تھری جی اور انٹرنیٹ

پاکستان میں تھری جی کی نیلامی کے بعد اب محسوس کیا جارہا ہے کہ موبائل صارفین کو انٹرنیٹ کی سہولت زیادہ سے زیادہ اور آسان سے آسان ہوجائے گی۔ تھری جی کی نیلامی سے قبل ہر شخص جیسے پریشان تھا کہ آخر یہ ہے کیا ۔ ہر طرف اس کے چرچے چل رہے تھے اور اب جبکہ اس کی نیلامی ہوچکی ہے اور مختلف نیٹ ورک کی کمپنیوں نے زیادہ کم اپنے حساب سے اس کو جیتا ہے۔

آج ہم جی تھری کی باتیں کر رہے ہیں اور اس زمانہ کو سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ قرار دے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب انسان پتوں پر گزارہ کیا کرتا تھا ۔ انٹرنیٹ اس دور کی حیرت انگیز اور تاریخ ساز ایجادات میں سے ایک ہے۔

انٹر نیٹ کو رابطے کا تیز اور مؤثر ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ موبائل فونز ، سمارٹ فون ، لیپ ٹاپ اور اینڈرائڈ کی ایجادات نے بھی انٹرنیٹ کی مشہوری میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ پاکستان میں حد سے زیادہ مہنگائی کے باوجود ہر دوسرے گھر میں انٹرنیٹ کا استعمال عام ہو چکا ہے ۔ گھر میں اگر پانچ افراد رہتے ہیں تو ان میں سے چار کے پاس موبائل فون جس میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہوگی۔

یوں تو سائنس کی ہر ایجادات نے انسان کوفائدے پہنچایا ہے مگر کچھ ایجادات ایسی بھی ہیں جن سے فائدے کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی اٹھانے پڑے ہیں۔ ماہرین کے مطابق انٹرنیٹ سے نفسیاتی امراض بڑھنے کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ جبکہ اس کے ٹیکنکل مسائل سے بڑھ کر اس کے استعمال سے بھی ہمارے معاشرے میں خطرناک مسائل جنم لے رہے ہیں۔ انٹرنیٹ سے ایک دوسرے سے رابطوں کا سلسلہ طور عام اور آسان ہوگیا تاہم ان رابطوں کے نتیجے میں ہونے والی خودکشیوں، اغوا برائے تاوان، سائبرکرائم اور ناجانے کیا کچھ ایسا ہوتا ہے جسے ہم شمار نہیں کرسکتے۔ ہندوستان میں نوجوان لڑکی کو انٹرنیٹ استعمال کرنے پر والدین نے لڑکی پر پابندیاں عائد کردیں جس کے نتیجے میں لڑکی نے اپنی جان دے کر ان پابندیوں سے خود کو آزاد کرالیا۔ ایسے ہی لندن میں ایک لڑکی کی فیس بک کی وجہ سے نوجوان لڑکی نے خود کشی کرلی۔

آج ہمارے لئے جو لمحہ فکریہ ہے وہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر تعداد جو انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے ان میں نوجوان اور کمر عمر طبقہ ہے۔ یہ عمر کے وہ دن ہوتے ہیں جب انسان اچھے کی بجائے ہمیشہ غلط راہ کو اختیار کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں انٹرنیٹ کے غلط استعمال ہونے کا سو فیصد چانس بڑھ جاتا ہے۔ اگر ان کو کوئی روک ٹوک بھی کرے تو یہ ان پر بے جا قسم کی پابندیاں ہوتی ہیں اور ان پابندیوں سے آزادی کسی خطرناک حادثے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ اس لئے زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے یا تو خودکشی کرنے پر مجبور کرتے ہیں یا پھر انہیں برباد ہوتا دیکھتے رہتے ہیں ۔

انٹرنیٹ کے استعمال میں سب سے اہم اور بڑا نقصان فضول وقت کا ضیاع ہے۔جبکہ اس سے بڑھ کر اس پر غلط قسم کی حرکتیں کرنا ، غیر اخلاقی اور حواس باختہ تصاویر اپ لوڈ کرنا اوریا ان کا کو ڈھونڈ کر دیکھتے رہنے جس سے نہ صرف بچوں کی اخلاقی قدریں گرتی ہیں بلکہ ان کی تر بیت پر بھی کافی حد تک اثر پڑتا ہے اور ساتھ میں یہ ایک ناقابل معافی جرم بھی ہے۔

آج کل انٹرنیٹ کا استعمال کام کاج کی بجائے تفریح اور ٹائم پاس کی حد تک رہ گیا ہے۔ سماجی ویب سائٹ ٹیوٹر، فیس بک ودیگر پر اکثر اوقات میں نوجوان اپنا وقت ویسٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی جہاں دیگر خرابیاں واقع ہوئی ہیں وہیں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ پر شادیاں کی جاتی ہیں جو کہ غیر قانونی ہے۔ نہ تو اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہمارا قانون۔ ایسے میں کسی سے شادی کرنا جس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہو نہ صرف بعد میں پریشانی کا باعث بنتا ہے بلکہ ازدواجی تعلقات کو متاثر کرنے میں بھی اہم قردار ادا کرتے ہیں۔ دو سے بڑھ کر ناجانے کتنے خاندانوں کی زندگیاں داؤ پر لگ جاتی ہیں۔

ہمیں انٹرنیٹ کے استعمال کو اپنے اہم مقاصد اوربا مقصد کاموں کے طور پر کرنا چاہیے۔ ایسے میں والدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں کہ وہ انٹرنیٹ کو کس انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔ اگر آج والدین توجہ نہیں دیں گے تو کل خدا نخواستہ ان کے بچے کوئی غلط قدم اٹھائیں گے تو پھر بدنامی والدین کی بھی ہوگی اس لئے اس سے پہلے کہ کوئی اور آکر آپ کو بتائے آپ خود اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیں۔

Sheeren Ashraf Abbasi
About the Author: Sheeren Ashraf Abbasi Read More Articles by Sheeren Ashraf Abbasi: 1317 Articles with 1028775 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.