فلسطین کے اندر غزہ پٹی کے علاقے میں الفتح اور حماس کے
ایک مشترکہ اجلاس میں دونوں تحریکوں کے رہنماؤں نے ۵ ہفتوں کے اندر
ایکمتحدہ عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کرلیا ہے۔ اس موقع پر فلسطین کے
منتخب وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے کہا یہ قومی معاہدہ اتحاد کا نیا باب ہے۔
ہنیہ کے مطابق انتخابات کے ذریعہ حکومت اور شراکت ہی امن کی راہِ نجات ہے۔
انہوں نے اپنے موقف کو واضح کرتے ہوئے فرمایا بیت المقدس ، مسجد الاقصی اور
فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی جیسے اہم قومی مسائل کی بابت حماس کی حکمت
عملی غیرمتزلزل ہے ۔ اس موقع پر الفتح تنظیم کے معمر رہنما عزام الاحمد نے
بھی دونوں تنظیموں کے اتحاد اور متحد فلسطین کو اہم مقصد بتایا ۔ یہ ملاقات
تقریبا ۶ گھنٹے تک جاری رہی اور اس میں دونوں تنظیموں نے مل کر حکومت بنانے
پر زور دیا۔
غزہ میں ساحلِ سمندر پر واقع مہاجرین کے کیمپ میں معاہدے کے بعد وزیراعظم
اسماعیل ہنیہ نےجب اعلان کیا کہ ’یہ ہمارے عوام کے لیے خوش خبری ہے۔ تقسیم
کا دور ختم ہو چکا ہے۔‘ توغزہ میں فلسطینی عوام نے اس خبر کا خیرمقدم کرتے
ہوئے جشن منایا اور ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ دو بھائیوں کے درمیان
اتحاد آشتی کا پھر سے قائم ہو جانے پر فرحت و انبساط ایک فطری عمل ہے لیکن
جو دوست نما دشمن بھائیوں کوآپس میں لڑا کر ان کی دشمنی کا فائدہ اٹھانا
چاہتے ہیں ان پرغم و اندوہ کے کالے بادل چھاگئے۔ امریکہ نے کہا کہ اسے
فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت 'تنظیمِ آزادی فلسطین (پی ایل او)' اور
اسلام پسند مزاحمتی تنظیم 'حماس' کے درمیان ہونے والی مفاہمت پر مایوسی
ہوئی ہے۔ واشنگٹن میں امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان جین پساکی نے دونوں
فلسطینی گروہوں کے درمیان معاہدے کے وقت کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا
کہ امریکی حکومت کو اس سمجھوتے پہ افسوس ہوا ہے۔امریکہ کے اس ردعمل نے اس
کے دل میں چھپے بغض و عناد کی چغلی کردی اور ظاہر کردیا کہ بظاہر ہمدردی کا
دم بھرنے والی اس خوشنما نقاب کے پیچھے کیسی خباثت پوشیدہ ہے ۔بقول شاعر ؎
مجھ میں اور ان میں سبب کیا جو لڑائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
امریکی ترجمان کے مطابق اس معاہدے کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن
کے لیے امریکی سرگرمیوں اور فلسطین و اسرائیل کے درمیان مذاکرات جاری رکھنے
کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ اس میں شک نہیں اب وہ مذاکرات پوری طرح
بے معنیٰ ہوگئے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کو اس پر افسوس
کیوں نہیں ہے؟ اس کی وجہ صاف ہےان مذاکرات سےان کو سوائے دھوکہ اور فریب کے
کچھ بھی نہیں مل رہا تھا ۔ مذاکرات کا تماشہ بند ہوجانے سے اسرائیل کا ضرور
نقصان ہواہےجس کا اظہارامریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان نے اس طرح کیا کہ اس
سمجھوتے کے بعد اسرائیل سے یہ توقع کرنا بہت مشکل ہوگا کہ وہ ایک ایسی
فلسطینی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرے گا جو اس کے وجود کا حق ہی تسلیم نہیں
کرتی۔ امریکہ کو اسرائیل سے کیا توقعات ہیں یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن
مسلم دنیاکو اس غاصب و سفاک درندے سے کوئی توقع نہیں ہے۔ایک سوال یہ بھی
