بسم اللہ الرحمان الرحیم
جب بات پنکچر لگانے کی تو، کسی پیٹرول پمپ کے پاس شدید گرمی میں بیٹھے ہوئے۔
پسینے سے شرابور، گندے کپڑوں میں ملبوس ایک ایسے انسان کا خیال آتا ہے۔
جوملکی حالات سے بے خبر، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے ٹائیر کھولتا اور
پنکچر لگا نظر آتا ہے۔ ہمارے گھر کے قریب بھی ایک ایسا ہی پنکچر لگانے والا
اپنی تادوکان کھولے بیٹھا عزت کی روزی کماتا نظر آتا ہے۔
چند دن قبل مجھے بھی پنکچر لگوانے کا اتفاق ہوا، میری موٹر سائیکل پنکچر
ہوگئی تھی۔ہم بھی پہنچے، اپنی موٹر سائیکل گھسیٹتے ہوئے ، تو حیرت کی انتہا
ء نہ رہی، کہ دوکان کا نقشہ ہی بدلہ ہوا تھا، جب دوکان کے قریب پہنچے
توہمیں دیکھتے ہی ایک صاحب نے جو سفید کاٹن کے سوٹ میں ملبوس تھے۔ ایک بچے
کو آواز دی ۔۔۔ اوے نوازے باؤجی توں گڈی چاء۔۔۔ اور ایک نیلے رنگ کی ڈانگری
پہنے لڑکا میری طرف لپکا۔۔۔۔۔ اور میرے ہاتھ سے موٹر سائیکل پکڑ لی۔۔۔۔۔
اتنی دیر میں ایک آواز اور آئی۔۔۔۔۔ باؤ جی ایئدر آجاؤ،، چھائں وچ۔۔۔۔۔ میں
اس کی طرف بڑھ گیا، جہان پانچ ، چھ بڑی آرام دہ کرسیاں پڑی تھیں، اور دو
آدمی پہلے ہی سے بیٹھے تھے، اور سامنے وہ بیٹھا تھا۔ جب قریب پہنچا تو پتہ
چلا کہ سفید کاٹن کے سوٹ میں جو شخص ہے، دراصل وہی پنکچر والا ہے۔ میں نے
اس سے ہاتھ ملایا اور بیٹھ گیا۔۔۔۔۔ نوازے فٹافٹ جا، باؤ جی واسطے ٹھنڈا
پانی تے چاء لے کے آ۔۔۔ شاوا میرا پتر۔۔
میں نے بیٹھتے ہوئے۔۔ پوچھا بھائی اسحاق خیر تو ہے۔۔۔ ماشاء اللہ بڑی ترقی
کر لی ہے۔
وہ قہقہ مار کے ہنساء ۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔ ہان جی باؤجی۔۔۔بس جی ۔۔۔ ترقی ہم نے
کیا کرنی ہے، ترقی تو ہمارے بڑوں نے کی ہے۔۔۔
میں سمجھا نہیں۔۔۔۔ کیا مطلب ہے ۔ تمھارا۔۔؟
ارے باؤ جی۔۔۔جب ہمارے لیڈروں نے پنکچر لگانے شروع کردئیے ہیں۔ ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔
35 پنکچر۔۔۔۔۔ والے بڑے ۔ اللہ بھلا کرے۔۔۔ ہماری بھی ٹور ہوگئی ہے۔ ہمارے
کاروبار کو بھی ترقی اور عزت مل گئی ہے۔
اتنی دیر میں چائے آگئی۔ اور میں چائے پینے لگا۔۔۔ اور سوچنے لگا ۔۔۔ اس سے
اسکو کا کیا فائیدہ ہوا۔۔۔۔
باؤ جی ۔۔ کی سوچی پئے گئے اؤ۔۔۔۔ جدون حکومت پنکچر ان والی چل سکدی ائے۔۔۔
تے ساڈا تے کم ائی پنکچر لانائے۔۔۔۔
تو پھر اس سے تمھارا کیا تعلق ہے۔ وہ تو ایک دھاندلی ہوئی تھی بڑے پیمانے
پر۔۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی تھی۔مگر اس سے تمہارا کیا
تعلق۔۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ آپ کی گاڑی کی ٹیوب میں کتنے پنکچر ہیں، پہلے
کے،
میں نے جواب دیا۔۔۔ چار یا پانچ۔۔۔ آج کا ایک اور لگا لو۔۔۔۔۔ کل چھ۔۔۔
ہوجائینگے۔
اس نے میری بات کا جواب دئے بغیر ہی ۔۔۔ آواز لگائی۔۔۔اوئے نثار پتر باؤ جی
۔۔ کی ٹیوب میں کتنے پنکچر ہیں ۔۔۔
استا د جی۔۔۔ کوئی نہیں ۔۔۔ ایک پنکچر لیک ہوگیا ہے۔۔۔ وہی دوبارہ لگا رہا
ہوں۔۔ بس پانچ منٹ ۔۔۔ استاد جی۔۔۔۔
لؤ جی ۔۔ باؤ جی۔۔۔ پچھلا ہی ایک پنکچر لیک نکلا ہے۔۔۔ گرمی کی وجہ سے لیک
