امرتسر سے لاہور کو آنے والی پہلی ٹرین صبح 4 بجے امرتسر
اسٹیشن سے لاہور کے لیے تیار کھڑی تھی۔ مسافروں کی بڑی تعداد ٹرین میں سوار
ہو رہی تھی۔ کچھ قلی مسافروں کا سامان اٹھا کر ڈبوں میں رکھ رہے تھے اور
کچھ قلی مسافروں سے ریٹ بڑھانے کی بحث میں مصروف تھے۔ بوڑھی حاجرہ کے پاس
اتنے روپے نہیں تھے کہ وہ قلی کی مدد لیتی، سو اس نے خود ہی اپنی گٹھڑی
اٹھائی اور درمیانے درجے کے ڈبے کی جانب روانہ ہوگئی۔ کچھ دیر بعد ٹرین کی
سیٹی کی آواز آئی اور مسافر ٹرین کے اندر چلے گئے۔ دور کھڑے خاکی وردی میں
ملبوس ایک نوجوان نے جھنڈے کی مدد سے ٹرین کو چلنے کا اشارہ دیا اور ٹرین
چل پڑی۔ حاجرہ جس ڈبے میں تھی وہ درمیانہ درجے کا ڈبہ تھا، جس میں سات اور
مسافر بھی موجود تھے۔ سارے اپنی اپنی نشست پر بیٹھے تھے،حاجرہ بھی ایک کونے
میں موجود تھی۔ ان کے ڈبے میں سبز رنگ کا ایک چھوٹا سا پانی کا کولر اور
پلاسٹک کا ایک گلاس موجود تھا، جبکہ دوسری طرف مسافروں کا سامان پڑا تھا۔
بوڑھی حاجرہ کے ہاتھ میں کالے رنگ کی خوبصورت تسبیح موجود تھی اور وہ اسے
پڑھنے میں مصروف تھی۔ ٹرین بے بہا درختوں، ندیوں، آبشاروں، جھرنوں اور
پہاڑوں کو پار کر رہی تھی۔ حاجرہ کے ڈبے میں موجود اکثر مسافر ٹرین چلتے ہی
سو گئے تھے، جبکہ کچھ جاگ رہے تھی۔ باہر سے ٹھنڈی ہوا ڈبے میں داخل ہو رہی
تھی۔ ڈبے میں حکومت ہندوستان کے لگائے ہوئے پردے غائب تھے۔ حاجرہ نے اپنی
گٹھڑی میں سے ایک دوپٹہ نکالا اور کھڑکی پر تان دیا، تاکہ باہر سے آنے والی
ٹھنڈی ہوا سے بچا جاسکے۔ ٹرین لاہور کی جانب روانہ ہو رہی تھی، ہزاروں
مسافروں میں موجود حاجرہ بھی زندہ دلاں کے شہر جا رہی تھی۔ حاجرہ کے سامان
میں موجود سوکھی پنیر اور روٹی اس کے سارے راستے کی خوراک تھی۔ وہ کبھی
تسبیح پڑھنے لگتی، تو کبھی پنیر نکال کر اسے کھانے لگتی۔ اس کے ڈبے میں
موجود کچھ مسافر اٹھتے کولر میں سے پانی پیتے اور دوبارہ اپنی سیٹ پر روانہ
ہو جاتے۔ جبکہ وہ ادھر سے نہ اٹھتی اور تسبیح اور پنیر میں مگن رہتی۔ دن کی
روشنی نے رات کے اندھیروں کو چیرا تو کچھ مسافر اٹھ گئے اور باتیں کرنے میں
مصروف ہوگئے۔ حاجرہ نے کھڑکی پے لگی اپنی چادر اتاری اور تہہ کرکے سامان
میں رکھ دی۔ وہ بھی باقی مسافروں کی طرح باہر کے حسین مناظر کو دیکھنے لگ
گئی۔ ٹرین ایک جگہ رکی تو کچھ مسافر اتر کر باہر سے پانی، سگریٹ اور پان
وغیرہ خرید کر اندر لے آئے۔ مگر بوڑھی عورت وہیں بیٹھی رہی۔ اسی ڈبے میں
موجود ایک دبلے پتلے نوجوان نے اپنے ہاتھ میں پانی کی ایک بوتل اور کچھ
بسکٹ پکڑے ہوئے تھے۔ اس نوجوان نے بڑھیا کی طرف دیکھا اور اس کے قریب جا کے
بولا:
’’سلام ماں جی۔‘‘
بوڑھی بولی :’’وعلیکم السلام بیٹا‘‘۔
’’ماں جی آپ جب سے ٹرین چلی ہے اسی طرح بیٹھی ہیں، نہ کوئی بات کی ہے، اور
نہ کچھ کھایا پیا ہے، آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘
وہ بولی :’’ہاں بیٹا میں ٹھیک ہوں اور اپنے ساتھ پنیر لے کر آئی ہوں، جب دل