اگر تحریک ِحماس اسرائیل کا ناجائز وجود تسلیم نہیں کرتی تو کیا اسرائیل
اور امریکہ فلسطینیوں کی آزادی و خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں ؟ یہ عجب ہٹ
دھرمی ہے کہ مذاکرات میں شامل ایک فریق اپنی ساری شرائط منوانے پر مُصر
ہوثالث بھی اسی کا ہمنوا ہوانیز دونوں فریقِ ثانی کی کسی بات کو نہ مانیں ۔
امریکہ کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ یہ معاہدہ دراصل فلسطینی اتھارٹی اور
اسرائیل کے درمیان امریکی کوششوں سے ہونے والے امن مذاکرات میں بار بار
پیدا ہونے والے تعطل کا نتیجہ اورمحمود عباس کا اسرائیل کے خلاف جوابی
اقدام ہے۔ اسرائیل نے ان مذاکرات کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس
میں کئے گئے فیصلوں کا کبھی بھی احترام نہیں کیااور نہ امریکہ نے انہیں
منوانے کیلئے زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر کوئی اقدام کیا۔ اس لئے ان
مذاکرات کو امریکہ اور اسرائیل منہ پر دے مارنے کے علاوہ محمود عباس کے پاس
کوئی چارۂ کار نہیں تھا ۔ اس دانشمندانہ اقدام پراسرائیل کا ردعمل امریکہ
سے دو ہاتھ آگے ہے۔ بنیامن نیتن یاہو نے فوراًسکیورٹی کابینہ کا ہنگامی
اجلاس طلب کرلیا تاکہمذکورہ معاہدے پر اسرائیل کے باضابطہ ردِ عمل کا فیصلہ
کیا جائے لیکن یاہو کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم تھا کہ اس نے کابینی اجلاس میں
کوئی مشورہ کرنے سے قبل ہی غزہ پر فضائی حملہ کرکے ۱۲شہریوں کے زخمی کردیا۔
صدر محمود عباس نے جب گذشتہ دنوں حماس کی قیادت سے مذاکرات کے لیے فتح کا
اعلیٰ سطحی وفد غزہ بھیجا تو اسرائیل چوکنا ہو گیا ۔ نتن یاہو نے اپنے
دھمکی آمیز انداز میں محمود عباس کو حماس کے ساتھ مصالحتی مذاکرات پر
خبردار کیا اور کہا کہ انہیں اسرائیل اور اس کی دشمن جماعت حماس میں سے کسی
ایک کا انتخاب کرنا ہوگالیکن جب اسرائیل کی گیدڑ بھپکی کو جوتے کی نوک پر
اڑا فلسطینیو ں آپس میں مصالحت کرلی تو یاہو نے کہا’’ محمود عباس حماس کے
ساتھ امن چاہتے ہیں یا اسرائیل کے ساتھ؟عباس نے حماس کو گلے لگا کر اپنی
ترجیحات واضح کردی ہیں ‘‘انتہا پسند اسرائیلی وزیر خارجہ ایویگڈور لائبرمین
نے وزیراعظم کے اس دھمکی کو کافی نہیں سمجھا اور کہا تھا کہ محمود عباس نے
اگر حماس کے ساتھ قومی اتحاد کے معاہدے پر دستخط کیے تو یہ اسرائیل اور
فلسطینی اتھارٹی کے درمیان مذاکرات کی منسوخی پر دستخط ہوں گے۔ لائبرمین
بولا محمود عباس حماس اور اسرائیل میں سے کسی ایک کے ساتھ ہی امن قائم
کرسکتے ہیں۔ اسرائیل کے اس احمقانہ ردعمل پر محمود عباس کا رویہ معمولی
ترمیم کے ساتھ مضطر خیرآبادی کا اس شعر کی مصداق ہے ؎
تمہیں چاہوں، تمہیں نہ چاہنے والوں کو نہ چاہوں
مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
فلسطینی صدر کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے اسرائیلیوں کی اس غوغا آرائی پر
تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے درمیان اتحاد ہمارا داخلی معاملہ
ہے۔محمود عباس نے امن اور فلسطینی عوام کے اتحاد کا انتخاب کیا ہے کیونکہ
فلسطینیوں کے درمیان اتحاد سے امن کو تقویت ملے گی نیز مصالحت اور مذاکرات
میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ویسے بھی اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کاروں کے
درمیان امن عمل سکراتکے عالم میں اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا اس کے خاتمہ
تاریخ ۲۹ اپریل ہے۔ ان مذاکرات کے حوالے سے اسرائیل کا موقف نہایت دلچسپ
اور منافقت کی اعلیٰ ترین مثال ہوتا ہے۔ ایک طرف تو وہ کہتا ہے کہ اس گفتگو
میں سارے فلسطینی شامل نہیں ہیں اس لئے کہ حماس اس سے الگ ہے۔فلسطینیوں کے
اندر آپسی اتفاق و اتحاد کا فقدان ا سے بے فائدہ بنا دیتا ہے لیکن جب
اتحاد و مفاہمت ہوجاتی ہے تو کہتا ہے کہ جب آپ نے حماس سے ہاتھ ملا لیا ہے
تو ہم آپ سے بات نہیں کرسکتے ۔گویا ’چت بھی میری اور پٹ بھی میری ‘کی
مصداق ہم کسی صورت امن نہیں چاہتے والااڑیل رویہ۔ اب ایسے فریق سے گفتگو کے
جاری رہنےیا ختم ہو جانے سے فریق ثانی کاکیا بگڑتا ہے ؟
اسرائیل کی تمامترمخالفت کے باوجود فتح اور حماس کے درمیان مفاہمت کا
آغازاتفاق سے اپریل ہی کےآخری ہفتہ میں تین سال قبل ۲۰۱۱ میں حسنی مبارک
کے اقتدار سے بے دخل ہو جانےکے بعد مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہوا۔حماس
کے رہنما خالد مشعل اور الفتح کے سربراہ محمود عباس نے اس میں شرکت کی
۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس تقریب میں شرکت کے لیے ایک
سرکردہ خصوصی مندوب بھیجکر اتحاد کو سراہا۔لیکن امریکہ اور اسرائیل نے اس
وقت بھی ہو بہو اسی طرح کا منفی رویہ اختیار کیا تھا اور کہا تھا فلسطینی
اتھارٹی کو امن یا حماس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا بدقسمتی سے وہ
گفتگو بارآور نہ ہوسکی تین سال کا وقفہ گزرا لیکن فلسطینیوں کو امن کی شاخ
تو دور ایک پتہ بھی نہیں ملا۔ اس دوران دوحہ میں گفتگو آگے بڑھی اور اب اس
کو غزہ کے اندر حتمی شکل دی گئی ۔
قاہرہ یا دوحہ کے بنسبت غزہ کے اندر حماس کی میزبانی میں اس معاہدے کا وقوع
پذیرہونا اپنے آپ میں ایک بہت بڑی علامت ہے جبکہ گزشتہ سال حالات اس قدر
دگر گوں ہو گئے تھے کہ حماسکےرہنماڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کو کہنا پڑا
تھا’’فتح کے ایک ترجمان نے اسرائیل کے بجائے حماس کو اپنا مرکزی دشمن بنا
رکھا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جس میں موصوف کی جانب سے حماس کو بدنام
کرنے کے لیے کوئی نیا جعلی شوشہ نہیں چھوڑا جاتا۔ فتح کے ترجمان حماس پر
الزام تراشی اور جماعت کو بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تراشتے
ہیں‘‘۔انہوں نے صدر محمود عباس سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ اپنی جماعت کے ان
سورماؤں کی زبان کو لگام دیں جو قومی مفاہمت کی راہ میں رکاوٹ بن رہے
ہیں۔دوسری جانب اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے محمود عباس کویکے بعد دیگر
ہزیمتوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا ۔
نام نہاد امن مذاکرات جس کے خاتمہ پر آج کل ٹسوے بہائے جارہے ہیں ان کی
ناکامی کاامکان تو گزشتہ جولائی میں پیدا ہو گیا تھا جب فلسطینی اتھارٹی کے
صدر محمود عباس کی انتظامی انقلابی کونسل نےجان کیری کے منصوبے کو مسترد کر
تے ہوئے تجاویز میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔فلسطینی رکن پارلیمان مصطفی
برغوثی نے اعلان کیا تھا کہ ’’ قائدین کے اجلاس کے دوران فلسطین کے اکثر
طبقات نے اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت کے نئے آغاز کی تجاویز کو رد کر دیا
ہے‘‘۔مجلس عاملہ کے رکن واصل ابو یوسف نے مسترد کرنے کی وجوہات پر روشنی
ڈالتے ہوئے واضح کیا کہ’’جان کیری نے یہودی بستیوں کی تعمیر رکوانے کی کوئی
