پوری دنیامیں کسی بھی مسلم ملک میں کوئی اچھا عمل وقوع
پذیر ہوتاہے تو دنیابھر کے مسلمان اپنے دلوں میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔خاص
طور سے وہ ممالک جہاں اسلام دشمن طاقتوں کی یلغار ہے ، ا ن ممالک پر تو ہر
وقت نظر رہتی ہے۔ ابھی فلسطین پر پوری دنیاکی نگاہ ہے ۔کیونکہ فلسطین کی
دوبڑی جماعتوں حماس اور الفتح نے اپنے اختلافات کو ختم کرنے اورقومی کاز کو
آگے بڑھانے کیلئے باہمی اتحاد کرلیاہے۔یہ خبر ہر اسلام پسند کیلئے خوش کن
ہے ۔ دونوںجماعتوں کے درمیان گزشتہ سات برسوں پر محیط اختلافات ختم ہوگئے
اور دونوں جماعتوں نے مشترکہ عبوری حکومت کے قیام اور مغربی کنارے کے ساتھ
ساتھ غزہ میں نئے انتخابات پر بھی اتفاق کر لیا ہے۔ قومی حکومت الفتح کی
سرپرستی میں قائم ہو گی اور اس کی تشکیل پانچ ہفتوں کے دوران مکمل کر لی
جائے گی، جبکہ نئے انتخابات چھ ماہ میں کرانے کیلئے اتفاق کیا گیا ہے۔ لیکن
سب کو اس بات کاخدشہ لگا رہتاہے کہ کہیں یہ اتفاقات کسی خوبصورت اور دل
نشیں نتیجہ تک پہنچنے سے قبل ہی ٹوٹ نہ جائے ، کیونکہ یہ کوئی پہلاموقع
نہیںہے جب حماس اور الفتح کے درمیان کوئی اتفاق ہواہو ۔بلکہ اس سے پہلے بھی
متعدد معاہدے ہوچکے ہیں اور اور وہ کسی انجام سے پہلے ہی ٹوٹ چکے
ہیں۔2007میں سعودی حکومت کی زیرسرپرستی میں ایک معاہدہ کیاگیاتھا۔مکہ میں
کئے گئے اس معاہدے کے مطابق فلسطینیوں کا خون بہانے پر مکمل پابندی، ایک
متحدہ حکومت کے قیام ، دمشق اور قاہرہ کمیٹی کی آراءکے مدنظر پی ایل او
(palestine liberation orgnization)کو پھر سے متحرک کرنا اور معاہدے کے
سیاسی ڈھانچہ کو مضبوط کرناتھا۔2012 میں موجودہ فلسطینی صدر محمودعباس اور
حماس کے لیڈر خالد مشعل کے درمیان دوحہ میں ایک معاہدہ ہوتھا،جس سے یہ امید
کی جارہی تھی کہ اب شہرِ قدس کی فضاؤں میں دھواں نظرنہیں آئے گا، معصوموں
کاخون نہیں بہے گاکیونکہ اس معاہدے نے 2007کے بعد پہلی بار الفتح کیلئے غزہ
کادروازہ کھولاتھا، الفتح کی ایک ریلی مغربی کنارے مین نکالی گئی ، لیکن یہ
آرزوئیں پوری نہ ہوسکیں۔کیونکہ اس کے بعدہی فلسطینی صدر نے حماس پر الزام
لگادیاکہ الفتح کے لوگوں کو حماس کے اراکین نے تہ تیغ کیاہے۔ چاہے حقیقت جو
بھی ہو، فلسطینی زعماءاپنے درمیان باہمی اتحاد اور آپسی میل ملاپ کو قائم
رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔اس کے کئی وجوہ ہوسکتے ہیں،بعض تجزیہ نگاروں کے
مطابق فلسطینی رہنماؤں کااتحاد محض مال و منال کے لئے ہوتا ہے،وہ ذاتی مفاد
اور کرسی کیلئے اتحاد کو توڑتے اور جوڑتے ہیں۔
اگردونوں جماعتوں میں ہونے والے حالیہ اتحاد کے عوامل پر نظر ڈالی جائے، تو
یہ منظر اور صاف ہوجائے گاکہ یہ ایسی دوسیاسی پارٹیوں کے درمیان اتحاد
ہواہے جو حقیقتا سیاسی اور مالی طورپر پوری طرح کمزورہوکر رہ گئی ہیں،حکومت
