یوں تو پاکستان میں ہر روز چھوٹے موٹے کھڑاک ہوتے ہی رہتے
ہیں لیکن بعض کھڑاک ایسے ہوتے ہیں جن کی گونج دیر تلک سنائی دیتی رہتی ہے ،
جیسے معروف اینکر اور قلم کار حامد میر پر قاتلانہ حملہ جس میں اُنہوں نے
موت کو تو شکست دے دی لیکن مخالفین اور ناقدین کی زبانوں پہ لگے قفل بھی
کھل گئے ۔الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر الزامات کا طوفان بپا ہے اور نیوز
چینلز باہم دست و گریباں ۔ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ اہلِ صحافت کے ہاں بہت
’’ایکا‘‘ ہے لیکن اِس لڑائی نے عیاں کر دیا کہ ہمارے یہ ’’اصلی تے وَڈے‘‘
حکمران بھی اُسی’’ نفسا نفسی‘‘ کا شکار ہیں جس میں کبھی ہمارے جمہوری
حکمران ہوا کرتے تھے ۔90 کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ بھی ایک
دوسرے کو ’’سکیورٹی رِسک‘‘ قرار دیا کرتے تھے لیکن ’’مارشل لائی رَگڑے‘‘ نے
اُنہیں اتنی عقل ضرور عطا کر دی کہ اب اُن کے ہاں وہ بھی خالص ،سَچے اور
سُچے محب ِ وطن قرار پائے جو اربوں کھربوں ڈکار گئے۔
دوسرا کھڑاک حامد میر کے بھائی عامر میر نے ISI کے چیف جنرل ظہیر الاسلام
پر براہِ راست الزام لگا کر کر دیا ۔عامر میر تو الزام لگا کر چُپ ہو رہے
لیکن نیوز چینلز پر ایسا ’’دھوم دھڑکا‘‘ شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام ہی
نہیں لیتا ۔اِس دھوم دھڑکے میں کسی نے نہ تو پنجابی طالبان کے اِس بیان کو
لفٹ کرائی کہ وہ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور نہ ہی مہمند ایجنسی کے
امیر عمر خراسانی کو ، جس نے کہا ’’اِس طرح تو ہوتا ہے ، اِس طرح کے کاموں
میں ‘‘ ۔البتہ ہمارے وزیرِ اعظم صاحب نے اِس شور و غُل سے پریشان ہو کر
فوری طور پر اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن قائم کر دیا اور حملہ آوروں کی
اطلاع دینے والے کے لیے ایک کروڑ روپے کا اعلان بھی۔ سندھ حکومت بھی لہو
لگا کر شہیدوں میں شامل ہو گئی ۔ اُس نے پچاس لاکھ انعام کے ساتھ چار پانچ
ایجنسیوں پر مشتمل ایسی تفتیشی ٹیم مقرر کر دی جس میں ISI بھی شامل ہے
۔اُدھر ہمارے خواجہ آصف سیالکوٹی نے ISI کی شکایت پر پیمرا کو پاکستان کے
سب سے بڑے میڈیا گروپ کی بندش کا لکھ کر ایسا کھڑاک کر دیا جس نے بڑے بڑوں
کی ’’بولتی‘‘ بند کر دی۔
ایک کھڑاک اُس وقت ہوا جب وزیرِ اعظم صاحب حامد میر کی عیادت کے لیے آغا
خاں ہسپتال جا پہنچے اورچیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف ISI ہیڈ کوارٹر
۔تب پاکستان کے سارے بزرجمہر ، افلاطون اور ارسطو ایک ہی’’ سُر‘‘ میں یہ
راگ الاپنے لگے کہ چونکہ وزیرِ اعظم صاحب حامد میر کی عیادت کے لیے گئے جسے
