتستان کے عوام نے حکمرانوں
کو مطالبات کی منظوری کیلئے پندرہ اپریل تک کی ڈیڈ لائن دے رکھی تھی لیکن
مطالبات منظور نہ کئے جانے پر پندرہ اپریل سے گلگت ، دیامر، غذر، استور،
ہنزہ نگر اور سکردو میں بیک وقت احتجاجی دھرنوں کا آغاز کر دیا گیا جو دس
روز سے مسلسل جاری ہیں، ان احتجاجی دھرنے میں شریک ہزاروں کی تعداد میں
محنت کشوں میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اراکین،چھوٹے تاجران،
سرکاری ملازمین ،صحافی، وکلاء اور نوجوان شریک ہیں، حکمران طبقات کی بے حسی
اور انتقامی کارروائیاں جہاں مظاہرین کے حوصلے مزید پختہ کر رہی ہے وہاں
مظاہرین کے مطالبات بھی پہلے سے بڑھ رہے ہیں، مظاہروں کی طاقت میں پہلے سے
کئی زیادہ شدت آئی ہے، چوبیس اپریل کو احتجاجی مظاہرین نے سکردوکے یادگار
چوک جسے مظاہرین کی طرف سے تحریر سکوائر کا نام دیا گیا ہے اور گلگت کے
گھڑی باغ میں مستقل ڈھیرے جما لئے، آس پاس کے تمام اضلاع سے مظاہرین یادگار
چوک سکردو اور گھڑی باغ گلگت میں جمع ہو گئے، ہزاروں مظاہرین نے مطالبات کی
منظوری تک انہی دو مقامات پر مستقل دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ مظاہرین نے
حکمرانوں سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے کے علاوہ حکمرانوں کے ایوانوں کے
گھیراؤ کی دھمکی بھی دی گئی اور مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اور سرمایہ
دارانہ نظام کے خاتمے تک اس جدوجہد کو جاری رکھنے کے اعلانات کئے ہیں۔
گلگت بلتستان سے شائع ہونیوالے ایک معروف جریدے ’’کے ٹو ‘‘نے چوبیس اپریل
کو شائع ہونیوالے شمارے کے اداریئے میں لکھا کہ ’’احتجاجی مظاہروں کے دسویں
روز میں داخل ہونے کے باوجود جوش و خروش میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہو
رہا ہے، حکومت گلگت بلتستان کی تاریخ کے اس طویل ترین احتجاج کو معمول کا
احتجاج تصور کر رہی ہے، مذاکرات میں بھی سنجیدگی نظر نہیں آئی، حکومت کی
نگاہیں وفاق کی جانب مرکوز ہیں اور وہ کسی معجزے کی منتظر نظر آرہی ہے‘‘
اداریے میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ ’’ایک تاثر یہ بھی تیزی سے فروغ پا
رہا ہے کہ لوگوں نے حکومت سے جو امیدیں لگا رکھی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں
اور اپنے صبر کا پیمانہ لبریزہونے پر وہ گھروں سے باہر نکل آئے ہیں کیونکہ
وہ سمجھتے ہیں کہ انکی توقعات، خواہشات اور آرزوؤں و تمناؤں سے کھلواڑ کرتے
ہوئے ایک طویل عرصہ گزر گیا ہے، انکے جذبات سے کھیلتے ہوئے یہ سمجھا جاتا
ہے کہ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جا سکتا ہے، ان کے اذہان میں پکنے
والا یہی لاواپھٹ چکا ہے جو اب کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہے‘‘ ایک
اور جریدے ’’باد شمال‘‘ نے چوبیس اپریل کے اداریے میں تحریر کیا ہے
کہ’’گلگت بلتستان ایک پسماندہ خطہ ہے، یہاں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے، اگر
گندم کی قیمت بڑھا دی گئی تو غربت کے باعث لوگ بھوکے مرجائیں گے، حکومت کو
وقت ضائع کئے بغیر مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینے چاہیے‘‘گلگت بلتستان کے
ہی ایک جریدے میں ایک تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ ’’کئی دہائیوں بعد گلگت
بلتستان کے عوام تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر سڑکوں پر آئے ہیں، اب عوام
کا مسئلہ گندم نہیں بلکہ وہ حکمرانوں اور انکے نظام سے عاجز آچکے ہیں،
تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ ’’فرقہ واریت کے تعصبات سے عبارت کئے جانیوالے اس
