امریکا کا پاکستانی ایٹمی فوبیا

امریکا کا پاکستانی ایٹمی فوبیا ۔۔۔۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے اور تمام امریکی آپشنز۔۔۔؟
پاکستان کے جوہری منصوبے اور امریکی مخمصے

جیسا کہ کچھ عرصہ تک ہم پاکستانیوں میں یہ بات محض ایک خیالی اور تصوراتی ہی جانی جاتی تھی کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر اپنا قبضہ جمانے کا ارادہ رکھتا ہے تو پاکستانی حکمرانی سمیت سیاستدان اور عوام یہ سمجھتے تھے کہ ایسا ممکن نہیں ہوسکتا کہ امریکا ہمارے جوہری پروگرام پر قبضہ کرے گا؟ اور یہ قبضے کا بھلا کیوں سوچے گا؟ جبکہ ہمارے ایٹمی اثاثے تو ہماری ہی خودمختاری اور بقا کے ضامن ہیں اور اس کے ساتھ ہی جبکہ ہم ۔ ۔۔۔۔اس کے ۔۔۔۔اور یہ ہمارا بہترین دوست ہے ۔۔۔ اور تو ۔۔۔اور ۔۔۔ہم اس کے اتحادی ہونے کے ناطے اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی ہر اول دستے کا کردار اس سے بھی کہیں بڑہ کر ادا کررہے ہیں تو یہ بھلا کیوں ہمارے جوہری اثاثوں پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے؟ مگر پھر آہستہ آہستہ یہ بات حقیقت کا رنگ بھرتی گئی اور پاکستانیوں کی سمجھ میں بھی آتی گئی کہ جب پرانی اور نئی امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر اپنا کنٹرول کرنے اور قبضہ جمانے کے لئے باقاعدہ طور پر اپنی منصوبہ بندیاں شروع کردیں اور یوں گزشتہ دنوں تو امریکی صدر بارک اوباما نے ایک امریکی میگزین کو اپنے دیئے گئے انٹرویو میں اور چینی صدر سے ٹیلی فون پر پاکستان کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے یہ کہہ کر پاکستانی حکمرانوں، سیاستدانوں، دانشوروں اور ایک عام پاکستانی کو بھی حیران کردیا کہ ” امریکی فوج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو انتہا پسندوں کے کنٹرول میں جانے سے روکنے کے لئے تمام آپشنز پر غور کریں گے اور اگر پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت میں غیر مستحکم ہوا تو اس کے ایٹمی اسلحے کی حفاظت کے لئے امریکی فوج استعمال کرنے کا بھی جائزہ لو نگا “ اس موقع پر کہ جب پاکستان کو کئی محاذوں پر سنگین چیلنچز کا سامنا ہے امریکی صدر کا یہ کہنا یقیناً اپنے اندر بڑی گہرائی رکھتا ہے اِس کی اِس بات کو پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے امریکی صدر کی آئندہ کی اس پلاننگ کو بھی سمجھنا ہوگا جس کو مدِنظر رکھتے ہوئے اِس نے اتنی بڑی بات اتنی آسانی سے کہہ دی ہے اور اِس کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے اِسی کی طرح سخت ترین اور دوٹوک الفاظ میں ضرور جواب دینا ہوگا کہ اس کا منہ بند ہوجائے اور اس کے دماغ سے یہ خمار دھل جائے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں۔

جبکہ دوسری طرف بالخصوص پاکستان اور بالعموم دنیا کے دیگر ممالک کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ امریکا کوئی بھی کام ہماری طرح ایک گھنٹے، ایک دن، ایک ہفتے، ایک ماہ اور ایک سال میں بغیر سوچے سمجھے شروع نہیں کردیتا بلکہ یہ ہر کام اور ہر منصوبے سے پہلے اس میں اپنی پوری کامیابی کو یقینی بنائے بغیر یوں ہی کچا پکا کوئی بھی کام شروع نہیں کردیتا کہ بعد میں اِسے بھلے سے پچھتانا ہی پڑے اور یہ کہ اس کی کتاب میں ناکامی اور پچھتاوے جیسے الفاظ کہیں نہیں ملیں گے اس کی کتاب کے ایک ایک صفحے پر کامیابی اور کامرانی جیسے لفظوں کی مالا موجود ہے جبکہ اس نے فخریہ طور پر ناکامی اور نامرادی جیسے لفظ ہم غریب ممالک کے لئے مختص کر رکھے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ دونوں لفظ ہم پر ہی ججتے ہیں کیوں کہ ہم لوگ ہر کام بغیر سوچے سمجھے اور بغیر پلاننگ کے جو شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں بہت جلد اپنی ناکامی اور مایوسی کے طوق کو گلے لگانا پڑتا ہے بہرحال! یہ بات آج ساری دنیا کو ماننی پڑے گی اور امریکی تاریخ بھی گواہ ہے کہ امریکا ہر معاملے میں بڑا محتاط اور ہوشیار رہا ہے اور آج اس صدی میں بھی یہ اپنی اس روش پر پوری طرح سے قائم ہے کہ اس نے اپنی تعمیر و ترقی اوردنیا کی تباہی و بربادی کے لئے جب بھی کوئی نیا کام اور منصوبہ شروع کیا ہے تو اِسے کرنے سے پہلے اس نے اپنی سوفیصد کامیابی کے امکانات کا جائزہ لیا ہے اور جب اسے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے قبل یا بعد میں اِسے اس کی توقعات سے کہیں بڑہ کر کامیابی ملے گی تو پھر یہ اپنے اس منصوبے کو عملی شکل دے کر اس کام کو اپنی پوری قوت اور حکمت و کوشش سے شروع کردیتا ہے اور اس سے بھی قطع نظر یہ کہ امریکی تاریخ میں یہ بھی سنہرے لفظوں میں درج ہے کہ اِسے بسا اوقات اپنے مشن کی ابتدا کے لئے نصف صدی قبل ہی منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے دنیا کے کسی بھی خطے میں جو بھی اچھے اور برے کام کئے ہیں اس میں بھی اِسے کامیابی ہی نصیب ہوئی ہے خواہ دنیا نے اس کی لاکھ مخالفت ہی کیوں نہ کی ہو (اِس نے جس کام کا بھی بیڑا اٹھایا تو اِس میں اچھائی کا عنصر تو بہت کم ہی رہا مگر اِس منصوبے کا بیڑا غرق ہی اِس نے زیادہ ہی کیا) اور یوں اس کے ساتھ ہی کوئی اس سے بھی انکار نہیں کرسکتا کہ امریکا نے دنیا بالخصوص اسلامی ممالک کے لئے فلاح وبہبود کے کام بہت کم کئے ہیں مگر مسلم ممالک کے ہر معاملے میں اپنی ٹانگ ضرورر آڑا کر مسلم امہ کا ستیاناس اور بیڑاغرق ہی کیا ہے جس طرح اس نے ابھی حال ہی میں بالخصو ص عراق اورافغانستان کی تباہی کے بعد اور اب پاکستان کا بھی شیرازہ بکھیر نے کا منصوبہ بنا رکھا ہے یقیناً اس کے یہ منصوبے کچھ نہیں تو نصف صدی پرانے ضرور ہیں جن پر یہ بتدریج عمل درآمد کررہا ہے اور نائن الیون کے بعد تو ان میں اور تیزی آگئی ہے جب امریکا نے سات اکتوبر2001 کی شب پاکستانی وقت کے مطابق 10.30بجے اپنے جنگی طیاروں کے ذریعے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے ساتھ ہی ملکی اور عالمی مبصرین یہ کہہ رہے تھے کہ امریکا افغانستان میں گھسنے کے بعد پاکستان میں بھی گھسے گا مگر اس وقت عالمی دباؤ اور تنقیدوں کے باعث امریکا ایسا نہ کرسکا اور پھر اس کو اپنا ہدف مجبوراًَ عراق کو بنانا پڑا حالاں کہ اَدھر اِسے اپنی پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا مگر اس کے باوجود بھی آج تک یہ اپنی جھینپ یہ کہہ کر مٹا رہا ہے کہ یہاں ایک جابر اور فاسق صدام کی حکومت کاخاتمہ اس کی اولین ترجیح تھی جو اس نے صدام کے خاتمے کے بعد کامیابی کی صورت میں حاصل کرلی ہے اسی طرح جب امریکا نے عراق پر بلاجواز اپنی جارحیت مسلط کی تواس وقت بھی پاکستانی اور ساری دنیا کے تجزیہ نگار یہ ہی کہہ رہے تھے کہ امریکا کا اب اگلا نشانہ پاکستان ہے کیوں کہ عراق پر تیل کے ذخائر پر قبضہ جمانے کے بعد امریکا کا اگلاہدف پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہوں گے اس لئے کہ افغانستان پرامریکا اپنے ناپاک