افواجِ پاکستان نے پسند نہیں کیا اِس لیے ردِ عمل کے طور پر جنرل راحیل
شریف ISI ہیڈ کوارٹر چلے گئے تاکہ حکومت کو اپنی نا پسندیدگی کا واضح پیغام
دیا جا سکے ۔کیا ہمارے اُڑتی چڑیا کے پَر گِن لینے والے میڈیا کو اتنا بھی
نہیں پتہ تھا کہ وزیرِ اعظم اور آرمی چیف دونوں کے ’’وِزٹ‘‘ پہلے سے طے
شُدہ تھے ؟۔بہرحال وزیرِ اعظم صاحب نے گوادر جا کر ایسا کھڑاک کیا کہ سبھی
بزرجمہروں کے مُنہ لٹک گئے ۔اُنہوں نے میڈیا کو مخاطب کرکے کہا ’’میرے
بائیں جانب آرمی چیف اور دائیں طرف وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ہیں اور ہم
پاکستان کی تعمیر و ترقی اور اُسے امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ایک میز پر
بیٹھے تھے ‘‘۔اِس سے پہلے جب وزیرِ اعظم ہیلی کاپٹر کے ذریعے پی این ایس
کَرم ایئر بیس پر پہنچے تو چیف آف آرمی سٹاف اُن کے استقبال کے لیے موجود
تھے ۔وزیرِ اعظم صاحب نے تو سول اور عسکری اداروں میں تصادم کروا کر اپنی
’’آڑھت‘‘ چمکانے والوں کو واضح پیغام دے دیا لیکن اگرمیاں صاحب یہ سمجھتے
ہیں کہ ’’افلاطونی دانشور‘‘ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں گے تو یہ اُن کی
خام خیالی ہے ۔آج بھی ٹکٹ نہ ملنے کا متواتر ’’سیاپا‘‘ کرنے والے دانشور نے
لال حویلی والے کی طرح، اپنے کالم میں اداروں کے تصادم کا رونا ہی رویا ہے
۔شاید یہ کوئی’’ نفسیاتی کجی‘‘ ہوجو اُنہیں ہر پَل بے کَل رکھتی ہے۔پرویز
مشرف کو تو پاکستانی ڈاکٹروں پر اعتبار نہیں لیکن حکومت اِس ’’عظیم
دانشور‘‘ کا تو نفسیاتی علاج کروا ہی سکتی ہے ۔تو کیا حکمران اپنے ’’سابق
ساتھی‘‘ کی دِگر گوں حالت پر غور فرمائیں گے؟۔
کھڑاک تو پرویز مشرف صاحب نے اسلام آباد سے کراچی ’’ہجرت‘‘فرما کر بھی کیا
لیکن یہ کھڑاک حامد میر پر قاتلانہ حملے کے شور میں دَب کر محض ایک چھوٹی
سی ’’کھڑاکی‘‘ بَن کر رہ گیا ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حامد میر پر حملہ کروایا
ہی اِ س لیے گیا کہ اُس کے شور میں پرویز مشرف صاحب کا معاملہ دَب جائے اور
وہ چپکے سے کھسک لیں لیکن ایسا ہوا نہیں اور ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ
سندھ حکومت خوب جانتی ہے کہ جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو اُس
وقت ریمنڈ ڈیوس کو چپکے سے ’’فرار‘‘ کروا کر سارا بوجھ نواز لیگ کی پنجاب
حکومت پر ڈال دیا گیا اور مرکزی حکومت پنجاب کی بے بسی پر ’’چَسکے‘‘ لیتی
رہی ۔اب اگر پرویز مشرف سندھ سے فرار ہو کر کسی دوسرے ملک سدھار جاتے ہیں
تو سارا بوجھ سندھ حکومت پر آن پڑے گا جو اُسے کسی بھی صورت قبول نہیں
