کہتے ہیں کہ کسی جنگل کا وزیر اعظم مر گیا۔نئے وزیر اعظم کے انتخا ب کے لئے
اعلان ہوا،بوڑھا الیکشن کمشنر بٹھا دیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے درخواستیں
وصول کرنا شروع کردیں-
گھوڑے ،شیر،ہاتھی ،ریچھ نے فارم جمع کرادئیے۔ ان امیدواروں میں ایک گدھا
بھی تھا۔ الیکشن کمشنر نے گدھے کی فارم بغیر جانچ پڑتال کے واپس کرکے کہہ
دیا کہ یہ پاکستان نہیں ہے۔خیریہ تو ایک لطیفہ ہے لیکن حقیقت میں ہم پر
گدھے ہی حکمرانی کرتے ہیں-
جنوبی کوریا کے وزیر اعظم مستعفی ہو گئے۔مستعفی ہونے کی وجہ کرپشن،لوٹ مار
یا قومی اداروں میں بدعنوانی،ٹکرائو یا اپنے من مانیاں نہیں بلکہ چند دن
پہلے ایک بحری جہاز کا ڈوبنا ہے جسمیں ٣٨١ کے قریب قیمتی جانوں کا ضیاع ہیں
۔کوریا کے وزیر اعظم کو قیمتی جانوں کے ضیاع پر سخت تنقید کا سامنا
تھا۔اپنے ایک بیان میں اس نے کہا کہ بحری جہاز حاد ثے کو روکنے اور حاد ثے
سے نمٹنے میں ناکامی پر قوم سے معافی مانگتا ہوں اور بطور وزیر اعظم اپنے
آپ کو حاد ثے کا زمہ دار سمجھتا ہوں ۔چنانچہ اس نے اپنے غلطی تسلیم کر کے
مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ صحیح ہے یا غلط،وقت ہی بتائے گا۔
پاکستان میں آئے روز کوئی نہ کوئی قومی سانحہ ہو تا ہے ۔کھبی سلالہ چیک
پوسٹ پر حملہ ۔کبھی ایبٹ آ باد میں اسامہ کے کمپاؤنڈ پرامریکی حملہ تو
کھبی کسی فوجی آڈے پر دھشت گردوں کا حملہ ،کبھی میمو گیٹ کی صورت میں حسین
حقانی جیسا مکروہ کردار تو کبھی رینٹل پاور کیس میں راجہ پرویز اشرف جیسا
کرپٹ وزیر اعظم یا راولپنڈی میں محرم میں پیش آنے والا افسوسناک
واقعہ،لیکن ہما رے غیرت مند صدر،وزیر اعظم اور وزرائ مستعفی ہونا تو بڑی
بات اس کے حق میں یا بر خلاف اول تو کچھ بولتے نہیں اگر کچھ بولے بھی تو
بڑی معصومیت کیساتھ بات ٹال مٹول کرکے بیچ بچائو کا راستہ اختیار کرکے آگے
کیطرف نکلتے ہیں ۔
کورین وزیراعظم اکیلا آدمی نہیں جس نے نیشنل ایشومیں ناکامی پر استعفی
لیا۔ اس سے پہلے بھی کئی ممالک کے وزرائ اپنے اپنے مناصب میں کوتاہیوں کی
وجہ سے مستعفی ہوگئے ہیں ۔روز روز پاکستان میں ریل کے حادثے ہو یا بیکار
جہازوں کا گرنا ،مگر یہ صاحبان اپنے کوتاہیوں اور لاپر وائیوں پر مستعفی
کیوں ہوجائے؟لوٹ مار کون کرے گا؟ بڑے بڑے مراعات کون لے گا؟بڑے بڑے فنکشنز
میں چیف گیسٹ کیطور پر بڑے پروٹوکول کے ساتھ کون جائے گا؟ بے روزگاری بڑھ
رہی ہے مگر وزیر خزانہ ڈالر کے گرنے کا گن گا رہا ہے ۔ ہم بے حس قوم ہیں ۔
ہم اپنے حق کے لئے آواز اُٹھانے والے نہیں ۔ہم من حیث القوم سوئے ہوئے ہیں
۔
قوموں کی غیرت کا اندازہ قوم کے لیڈران کے چال چلن اور رویوں سے ہوتا
ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کے سیاسی لیڈران ایک پیچ پہ نہیں ہوتے ،چاہے معاملہ
اندرونی ہو یا بیرونی۔اگر ہمارے لیڈرشپ میں غیرت ہوتی توسلالہ جیسا واقعہ
پیش نہ آتا۔ہمارے جوان شھید ہوئے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں جو آنکھیں دکھا
کر پوچھ لیتے کہ کیوں ؟ صرف مذمتی پیغامات کے شیرہیں ۔
2009 میں امارتی ریاست فجیرہ سے امریکہ کا فوجی جہازجسمیں 205 فوجی سوار
تھے ،اور یہ طیارہ بنکاک جا رہا تھا،بھارتی حدود میں داخل ہوا تو بھارتی
فضایئہ کے جہازوں نے امریکی جہاز کو ممبئی ائیرپورٹ پر اتار لیا۔بھارتی
قوانین کی رئو سے امریکہ کو سول ایوی ایشن اور ائر اپریشنز روٹنگ سے NOC
لینا تھا پر امریکہ کے اس طیارے نے صرف سول ایوی ایشن سے این او سی لیا