ہوا ۔۔۔ اور ہوا نکل گئی۔۔۔ نیا نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے ۔ کسی اناڑی سے
لگوایا تھا آپ نے۔۔۔ لیک ہوگیا۔۔ اور کھل گیا۔۔ اور آپکو دوبارہ لگوانا
پڑا۔۔۔۔ اک بات بتاؤ باؤجی آپکی ٹیوب پانچ پنکچر برداشت نہیں کر پائی۔۔۔
اور ایک کھل گیا۔۔۔ اب کچھ دن بعد کوئی دوسر ا کھلے گا۔۔۔ پھر آپ آو گے۔
اور پھر ایک دن نئی ٹیوب ڈلواؤ گے۔ ہیں نا جی۔۔۔۔۔۔ تو آپ مجھے بتائیں کہ
یہ 35 پنکچر والی حکومت میں بار بار پنکچر لیک نہیں ہونگے۔۔۔ اور ہوا نہیں
نکلے گی۔۔ تو کیا یہ پنکچر والی حکومت ۔۔۔ بار بار پنکچر نہیں لگوانے گی۔۔۔
اور جب بار بار لگوائے گی۔۔ تو کیا ہمارا کاروبار نہیں چمکے گا۔۔۔۔ جی۔۔۔۔
پنکچر ایناں نے لوانے ائی لوانے ۔۔۔ نے۔۔۔۔ ہوا انینا دی لیک ہونی ائی ہونی
جے۔تے پنچ سال تیکر پنکچران والی ٹیوب ائی چلے گی۔۔۔۔ کدی اک لیک ہووے
گا۔۔۔۔کدی دوجا۔۔۔۔ فیر نئے پنکچر وی نکلن گے۔۔۔۔۔ لواندے جاؤ ۔۔۔۔۔۔
چلاندے جاؤ۔۔۔۔۔ ہوا بھرواندے جاؤ ۔۔۔۔۔۔ چلاندے جاؤ۔۔۔۔۔۔
میں اسکی مدلل تقریر سن کر بہت متاثر ہوا۔۔۔ واقعی 35 پنکچر والی ٹیوب کب
تک چلے گی۔۔ سوری حکومت کب تک چلے گی۔ کیونکہ بات اس کی ہو بہو سہی ثابت
ہورہی ہے۔۔۔ حکومت کی پھوک بھی بار بار نکل رہی ہے، پھر بھر تےہیں چلتے ہیں
۔۔۔ پھر لیک ہو جاتا ہے کوئی نہ کوئی پنکچر۔۔۔۔ کبھی خواجہ سعد رفیق۔۔۔ لیک
ہونے لگتے ہیں۔۔۔ تو کبھی خواجہ آصف والا پنکچر لیک ہوجاتا ہے۔ ایک ٹھیک
کرواتے ہیں پھوک بھرواتے ہیں۔۔۔ تو دوسرا۔۔۔۔پھر تیسرا۔۔۔۔ آجکل چودھریون
کے پنکچر بھی لیک ہورہے ہیں۔
اوئے ۔۔۔ باؤ جی ۔۔ پنکچر ٹھیک ہوگیا ائے۔۔۔ پھوک وی پا دیتی ائے۔۔۔ میرے
والے پنکچر دی گارنٹی جے۔۔ دوجے دی گل۔۔۔۔ میں نئیں کردا ۔۔۔۔۔۔۔ساڈا پنکچر
پکا جے۔۔۔ ائے لؤ چابی۔۔۔۔ اس نے چابی میرے سامنے رکھ دی۔۔ میں نے خاموشی
سے جیب سے بٹوا نکالا۔۔۔ اور اسکی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔ میں نے پچاس روپے کا
نوٹ دیا۔۔۔۔ اس نے خاموشی سے جیب میں رکھ لیا۔۔۔ اور بڑی سنجیدگی سے بولا
۔۔۔۔ باؤ جی۔۔۔۔اس ٹیوب پر زیادہ پیسے نہ لگائیں ۔۔۔ پہلی فرصت میں تبدیل
کروا لیں۔۔۔۔۔
میں نے چابی آٹھائی۔۔۔۔ موٹر سائیکل اسٹارٹ کی۔۔۔۔ اور چل دیا۔۔۔ اسکی ایک
ایک بات میرئے دماغ میں گردش کر رہی تھی۔۔ واقعی ۔۔۔۔ 35 پنکچروں ۔۔۔ والی
ٹیوب کی حکومت کیسے چل پائے گی۔۔۔ اور کیا اسی طرح پرانی ٹیوب والی حکومت
میں ہم بار بار ہوا بھر تے رہینگے۔۔۔۔۔ یا پھر حکومت کی گاڑی چلانے کے لئے
نئی ٹیوب ضروری ہے۔۔۔ اسے تبدیل ہونا چائیے۔۔۔ کب تک ایسے چلے گا۔۔۔۔
میں نے اپنی موٹر سائیکل کا رخ بازار کی طرف کردیا۔۔۔ اور ایک نئی ٹیوب
لیکر کر بیگ میں رکھ لی، شام کو پہلا کام واپسی پر یہی کرونگا۔۔۔۔۔ گاڑی
میں نئی ٹیوب ڈلوا دونگا۔۔۔۔ بار بار کی جھک جھک سے جان چھٹ جائے گی۔۔۔۔۔۔
اب آپ سوچین کہ کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔ 35 پنکچر والی ٹیوب پر ہی گزارا کرنا
ہے۔۔۔ یا پھر اس بار نئی ٹیوب ڈلوائینگے۔۔۔ اس بارے میں سوچین۔۔۔۔ ابھی
کافی وقت ہے۔۔۔۔ یا وقت نہیں ہے۔۔۔۔۔ اور میں بھی سوچتا ہوں۔ |