۔ویسے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کا تقاضہ تو یہی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس اگر پنجاب سے
گیا تھا تو پرویز مشرف کو سندھ ہی سے جانا چاہیے لیکن’’بے اصولی‘‘تو پیپلز
پارٹی کے خمیر میں ہے اِس لیے ایسا ہونا ممکن نہیں۔اب منظور وسان صاحب لاکھ
کہیں کہ اُن کے ’’خواب‘‘ کے مطابق پرویز مشرف دس دِنوں کے اندر پاکستان سے
چلے جائیں گے ، ہمیں یقین نہیں ۔ویسے بھی وسان صاحب کے خوابوں کی تعبیر
ہمیشہ اُلٹ ہی ہوتی ہے ۔
ویسے تو ایک کھڑاک ایم کیو ایم نے بھی سندھ حکومت میں شمولیت اختیار کرکے
کر دیا لیکن ہم اسے دَر خورِ اعتناء نہیں سمجھتے کیونکہ ایم کیو ایم کی
’’آنیاں جانیاں‘‘ تو لگی ہی رہتی ہیں ۔اُس نے پہلے مرکزی حکومت میں شمولیت
کی بھرپور کوشش کی اور اسی حوالے سے وہ سندھ حکومت پر گرجتی برستی بھی رہی
لیکن میاں برادران آجکل کسی کو کَم کَم ہی ’’گھاس‘‘ ڈالتے ہیں اِس لیے چار
و ناچار ایم کیو ایم نے سندھ حکومت میں شمولیت پر اکتفا کر لیا ۔ویسے ہمیں
یقین ہے کہ اگر کبھی ’’خُدا نخواستہ‘‘ نواز لیگ کو ایم کیو ایم کی ضرورت
محسوس ہوئی تو وہ سندھ حکومت کو داغِ مفارقت دینے میں ایک لمحے کی دیر بھی
نہیں لگائے گی۔ ہم نے پہلے کبھی الطاف بھائی کے ’’کھڑاکوں‘‘ کو کوئی اہمیت
دی ہے ، نہ اب دینے کو تیار ہیں البتہ تحریکِ طالبان نے جنگ بندی کا خاتمہ
کرکے ضرور کھڑاک کرنے کی کوشش کی ۔اُنہوں نے ہمارے چار جوان شہید کیے تو ہم
نے اُن کے چالیس ’’پھَڑکا ‘‘ دیئے ۔اب طالبان مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور
اُن کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد کہتے ہیں کہ ’’ہم تو مائل بہ کَرم ہیں ، کوئی
سائل ہی نہیں ‘‘۔ایک کھڑاک تحریکِ انصاف بھی 11 مئی کو کرنے جا رہی ہے
۔محترم خاں صاحب نے کہہ دیا کہ 11 مئی کو شروع ہونے والی تحریک کا کوئی
’’اَنت‘‘ نہیں ۔شاہ محمود کہتے ہیں کہ اُن کی ’’سونامی‘‘سب کچھ بہا لے جائے
گی ۔اِس دفعہ سونامی کو ڈاکٹر طاہر القادری کی آشیرباد بھی حاصل ہے اور وہ
بھی کیل کانٹے سے لیس ہو کر کینیڈا سے پاکستان آنے ہی والے ہیں۔ہم تو خوش
ہیں کہ خوب ’’ہلّا گُلّا‘‘ ہو گا اور ہمیں اپنے کالموں کا پیٹ بھرنے کے لیے
ڈھیروں ڈھیر مواد میسر ہو گالیکن خطرہ ہے تو صرف ایک بات کا کہ کہیں سونامی
اپنا رُخ پھیر کر تحریکِ انصاف کے ساتھ ہمارے مُرشد ڈاکٹر طاہر القادری کو
بھی بہا نہ لے جائے ۔سمجھ سے بالا تَر ہے کہ آخر تحریکِ انصاف اور ہمارے
’’مُرشد‘‘ کو آخر شدید گرمی اور شدید سردی میں ہی ’’کھڑاک‘‘ کرنے کی کیوں
سوجھتی ہے؟۔کیا ’’سونامیوں‘‘ اور ’’مریدین‘‘ کا امتحاں مقصود ہے؟ |