خطے میں گزشتہ دس دنوں میں حیرت انگیز تبدیلیاں نظر آئی ہیں، گزشتہ کئی
عشروں کے بعد اہل سنت والجماعت اور انجمن امامیہ کے اراکین بھی ایک سٹیج پر
اکٹھے ہیں، منگل کے روز احتجاجی دھرنے میں کئی بزرگ شہریوں کی آنکھوں میں
آنسو تھے، اور وہ کہہ رہے تھے کہ ایسے مناظراور ماحول دیکھنے کو آنکھیں ترس
گئی تھیں، 1971ء کے بعد ہم نے ایسا ماحول پہلے مرتبہ دیکھا ہے کہ ہزاروں کے
اجتماع میں تمام مکاتب فکر کے رہنما ایک سٹیج پر بیٹھے ہیں جو چند ماہ قبل
تک ایک دوسرے کی ہٹ لسٹ پر تھے، گلگت شہر میں کئی جلوس اور جلسے ہم نے
دیکھے ہیں جن میں صرف مسلک کے حقوق کی بات کی جاتی تھی، لیکن اس اجتماع میں
اس طرح کا کوئی تعصب اور تفرقہ بازی نظر نہیں آرہی، گلگت کے شہری اسے
انقلاب سے تعبیر کر رہے ہیں‘‘
اکیس اپریل کو شیعہ علماء کونسل کے رہنما اور گلگت بلتستان کے وزیر پانی و
بجلی دیدار علی شاہ اور متحدہ قومی موومنٹ کے وزیر ترقیات و منصوبہ بندی
راجہ اعظم خان نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’شیعہ مسلک اور متحدہ قومی
موومنٹ کا عوامی ایکشن کمیٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی شیعہ مسلک سے
تعلق رکھنے والا کوئی فرد یا متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والا کوئی
فرد ان احتجاجی دھرنوں میں شریک ہو گا ‘‘منگل کے روز شیعہ مسلک سے تعلق
رکھنے والے ہزاروں افراد نے دھرنے میں نہ صرف شرکت کی بلکہ سٹیج سے وزراء
کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس پر شدید غم و غصے کا اظہار بھی کیا
گیا۔درحقیقت تمام پارٹیوں کا ایک سٹیج پر متحدہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ
عوام اور نوجوانوں نے ان پارٹیوں اور مذہبی فرقوں کی قیادتوں کی جانب سے
پھیلائے گئے تمام تعصباد اور تقسیموں کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ عوامی احتجاج
تاحال عوام کی اجتماعی قیادت کے کنٹرول میں ہے اور ایک حقیقی انقلابی پلیٹ
فارم اور رہنمائی کی عدم موجودگی میں وہی پرانی پارٹیاں اور افراد اپنی
ساکھ بچانے کیلئے اس احتجاج میں متحد ہونے کا ڈھونگ رچانے پر مجبور ہیں،
حقیقی قیادت اور اختیارعوام اور نوجوانوں کے اتحاد اور اجتماعیت پر مبنی
ہے۔ اس کے علاوہ بھی حکومت کی جانب سے بے پناہ انتقامی کارروائیوں کی
کوششیں کی گئی، مختلف اخبارات میں اشتہارات شائع کروا کر عوام کو گمراہ
کرنے کی کوششیں کی گئی، سکردومیں احتجاجی دھرنوں میں شریک سرکاری ملازمین
کی فہرست مرتب کی جا رہی ہے، کئی ملازمین کی معطلی کے نوٹیفکیشن بھی جاری
کر دیئے گئے ہیں لیکن ملازمین نے حکومتی دھمکیوں کا خاطر میں نہ لاتے ہوئے
کہا ہے کہ انتظامیہ نے اس طرح کی کارروائی کی کوشش کی گئی تو حالات ان کے
قابو میں نہیں رہیں گے۔
احتجاج کے دوران ہونیوالے تمام واقعات اور عوامی مطالبات جہاں تمام تعصبات
اور تفرقہ بازی سے بالاتر ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہیں وہاں اس تحریک کے
حقیقی کردار کو بھی واضح کر رہے ہیں، کسی فلسفی نے کہا تھا کہ ’’ہر قوم کے
اندر دو قومیں آباد ہوتی ہیں، ایک وہ قوم جو استحصال کر رہی ہوتی ہے جبکہ
دوسری وہ جو استحصال کا شکار ہو رہی ہوتی ہے‘‘ گلگت بلتستان میں جاری تحریک
کا کردار علاقائی، قومی، نسلی، مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر طبقاتی نوعیت
اختیار کئے ہوئے ہے، یہی وجہ ہے کہ بڑے پیمانے پر عوامی قوت سڑکوں پر اس
نظام کو للکار رہی ہے،آٹے کی قیمتوں میں اضافے سے شروع ہونیوالی گلگت
بلتستان کی عوامی بغاوت اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، وفاقی اور