شام اور بشارالاسد کے کمزور ہونے کے بعد حماس پوری طرح لاچارہوگئی ہے،اب
اسے ایرانی امداد کی بھی زیادہ توقع نہیں رہ گئی ہے مصر میںبھی اخوان
حامیوں کیلئے کوئی جگہ نہ رہی اور الفتح کے روح رواں محمود عباس کی ہوا یوں
نکل چکی ہے کہ ان کی مالی قوت اور عرب دوستی کمزورپڑگئی اور سب سے بڑی وجہ
یہ ہے کہ امریکہ کا وہ دباؤ جس کی بناپر فلسطین کے صدر کو اسرائیلی مذاکرات
چاروناچار قبول کرنا ہی پڑتا۔یہی وجہ ہے کہ حماس اورالفتح معاہدہ پر متفق
ہوگئے، کیونکہ اس سے جہاں حماس کو دہشت گردی کے الزامات کا سامناکرنے کی
ضرورت نہیں پڑے گی وہیں الفتح کو اسرائل اور امریکہ کا سامناکرنے میں ایک
اضافی قوت کااحساس ہوگا۔
اس کے علاوہ تصویر کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، امریکا فلسطینی جماعتوں فتح
اور حماس کے درمیان مفاہمتی معاہدے سے مایوس ہے۔ اورامریکی وزارت خارجہ نے
اس کا برملا اظہار بھی کیا ہے،واضح رہے کہ امریکی وزارت خارجہ 1997 سے حماس
کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دے رہی ہے، حماس اب اپنے عوامی مینڈیٹ اور فتح
کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد صرف غزہ میں نہیں بلکہ پورے مغربی
کنارے میں بھی شریک اقتدار ہو گی،حماس اپنے موقف کی وجہ سے امریکی کوششوں
سے شروع ہونے والے امن مذاکرات کا بھی کبھی حصہ نہیں رہی ہے، ایسے موقع پر
جبکہ امریکا امن مذاکرات کے حوالے سے اسرائیل کو رام کرنے کیلئے کوشاں ہے
لیکن اسرائیل اپنے وعدوں پر عمل کیلئے تیار نہیں ہے ،ایسے بھی پوری
دنیاجانتی ہے کہ حماس اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے پوری طرح
انکارکرتاہے۔یہی وجہ ہے کہ معاہدے کے بعد اب اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات
اور معاہدے بے معنی معلوم ہوتے ہیں۔سب سے دلچپ بات یہ ہے کہ دونوں اہم ترین
فلسطینی جماعتوں کے درمیان باہمی تعاون اور قربت کے حوالے سے یہ پیش رفت
ایسے موقع پر سامنے آئی جب امن مذاکرات کی ڈیڈ لائن قریب تر تھی،مگر دونوں
جماعتوں نے آپس میں اتحاد کرکے امریکہ اور اسرائیل کی ناراضگی مول لے لی
ہے،یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے نہ صرف اس اتحاد پر اپنی مایوسی کااظہارکیاہے
بلکہ فلسطین کو دی جانے والی امداد پر نظرثانی کرنے اور اسے روکنے کا بھی
اشارہ دے دیاہے ۔امریکہ اس بات پر بھی بضد ہے کہ اسرائیل کے وجود کو فلسطین
تسلیم کرلے اور فلسطینی عدم تشدد کی راہ اختیارکریں۔ اسی طرح اسرائیل
کارویہ بھی کسی اڑیل سے کم نہیں ہے ۔اسرائیلی وزیراعظم نے اتحاد کے فورا
بعد الفتح کو دھمکی دی ہے کہ انہیں اسرائیل اور حماس میں سے کسی ایک
کاانتخاب کرناہوگااور کسی ایک سے معاہدہ کرناہوگا۔یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ
امریکہ اور اس کا ٹٹو اسرائیل یہ کیونکر سمجھتا ہے کہ ملک کے ایک بڑے دھڑے