ضمانت دی ہے اورنہ ہی امن مذاکرات کی بنیاد ۱۹۶۷ کی سرحدوں کو بنانے کی
بات کی ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء ہی سے فلسطینی رہنما امریکہ کی
ٹال مٹول والی پالیسی کو سمجھنے لگے تھے۔
اس سال ماہِ مارچ میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے خلاف توقع
اسرائیل سے غزہ پر جاری بمباری اور کشیدگی ختم کرنے کیلئے کہہ کر سب کو
چونکا دیا۔ اسرائیل ان دنوں غزہ سے مجاہدین کے جنوبی اسرائیل پر راکٹ
برسانے کا بہانہ بنا کرمعصوم شہریوں پر بمباری کررہا تھا۔فلسطینی صدر نے
مطالبہ کیا تھا کہ ’’محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی پر حملے بند کئے جائیں۔‘‘ نومبر
۲۰۱۲کے بعد اسرائیل کی جانب سے وہ شدید ترین بمباری تھی۔ اقوام متحدہ کے
سیکرٹری جنرل نے بھی اسرائیلی حملہ کی مذمت کی تھی جس میں تین فلسطینی شہید
ہو گئے تھے۔اس کے فوراًبعد محمود عباس نے اسرائیل کے خلاف کڑہ رخ اختیار
کرتے ہوئے کہا تھا وہ کسی بھی صورت اسرائیل کو بطور صہیونی ریاست تسلیم
نہیں کریں گے اور نہ اسرائیل کے زیر تسلط مقبوضہ بیت المقدس کے صرف ایک حصے
پر فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر اکتفا کریں گے۔ انہوں نے اقوام
متحدہ میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرانے کے لیے کوشش کے دوران بین الاقوامی
دباؤ اور واشنگٹن کے اعتراضات کی مزاحمت کا بھی ذکر کیا اور کہا ’’وہ دباؤ
ڈال رہے ہیں کہ صہیونی ریاست کے بغیر امن نہیں ہوگا لیکن ہم اس کو کسی بھی
طرح تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔اس بیان سے ظاہردباؤ کس کی جانب سےڈالا جا رہا
ہے۔
اس کے برعکس نیتن یاہو کا موقف یہ تھا کہ ’’ میں تنازعے کے خاتمے کے لیے
آگے بڑھنے کو تیار ہوں لیکن ہم فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دیں گے
کیونکہ یہ تنازعے کو جاری رکھے گی۔اس لیے انہیں صہیونی ریاست کو اسی طرح
تسلیم کرنا ہوگا جس طرح وہ ہم سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ
کررہے ہیں‘‘۔یاہو نےمقبوضہ بیت المقدس کو بھی اسرائیل کی عمل داری رکھنے کا
اعادہ کردیا۔غاصب اسرائیل کے دو بنیادی مسائل ہیں ایک تو کسی بھی ناجائز
اولاد کی طرح اسے اپنے ولدالحرام ہونے کا شدید احساس ہے اسی لئے وہ کبھی
مسلم ممالک کی کانفرنس کی جانب سے اس کے تسلیم نہ کرنے کے اظہار پر چراغ پا
ہو جاتا ہے تو کبھی فلسطینیوں پر اسے تسلیم کرنے پر اصرار کرنے لگتا ہے
حالانکہ دنیا بھر کے کئی ممالک اس کو تسلیم کرچکے ہیں ۔ بقول محمود عباس
’’تنظیم آزادیٔ فلسطین (پی ایل او) ۱۹۹۳ میں اسرائیلی ریاست کو تسلیم
کرچکی ہے ‘‘ لیکن اسرائیل کو اس پر اطمینان ہی نہیں ہوتا۔ فلسطینیوں کو
خدشہ ہے کا کہ اسرائیل صہیونی ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ دراصل فلسطینی
مہاجرین کے حق واپسی کو محدود کرنے کے لیے اور صدیوں سے آباد عربوں کے حقوق
سلب کرنے کیلئے دوہراتا رہتا ہے۔ اسرائیل چونکہ غاصب اور سفاک ہے اس لئے وہ
ایک احساس جرم میں گرفتار رہتا ہے اور اسے اپنے وجود کا خوف مسلسل
ستاتارہتا ہے۔یہی وجہ ہے اگر کسی بھی گوشے سے اس کو صفٖحۂ ہستی سے مٹانے
کی آواز آتی ہے تو وہ حواس باختہ ہو کربلبلا اٹھتا ہے۔
اسرائیل چونکہ مشرقی بیت المقدس پر اپنا قبضہ اور مغربی کنارے کی وادی اردن
میں اپنی موجودگی برقراررکھنا چاہتا ہے۔اسی طرح وہ غرب اردن میں قائم یہودی