گلگت بلتستان حکومت احتجاج کو ختم کرنے کے تمام تر حربے اپنانے کے بعد
مذاکرات پر آمادہ ہو چکی ہے لیکن مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی، جہالت، بجلی
کی لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل کا خاتمہ تو بہت دور کی بات ہے اس نظام میں اب
اتنی سکت بھی باقی نہیں رہی کہ عوام کو پینے کا صاف پانی تک مہیا کیا جا
سکے، حکمرانوں کی جانب سے گلگت بلتستان کے عوام کے مطالبات کو پورا نہ کرنے
کی صلاحیت کا بین ثبوت وفاقی وزیر امور کشمیر کی جمعرات کی شام کی جانیوالی
پریس کانفرنس ہے جس میں برجیس طاہر نے واضح کر دیا ہے کہ ’’پورے ملک میں
ایک ہی ضابطہ اور قانون ہو گا، آزادکشمیر سے بھی سبسڈی ختم کر دی گئی ہے اب
گلگت بلتستان میں بھی آٹے کی قیمتوں پر سبسڈی نہیں دی جا سکتی‘‘ حکمران
طبقات جھوٹے وعدوں اور اعلانات پر ایکشن کمیٹی کو احتجاجی دھرنے ختم کرنے
پر آمادہ کرنے کی کوشش کرینگے، یہ عوامی ایکشن کمیٹی کیلئے انتہائی آزمائش
کا وقت ہو گا کہ وہ کتنی ثابت قدمی کے ساتھ اپنے مطالبات پر قائم رہتے ہوئے
احتجاج کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔
گلگت بلتستان میں اس نظام کیخلاف اٹھنے والی بغاوت وہ پہلی چنگاری ہے جو اس
خطے کے محنت کش عوام کو صدیوں کی اذیتوں اور بربریت سے چھٹکارے کیلئے اٹھ
کھڑے ہونے کی دعوت بھی دے رہی ہے، کشمیر سے لیکر کراچی اور خیبر تک محنت
کشوں اور نوجوانوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے
محنت کشوں کی اس انقلابی تحریک کی حمایت کرتے ہوئے اس نظام کیخلاف فیصلہ کن
لڑائی کے آغاز کیلئے میدان میں اتریں کیونکہ اگریہ تحریک دیگر خطوں میں
پھیل نہ سکی تو اس کا دم گھٹ جائے گا، لمبے عرصے تک سڑکوں پر سراپا احتجاج
رہنے کے بعد محنت کش عوام تھک ہار کر مایوس بھی ہو سکتے ہیں ،پھر یہی علماء
سیاسی جماعتوں کے قائدین ایک مرتبہ پھر سے اس تحریک کو فرقہ واریت اور
گروہی تعصبات میں الجھا کر قتل و غارتگری کو بڑھاوا دیتے ہوئے حکمران طبقات
کے عزائم کو پورا کرنے میں مصروف نظر آئینگے۔ گو کہ یہ مایوسی بہت لمبے
عرصے تک برقرار نہیں رہے گی لیکن حکمران طبقات کو مزید اگلے قدموں پر جا کر
محنت کشوں پر مزید حملے کرنے کا حوصلہ اور شکتی ضرور فراہم کریگی،اگر یہ
تحریک اپنے نصف مطالبات کو بھی منوانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ نہ صرف
گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان اور کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کیلئے
جدوجہد کی نئی راہوں کو متعین کرنے میں بھی اہم کڑی ثابت ہو گی، گلگت
بلتستان کے عوام کے دکھوں کو مداوا اس نظام کے اندر رہتے ہوئے یہ حکمران
طبقات نہیں کر سکتے، آئینی حقوق سے پیٹ نہیں بھرتا، نہ ہی کسی خطے کو کوئی
نیا نام دینے یا نئی شناخت دینے سے وہاں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں، اس نظام
کو بچانے کیلئے حکمران طبقات کے پاس صرف اسی طرح کے نان ایشوز ہی باقی ہیں
جن کو استعمال کر کے وہ محنت کشوں اور نوجوانوں کا استحصال جاری رکھتے ہوئے
اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، لیکن گلگت بلتستان
میں ابھرنے والا یہ عوامی انقلاب وہ پہلی کرن ہے جوآنیوالے دنوں میں کشمیر
کی خونی تقسیم ، بلوچستان کے رستے زخموں، خیبر پختونخواہ سمیت دیگر خطوں
میں جاری بربریت کے خلاف ایک عوامی بغاوت کا موجب بنے گی اور اگرجدید
سائنسی سوشلزم کے نظریات سے لیس قیادت اس بغاوت کو صحیح رخ دینے میں کامیاب
ہو گئی تو کرہ ارض پر موجود انسانیت کیلئے ترقی کی نئی معراج بانہیں کھولے
منتظر ہے۔ |