اور ایک اہم سیاسی پارٹی کو کسی امن مذاکرے سے الگ الگ رکھکرمذاکرات مےں
کامیابی کےسے حاصل کی جاکستی ہے،اگر امن مقصدہوتااور امن مذاکرات نیک نیتی
پر مبنی ہوتے تو اس اتحاد کا استقبال کیاجاتاکیونکہ اس سے امن مذاکرات میں
پورے فلسطین کی شرکت ہوتی اور اس کے برعکس اگر امن مذاکرات صرف الفتح کے
درمیان ہوجاتاتو حماس اسے مسترد کردیتا، آپس میں خون خرابہ ہوتااور اسرائیل
کو بھی معاہدہ توڑنے کابہانہ مل جاتا۔اور بارہایہی دیکھنے کو ملاکہ اسرائیل
مداخلت کاالزام لگاکر معصوموں کا خون بہایاگیا۔
چونکہ امریکہ اور اسرائیل کبھی نہیں چاہتے کہ فلسطینی متحد ہوں اور اسرائیل
کے سامنے مل کرکھڑے ہوںاسی لئے وہ ایسے اتحاد کی مخالفت کرتے ہیں۔بلکہ
بسااووقات وہ اختلافات کو ہوادینے کی بھی کوشش کرتے ہےں ۔ورنہ کسی جماعت کا
اپنے وطن ، ملک اور اپنی جانوں کی حفاظت کیلئے دشمنوں کے سامنے
کھڑاہونادہشت گردی کےسے ہوسکتی ہے؟اگر مزاحمت اور دفاع کی وجہ سے دہشت گردی
کاالزام لگاےاجاسکتاہے تو اسرائیل جس نے سالوں سے فلسطینیوں کاجینادوبھر
کررکھاہے ، اس کے ساتھ امریکہ کیوں کھڑاہے۔سینکڑوں نونہالوں کی قاتل
اسرائیلی فوج کو دہشت گردی کے الزام سے کیوں بری رکھاگیاہے۔ان ساری باتوں
کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ امداد کے نام پر امریکی نوالے صرف غیرت وحمیت کو
ناکارہ کرنے کے لئے دیے جاتے ہےں اوراسرائیل سے نبرد آزما قوتوں پر دہشت
گردی کالیبل لگاکر پوری دنیاسے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اگر
ایسا نہیں ہے تو امریکہ نے اتحاد کے بعد جس طرح امداد بند کرنے کااعلان
کیاہے اسی طرح کئی مواقع پر اسرائیلی نافرمانیوں پر صرف ’اظہارناراضگی ‘
جتاکر کیوں رہ گیا۔ ہرروز فلسطینی عوام کے ساتھ اسرائیلی فوج بربریت
کامظاہرہ کرتی ہے ، القدس کے کنارے کنارے کھدائی کرتی ہے، مسلمانوں کو مسجد
اقصی میں داخل ہونے سے روکتی ہے، اس وقت امریکہ کی زبان سے صدائے احتجاج
کیوں بلند نہیں ہوتی۔حقیقت یہی ہے کہ امریکہ صرف اسرائیل کے استحکام کیلئے
کوشاں ہے، اسے فلسطین کے امن و سکون سے کوئی دلچسپی نہیں۔
یوں تو ہر مسلم واقف ہے کہ یہود اور مملکت اسرائیل کا مقصد ہی مسلمانوں کی
تباہی اور بربادی ہے ۔ لیکن امریکہ نواز مسلم حکمرانوں کو اب سمجھنے کی
ضرورت ہے کہ یہ ان کا دوست نہیں ہے، بلکہ یہ اسرائیل کادلال ہے۔سیاسی
اختلافات تو ہوتے ہی رہتے ہیں ، لیکن اسلام ،مسلمان اور وطن کے مفادکو ان
اختلافات کی بھینٹ نہیں چڑھاناچاہئے ۔ شاید اگر فلسطینی متحد ہوتے تو
اسرائیلیوں کا زور اس قدر نہیں بڑھ پاتا۔اس لحاظ سے الفتح اور حماس کا یہ
قدم قابل صدمبارک اورلائق تحسین ہے۔چاہے اس اتحادکے عوامل کچھ بھی رہے
ہوں،لیکن اگر اب بھی اسلامی حمیت جاگ جائے اور ارض فلسطین کیلئے یہ دونوں
جماعتیں مل کر لڑیں تو پوری اسلامی دنیاان کے ساتھ ہوگی۔ |