قدم جمانے کے بعد پاکستان کے جانب بڑھے گا تاکہ یہ پاکستان پرقابض ہونے کے بعد یہ یہاں سے چین کو زیر کرسکے خواہ اس کے لئے اِسے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دنیا پڑے مگر یہ اپنے ان منصوبوں میں کامیابی بغیر کسی بڑے نقصان اور قربانی کے حاصل کئے جارہا ہے( ماسوائے یہ کہ اپنی ان افواج کو جو زیادہ تر اس کے یہاں غیر قانونی طور پر (زناکاری) کے بعد پیدا ہونے والے (بچوں) ان نوجوانوں پر مشتمل ہے کہ جنہیں امریکی حکومت لاوارث جان کر اپنی کفالت میں لیکر انہیں پالتی ہے اور پھر انہیں اپنی فوج میں بھرتی کر کے اپنے ملک کے لئے ایک کار آمد فرد بناتی ہے اور پھر انہیں ان علاقوں میں جھونک کر انہیں ہی واصل جہنم کرواتی ہے جیسا کہ یہ اب بھی افغانستان میں کرارہی ہے اوراس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکا اپنے ان منصوبوں میں کامیابی محض اپنی فوجی جارحیت کے بدولت ہی حاصل کر رہا ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ امریکا کی نظر آج سے ہی نہیں بلکہ اس وقت سے ہی پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر جمی ہوئی تھی کہ جب سے پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں خطے میں توازن برقرار رکھنے کے لئے اپنا ایٹمی دھماکہ کیا تب سے ہی امریکا، بھارت اور اسرائیل کی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی بھی طرح سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا خاتمہ کرایا جائے بدقسمتی سے انہیں یہ موقع سوات میں مٹھی بھر انتہا پسندوں اور طالبان (جو خود بھارتی، امریکی اور اسرائیلی ایجنٹ ہیں) نے دینے کی کوشش کی مگر اس میں بھی انہیں پوری کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ کیوں کہ موجودہ پاکستانی حکومت اور صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور سپہ سالار اعظم فخر پاکستان چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی دور اندیشی اور بالغ النظری نے حالات کی نزاکت کو بھانُپتے ہوئے سوات اور اس سے ملحقہ علاقوں کو انتہا پسندوں اور طالبان (مسلمانوں کے روپ و لبادے میں ملبوس دہشت گردوں) سے خالی کرانے کے لئے فیصلہ کن فوجی آپریشن اپنی پوری قوت سے شروع کر رکھا ہے جس میں سیکورٹی فورسز کو توقعات سے بھی بڑہ کر کامیابیاں مل رہی ہیں اور یہ بھی امید ہے کہ یہ فوجی آپریشن جلد پایہ تکمیل کو پہنچے گا اور اس طرح حکومت کا یہ بھی عزم ہے کہ ملک سے انتہا پسندوں اور طالبان کے مکمل خاتمے تک یہ آپریشن راہ راست جاری رہے گا۔ اس طرح یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کسی انتہا پسند کے ہاتھ لگ جائیں۔ اس کے باوجود میں یہاں ان لوگوں سے بھی یہ کہنا چاہوں گا کہ جو اس فکر میں دبلا ہو رہے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کہیں غلط ہاتھوں میں نہ چلے جائیں تو ان سے میری یہ درخواست ہے کہ پاکستان کوئی غیر ذمہ دار ملک نہیں کہ وہ اپنی یہ ذمہ داری بھی ٹھیک طرح سے نہ نبھا سکے انہیں اس بات کی ہرگز فکر نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے غیر محفوظ ہیں بلکہ انہیں تو یہ فکرکرنی چاہئے کہ پاکستان کی ہر معاملے میں بڑہ کرمدد کریں تاکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ان کی جنگ لڑسکے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972201 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.