تھا۔30گھنٹو ں سے زائد تفتیش اور طیارے کے چیکنگ کے بعد طیارے کو روانگی کی
اجازت دی۔ اسی دوران امریکہ کے طرف سے بھارت کو دبانے کی بھی کوشش کی
گئی۔اسی طرح اور بھی بہت سے واقعات ہیں ۔2008میں افغانستان میں امریکہ کا
طیارہ سفر کرتا ہوا غلطی سے ایران کے حدود میں داخل ہوا۔ایرانی فوجی طیاروں
نے امریکی طیارے کو ایران میں اتار لیا اور تاوقتِ معافی طیارے کو روکے
رکھا۔اسی طرح زمبابوے اوروینزویلامیں بھی طیارے اتارے گئے ہیں ۔بھارتی وزیر
دفاع جارج فرنانڈس امریکہ جاتا ہے، وہاں اس کی تلاشی لی جاتی ہے اور وہ
احتجاجاََ بھارت واپس آجاتا ہے۔دو سال بعد سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھارت
آتا ہے توبھارتی حکومت اس کے تلاشی اور جوتے اتارنے کا حکم دیتا ہے۔امریکی
سفارتخانہ احتجاج شروع کرتا ہے تو بھار ت جارج فرنانڈس کے معاملے پر احتجاج
شروع کردیتاہے۔امریکی وزیر خارجہ تحریری معذرت کرتاہے۔ اس کے بعد بل کلنٹن
کو اجازت دیا جاتا ہے۔انڈیا کایہ بدلہ غیرت تھا۔ 9/11کے بعد امریکی
ائرپورٹس پر سب مسافروں کے جوتے اتارے جاتے تھے،برازیل نے صرف امریکیوں کے
جوتے اتارنے کا حکم دیا، یہ فیصلہ بھی غیرت کا تھا۔ایران میں بھی تمام
امریکیوں کے تلاشی کا بل پاس ہواگوکہ امریکی صدر اس بل سے نا خوش تھالیکن
پارلیمنٹ نے بل واپس لینے سے انکار کردیا۔ یہ بل بھی غیرت کا تقاضا تھا۔یہ
غیرت ہی تھا کہ زمبابوے، وینزویلا،بھارت اور برازیل جیسے قوموں نے امریکہ
جیسے سپر پاور سے ٹکر لیا۔آج ہمارے سرحدوں پر کبھی بھارت تو کھبی نیٹو کے
طیارے نظر آتے ہیں ۔ہمارے حکمرانوں کی غیرت سو ئی ہوئی ہے۔ہمیں بھیک کے
ڈالروں نے اندھا کر دیا ہے۔ہمارے ہی سرزمیں سے ہم پر بم گراتے ہیں ۔ہمارے
ہی لوگوں کو شھید کرکے واپس ہمارے ہی سرزمین پر واپس لینڈ کرتے ہیں ۔سابق
امریکی وزیر خارجہ پاکستانی صحافیوں سے ایک ٹاک شو میں کہتی ہے کہ اگر
پاکستان پیسے نہ لیں تو ہم پاکستان پر کچھ بھی مسلط نہیں کر سکتے۔ایوانِ
صدر میں ہالبروک کے سامنے پاکستانی وزرائ کھڑے کئے جاتے ہیں اور وہ وزرائ
کی بے عزتی کرکے چلاجاتا ہے اور اسی ہالبروک کو بھارتے کے لئے ایلچی بنایا
جاتا ہے تو بھارت اُسے ایلچی ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔اگر ہم بھیک مانگنا
چھوڑدے تو شائد ہم میں غیرت آجائے۔تب ہم جاکے دوسروں کے آنکھو ں میں
آنکھیں ڈال کر اپنے مطالبات منوائے گے،تب ہمارے سرحدوں کی خلاف ورزی نہیں
ہوگی،تب دوسرے ممالک کے ہوائی اڈوں پر پاکستانیوں کے ساتھ بدسلوکی نہیں
ہوگی۔تب پاکستان اور پاکستانیوں کی عزت ہو گی ۔تب ہلالی پرچم کو احترام کے
نظر سے دیکھا جائے گا۔لیکن غیرت کہا ں بکتا ہے؟ کہا ں سے خرید کر
لائے؟غیرملکی ہمارے ملک میں آکر ہمارے ہی پاکستانیوں پر گولیاں چلاکر
مارتے ہیں اور ہم انہیں پروٹوکول کے ساتھ باہر بیجھتے ہیں ۔ کتنے بے گناہ
پاکستانیوں کو ہم نے امریکہ کے حوالے کئے ہیں اور نہ جانے یہ سلسلہ کب تک
چلتا رہے گا۔ جب تک ہم میں خود اعتمادی نہیں آجاتی،جب تک ہم اپنے پیروں پہ
کھڑے نہیں ہوتے ،غیرت نامی چیز ہم کو چھو نہیں سکتی۔ ہم ایے ہی زلیل و خوار
ہوتے رہینگے۔ایسی ہی ہر جگہ ہماری بے عزتی ہوتی رہیگی۔ حتٰی کہ برادر
اسلامی سعودی عرب بھی مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستا ن کا جھنڈا لگانے کو
فوقیت نہیں دیتا اور ہمارے بے بس سیاستدان اُف تک نہیں کہتے۔ بے چارے
احتجاج کیوں کرے؟ہمیں جھنڈالگانے سے کیا لینا دینا،ہمیں ڈالر چاہیئے۔چاہے
ہمار ا قومی غیرت بھاڑ میں جائے۔ |