کرے کھا لیتی ہوں، تم نے کھانی ہے پنیر؟‘‘ وہ بولا ’’نہیں ماں جی شکریہ، آپ
یہ پانی اور بسکٹ رکھ لیں۔‘‘
حاجرہ نے کہا: ’’نہیں بیٹا رکھو اپنے پاس، ابھی لاہور دور ہے تم کھاتے رہنا
راستے میں‘‘ نوجوان نے ’’ٹھیک ہے‘‘ کہا اور واپس اپنی کرسی پر چلا گیا۔ چند
گھنٹوں بعد ٹرین دوبارہ رُکی تو بوڑھی حاجرہ نے اس نوجوان کو اپنی طرف
بلایا اور بولی: ’’اب کونسا سٹیشن ہے؟یہ رک کیوں گی؟‘‘ نوجوان بولا: ’’ماں
جی ہم لاہور کے قریب ہیں اور پاکستانی کسٹم والے ٹرین کو چیک کر رہے ہیں‘‘۔
نوجوان حاجرہ کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔
بوڑھی: ’’بیٹا تم پاکستان کیوں جا رہے ہو؟‘‘ نوجوان نے اسے بتایا کہ اس کے
دادا دادی ہندوستان کی تقسیم کے وقت پاکستان آگئے تھے اور لاہور میں مقیم
ہوگئے تھے۔ وہ امرتسر میں لال حویلی کے قریب رہتے تھے، اور وہاں کپڑے کا
کاروبار کرتے تھے۔ جب راولپنڈی اور ملتان میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا تو
سکھوں نے انہیں امرتسر سے نکال دیا، بس تبھی سے وہ پاکستان میں مقیم ہیں۔
بوڑھی بولی: ’’تو اب تم ہندوستان کیا کرنے گئے تھے؟‘‘ نوجوان نے بتایا کہ
وہ ہندوستان میں اپنے چچا سے سے ملنے گیا تھا۔ پھر چند منٹ کی خاموشی ہوئی،
ڈبے میں موجود باقی مسافر آپس میں باتیں کرنے لگ گئے۔ اچانک نوجوان بولا:
’’ماں جی آپ لاہور کیا کرنے جا رہی ہیں؟‘‘ کیا آپ کو بھی سکھوں نے نکال دیا
تھا؟‘‘ پھر بوڑھی نے اسے بتایا کہ وہ امرتسر میں رہتے تھے، مگر جنگ کے بعد
اس کے ایک بھائی ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔ وہ
اُن سے ملنے لاہور جا رہی ہے۔ یہ سنتے ہی وہ بولا: ’’لاہور میں آپ کے بھائی
کس جگہ ہوتے ہیں؟‘‘ بوڑھی عورت خاموش ہوگئی۔ مگر جب نوجوان نے دوبارہ یہی
سوال دہرایا تو بوڑھی کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ نوجوان بوڑھی کی طرف
دیکھتے ہوئے بولا: ’’آپ رونے کیوں لگی ہیں؟‘‘ نوجوان کے اس سوال کے بعد
بوڑھی نے اسے بتایا کہ اسے نہیں پتا اس کا بھائی کس جگہ رہتا ہے۔ اسے بس
اتنا یاد ہے کہ جب آخری دفعہ لوٹ مار ہوئی تو اس کے بھائی نے انہیں یہ کہا
تھا کہ وہ لاہور کی جانب جانے لگے ہیں، بس وہ اس امید سے لاہور آئی ہے کہ
اپنے بھائی رحیم سے مل سکے۔ نوجوان یہ سنتے ہی بولا: ’’آپ کو پکا علم نہیں
کہ آپ کا بھائی کدھر ہے؟‘‘
وہ بولی :’’نہیں‘‘
’’تو پھر آپ لاہور کیوں آگئیں؟‘‘ حاجرہ بولی: ’’بس اسی امید ہے کہ وہ مجھے
مل جائے‘‘۔
نوجوان : ’’مگر وہ پاکستان کے کسی اور شہر میں بھی تو ہوسکتے ہیں‘‘ ۔
بوڑھی فوراً بولی : ’’نہیں بیٹا مجھے اﷲ سے امید ہے کہ وہ مجھے ضرور ملے
گا۔‘‘
نوجوان نے بوڑھی کو حوصلہ دیا اور اٹھ کر اپنی نشست پر چلا گیا۔
ٹرین صبح 12 بجے لاہور اسٹیشن پہنچ گئی۔ ٹرین کے رکتے ہی قلی ٹرین کے ڈبوں
میں داخل ہوگئے اور مسافروں کا سامان اتارنے لگ گئے۔ ایک قلی بوڑھی حاجرہ
کی جانب آیا اور اُس کو بولا:
’’سامان اٹھاؤں آپ کا‘‘۔
وہ بولی: ’’نہیں میں خود اٹھا لوں گی۔‘‘ بوڑھی نے سامان اٹھایا اور ٹرین سے
باہر پلیٹ فارم کی طرف چلی گئی۔ وہ نوجوان جو حاجرہ سے ٹرین میں باتیں کرتا
رہا تھا اچانک اِدھر اُدھر ہوگیا تھا۔ بوڑھی سامان اٹھائے شہر کی جانب پیدل
چلنے لگ گئی۔ باقی مسافروں میں سے اکثر نے تانگے والوں کا سہارا لیا اور
شہر کی جانب روانہ ہونے لگ گئے۔ بوڑھی پیدل چلتے ہوئے داتا دربار کے پاس
آگئی، اس نے سن رکھا تھا کہ داتا دربار لاہور کا مشہور دربار ہے اور بہت
بڑے ولی کا دربار ہے۔ حاجرہ وہاں پہنچی اور اپنے بھائی سے ملنے کی دعا کرنے
لگ گئی۔ بوڑھی انجان تھی، اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کرے اور کہاں جائے۔
اس کے پاس کسی قسم کا کوئی رابطہ نمبر بھی نہ تھا۔ وہ وہاں دو دن رکی، وہ
دربار پر بانٹی جانے والی لنگر اور نیاز پر گزارا کرتی اور وہیں سو جاتی۔
رحیم ایک نمازی اور پرہیز گار آدمی تھا۔ وہ پاکستان آنے کے بعد لاہور میں
رہنے لگ گیا تھا۔ اس نے نیلا گنبد انار کلی میں سائیکلوں کی ایک چھوٹی سی
دکان کھول لی تھی اور وہ اس دکان کی چھت پر سویا کرتا تھا۔ کافی عرصے کی
محنت کے بعد اس نے وہی دکان خرید لی اور اس کے اوپر ایک چھوٹا سا گھر بنا
لیا تھا، رحیم نے لاہور آکر امرتسر میں موجود اپنے گھر میں کئی خطوط بھیجے
تھے، جن کا اسے کوئی جواب موصول نہ ہوا تھا۔ اس کے پاس کسی قسم کا کوئی
رابطہ نمبر بھی نہ تھا جس کے ذریعے وہ اپنی بہن سے رابطہ کرسکتا۔ رحیم کی
دکان سے داتا دربار تقریباً دو کلومیٹر کی مسافت پر تھا، وہ ہر جمعرات داتا
صاحب جاتا اور لنگر تقسیم کیا کرتا تھا۔ پھر ایک دن رحیم دعا کے لیے دربار
روانہ ہوا، اس نے وہاں نماز ادا کی اور لنگر تقسیم کرنے لگ گیا۔ لنگر تقسیم
کرنے کے بعد وہ مسجد سے نکل کر باہر صحن میں آ کر بیٹھ گیا۔ اسے کیا پتا
تھا کہ اس کی بہن بھی اسی دربار میں موجود ہے اور وہ اس کی تلاش میں بھارت
سے لاہور آئی ہے۔ اس نے دعا کی اور واپس چلنے لگا پھر اچانک اس کی نظر ایک
بوڑھی عورت پر پڑی، وہ ایک کونے میں بیٹھی سوکھی روٹی کھا رہی تھی۔ رحیم کو
اس پر ترس آیا اور وہ پانی کا گلاس لے کر اس کے پاس پہنچ گیا، اس نے پانی
بوڑھی عورت کے پاس رکھ دیا، بوڑھی نے اوپر دیکھا اور کہا:
’’مہربانی‘‘۔
پانی رکھ کر وہ واپس چلنے لگ گیا ابھی وہ چند قدم ہی آگے گیا تھا کہ پیچھے
سے آواز آئی ’’رحیم‘‘ رحیم نے پیچھے مڑ کر بوڑھی عورت کو دیکھا، حاجرہ نے
اسے دیکھا، دونوں چند سیکنڈ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر یک دم رحیم بولا:
’’حاجرہ تم؟‘‘ وہ بولی : ’’جی بھائی میں‘‘ رحیم جلدی سے بہن کے قریب گیا
اور اسے گلے لگا کر رونے لگ گیا۔ بعد میں حاجرہ اور رحیم گھنٹوں دربار کی
دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے باتیں کرتے رہے۔ حاجرہ کی خوشی کی کوئی حد نہ تھی،
کیونکہ اسے کئی سال بعد اس کا بچھڑا ہوا بھائی مل گیا تھا۔ |