میڈیا آزاد ہے، جمہوریت مستحکم ہے، آئن کی بالا دستی ہے
اور عدلیہ طاقتور ہے
آخر کب تک ہم ان مُہمل اور کھوکھلے نعروں سے دل کو تسلیاں دیتے رہیں گے؟
ملکی معیشت کی طرف نگاہ دوڑائیں تو غریب کا چولہا بجھ رہا ہے۔اُمراء نئے
نئے طریقوں سے اپنے جال میں شکار کو پھانستے ہیں اورسرمایہ دار لاکھوں کے
کام کے بدلے مزدوروں کواُجرت میں پھوٹی کوڑیاں دیتے ہیں۔
میڈیا نے کھرے اور کھوٹے کو اس طرح خلط ملط کر دیا ہے کہ کہ تجزیہ نگاروں
کی مو شگافیوں سے لبریز پروگرام دیکھنے کے بعد کوئی بھی نتیجہ نہیں نکل
پاتا۔اینکرز حضرات پتلی تماشے کا کھیل کھیلتے ہیں جو کہ کچھ دیر سامان تعیش
فراہم کرنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور مخلوقِ خدا مزید الجھن کا شکار ہو
جاتی ہے۔
ایک ایسی سوسائٹی، جس میں ایک مزدور بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کماتا ہے
اس میں فیشن، نت نئے ملبوسات اور تکلفات نے زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔
ان قیامت خیز حالات کے باوجود ہم اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ میڈیا آزاد
ہے، جمہوریت مستحکم ہے، آئین کی بالا دستی ہے اور عدلیہ طاقتور ہے-
لمحہ فکریہ ہے کہ اگر حکمران طبقے کی طرف سے کوئی مثبت پیش رفت ہوتی ہوئی
دکھائی نہیں دیتی تو کیا عوام نے بھی اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے
؟آخر ہم اس ذلت آمیز زندگی پر کیوں صابر و شکر ہو چکے ہیں؟ ہم خدائی اصول
کیوں بھول رہے ہیں کہ جس قوم کو اپنی حالت خود بدلنے کا خیال نہ ہو اللہ
بھی ایسی قوم کی مدد نہیں کیا کرتا۔ جن لوگون نے ہمیشہ قوم کی املاک کو
اپنی جائیداد سمجھا ہے بھلا قوم ان سے خیر کی توقع کر کے اپنے آپ کو کیوں
دھوکے میں رکھے ہوئے ہے؟
اس سے پہلے کہ خس و خاشاک بہہ جائے، عزتیں سرِ بازار تار ہونے لگیں اور
زندگی کی آخری سانسیں بھی چھین لی جائیں اب عوام کو جاگ جانا چاہیے کیونکہ
اگر اب بھی ہم نے جاگنے میں غفلت برتی تو پھر شاید وقت کبھی بھی جاگنے کی
اجازت نہ دے۔اب اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں کہ عوام خود قدم بڑھائے
اورکسی قابل اور اہل لیڈر کی قیادت میں موجودہ نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان
کر دے اور ملکی قیادت ایسے ذمہ داراں کے سپرد کر دے جو صحح معنوں میں
مسلمان اور انسانیت کے خیر خوا ہ ہوں۔ |