بستیوں سے انخلاء کو بھی تیار نہیں ہے۔ اسرائیلی حکومت نے غرب اردن میں
یہودی بستیوں کی تعمیر بھی جاری رکھی ہوئی ہے اورسال ۲۰۱۳ کے بعد سے
یہودیوں کی آبادکاری کا عمل دُگنا کر دیا گیا ہے۔ مصر کے اندر فوجی حکومت
کے قیام سے غزہ کا محاصرہ دن بدن تنگ ہوتاجارہا ہے ایسے میں اگر حماس اور
فتح ایک ساتھ ہو جائیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے ۔موجودہ مصالحت
کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہئے ۔غزہ آنے والے فتح کے رہنما عزام الاحمد
نے یہی کہا کہ ’’ہم تو فلسطینی جماعتوں کے درمیان باہمی اختلافات کا خاتمہ
چاہتے ہیں،خواہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات ہورہے ہوں یا نہ ہورہے ہوں، ہم
اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور غزہ و مغربی کنارے کی تعمیر چاہتے ہیں اس لئے
کہ ہم ایک ملک ہیں۔ایک ہی لوگ ہیں اور دنیا کی کوئی بھی طاقت ہماری اس مقدس
سرزمین کو پامال نہیں کرسکتی‘‘۔ اس کے جواب میں غزہ کے وزیراعظم اسماعیل
ہنئیہ نے یقین دلایا’’ہمیں قومی مصالحت کے عمل کو پایہ تکمیل کو پہنچانا ہے
اور اپنے باہمی اختلافات کا خاتمہ کرنا ہےتاکہ ہماری ایک حکومت ہو،ایک قومی
سیاسی ایجنڈا اور ایک ہی نظام ہو۔ان مذاکرات میں ناکامی کی کوئی گنجائش
نہیں ہے‘‘۔ اس صورتحال میں جبکہ مشکلات کے اندر سے خیر کا پہلو نکلتا ہوا
نظر آرہا ہے صادق حسین کا یہ شعر یاد آتا ہے
تندیِٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
فلسطین کے علاوہ ایک دلچسپ اورخوش آئند خبر تہران سے آئی جب سعودی عرب کے
نئے سفیر غرمان الشہری نےگزشتہ ماہ تہران میں اپنا عہدہ سنبھالتے وقت ایران
کے نائب وزير خارجہ حسین امیر عبداللھیان کے ساتھ ملاقات ميں ایران کے ساتھ
تعلقات میں فروغ کے لئے سعودی فرمانروا عبداللہ بن عبد العزیز کے مثبت نقطۂ
نگاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا عالم اسلام میں دونوں ملکوں کی اہمیت کے
پیش نظر اعلی سطح پر دونوں ملکوں کے تعلقات کا جائزہ لینا چاہئے ۔
عبدالرحمان غرمان الشہری نے کہا کہ علاقے اور عالم اسلام کے حساس حالات کے
پیش نظر ، ایران اور سعودی عرب کے حکام کے درمیان حکمت و درایت ، ہم آہنگي
اور مشترکہ تعاون کا ہونا ایک اہم ضرورت ہے ۔ اس ملاقات میں حسین امیر عبد
اللھیان نے کہا کہ ہمسایہ ملکوں اورعرب حکومتوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنا
ایران کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں ایران سعودی عرب کے لئے ایک
خاص اہمیت کا قائل ہے اور تمام شعبوں ميں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو
مضبوط بنانے کا خواہاں ہے ۔کاش کے یہ بے جان الفاظ اخلاص کا جامہ پہن کر
عمل کی دنیا میں آئیں ۔ عدل و قسط کا قیام اور حق کی سربلندی کا وسیلہ
بنیں۔ اس لئے کہ عدل و قسط قائم کرنا اور اعلائے کلمتہ الحق امت مسلمہ کا
فرض منصبی ہے لیکن اس کو ادا کرنے کیلئے ان دونوں ممالک کو شام و مصر کے
تئیں اپنے اپنے موقف میں تبدیلی کرنی ہو گی ارشادِ خداوندی ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو
اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا
تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ
مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش
نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا
سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر
ہے(۱۳۵:۴)
|